ہر وہ عادت جو ہاتھ دھوکر کسی کے پیچھے پڑ جائے اور جس سے بظاہر کوئی نمایاں‘ قابلِ ذکر فائدہ بھی نہ پہنچتا ہو لَت کے درجے میں آتی ہے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی عادت فکری یا نفسی ساخت سے چمٹ جائے تو کبھی کبھی جان جانے ہی پر چُھوٹتی ہے۔ عادت اچھی ہو یا بُری‘ جب پختہ ہوکر حواس پر سوار ہوجائے اور تمام انسانوں کے لیے ناگزیر سمجھے جانے والے معمولاتِ زندگی پر اثر انداز ہونے لگے تو اُسے لَت جان کر اُس سے نجات پانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ کوئی بھی عادت آخر کیونکر لَت میں تبدیل ہوتی ہے؟ کیا لازم ہے کہ اچھی بات بھی لَت بن کر انسان کو پریشانی سے دوچار کرے؟ انسان آخر کس طرح کی عادتیں اپناکر اپنی زندگی کو زیادہ متوازن اور بارآور بناسکتا ہے؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوال ہم میں سے بہت سوں کے ذہنوں میں مختلف انداز سے تشکیل پاکر گردش کرتے رہتے ہیں۔
ہم زندگی بھر عادتوں کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ کسی کام کو تواتر سے کرنے پر وہ ہمارے لیے عادت بن جاتا ہے کیونکہ اُسے کرنے میں ہمیں زیادہ مشقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جب کوئی بھی متواتر سرگرمی عادت بنتی ہے تو ہمارے لیے بائیں ہاتھ کے کھیل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آپ نے کھلاڑی تو دیکھے ہی ہیں۔ جو کھلاڑی بہت زیادہ مشق کرتے ہیں اُن کے لیے کھیل مزاج کا حصہ اور عادت بن جاتا ہے۔ ایسے کھلاڑیوں کے لیے اچھی کارکردگی کسی بھی درجے میں غیر معمولی مشقّت کا معاملہ نہیں رہتی۔ وہ تھوڑی سی توجہ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایک دنیا کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہی حال دوسرے بہت سے شعبوں کا ہے۔ اداکاری ہی کو لیجیے۔ بعض اداکار تیس‘ چالیس سال تک اداکاری کرکے بھی کچھ زیادہ نہیں کر پاتے اور بعض اداکار خاصی کم مدت میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ایسا صرف لگن، محنت اور مشق سے ہوتا ہے۔ جو سیکھتا ہے وہ پاتا ہے کیونکہ سیکھنے کی صورت ہی میں کارکردگی کا گراف بلند ہو پاتا ہے۔ اگر کوئی سو سال بھی اداکاری کرے مگر اُس کے اندر اداکار نہ پایا جاتا ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کر پاتا اور لوگ بھی اِس بات کو محسوس کرنے میں غلطی نہیں کرتے۔ بھرپور لگن اور دلچسپی دکھائی دے جاتی ہے۔ اُتھلے پانیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور گہرائی میں جاکر تیرنے میں بہت فرق ہے۔
کوئی بھی عادت پختہ ہوکر مہارت بنتی ہے مگر یہ لَت بھی بن سکتی ہے۔ کسی بھی پختہ عادت کو لَت اُس وقت قرار دیا جائے گا جب اُس سے کچھ حرج واقع ہوتا ہو۔ اگر کسی کو مطالعے کا شوق ہے تو اچھی بات ہے۔ مطالعے سے ذہن کو وسعت ملتی ہے، سوچنے کی عادت پروان چڑھتی ہے، کسی نتیجے تک پہنچنے میں آسانی ممکن ہو پاتی ہے۔ مطالعے ہی سے انسان اِس دنیا کو اچھی طرح سمجھنے اور برتنے کے قابل ہو پاتا ہے لیکن مطالعے کو تمام معاملات پر ترجیح نہیں دی جاسکتی، بالخصوص زندگی کے عملی پہلو پر۔ جہاں عمل ناگزیر ہے وہاں تفکر کی گنجائش گھٹ جاتی ہے۔ بہت زیادہ مطالعہ انسان کو ذوقِ عمل سے محروم کردیتا ہے۔ دنیا بھر کی چیزیں پڑھنے والے بالآخر خیالی دنیا کے مکین ہوکر رہ جاتے ہیں۔
عام آدمی کے ذہن میں لَت کا مفہوم خاصا غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ وہ ہر اُس عادت کو لَت سمجھتا ہے جس کا تعلق نشے سے ہو۔ مثلاً تمباکو نوشی کو لَت سمجھا جاتا ہے۔ اِسی طور شراب یا کسی اور نشہ آور چیز کو بھی لَت کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ شراب، سگریٹ، بیڑی، گٹکا، نسوار‘ اِن تمام اشیا کا استعمال لَت ہی کہلائے گا مگر معاملہ یہاں تک محدود نہیں۔ اور بھی بہت سی قبیح عادتیں ہیں جو ہمارے پیچھے پڑ کر ہماری نفسی ساخت کا حصہ بن جاتی ہیں اور پھر ہم اُن کے غلام سے ہوکر رہ جاتے ہیں۔
موسیقی سے محظوظ ہونا ذوقِ سلیم کی علامت ہے مگر دن میں چار پانچ گھنٹے موسیقی ہی سے محظوظ ہوتے رہنا لَت ہے۔ یہی معاملہ فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کا بھی ہے۔ ہفتے میں ایک آدھ اچھی فلم دیکھنا معقول بات ہے۔ اِسی طور ہفتے میں ایک آدھ اچھا ڈراما دیکھنا بھی کچھ بُرا نہیں مگر یہ کیا کہ روزانہ چار‘ پانچ گھنٹے ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ کر ڈراموں اور فلموں کا مزہ لیا جائے۔ اگر کوئی روزانہ تین‘ چار گھنٹے فلمیں یا ڈرامے دیکھنے پر صرف کرے تو اس کے معاملات ناگزیر طور پر عدم توازن سے دوچار ہوں گے۔
شہری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو تحت الشعور کی سطح پر فعال رہتا ہے اور رفتہ رفتہ ہماری نفسی سخت کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ شہر کا ماحول انسان کے مزاج میں ایسی بہت سی چیزیں داخل کرتا رہتا ہے جن کا اُسے فوری طور پر اندازہ یا احساس نہیں ہوتا۔ جب بہت سے معاملات غیر محسوس طور پر ہماری نفسی ساخت کا حصہ بن کر جب پنپ جاتے ہیں تب اچانک ابھر کر سامنے آتے ہیں اور ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ آج ہمارے ہاں شہری ماحول میں وقت ضائع کرنے والے بہت سے معمولات نفسی ساخت کا حصہ ہیں۔ ہمارا ذہن اِس طرف جاتا ہی نہیں کیونکہ ہم اُن معمولات کو کسی بھی حیثیت سے اپنے لیے بُرا تصور ہی نہیں کرتے۔ کراچی میں دو عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران رات رات بھر چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کا کلچر خوب پروان چڑھا ہے۔ شام کو کام سے واپسی کے بعد تیار ہوکر دوستوں میں بیٹھنا اب مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ چائے کے ہوٹلوں کو زحمت اس لیے دی جاتی ہے کہ وہاں بیٹھنے کا انتظام پایا جاتا ہے۔ وہاں لوگ رات گئے تک بیٹھ کر وقت کے اجتماعی ضیاع کے عمل میں حصہ لیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جیب بھی خالی ہوتی جاتی ہے کیونکہ ہوٹل پر بیٹھیں گے تو کچھ نہ کچھ پینا پلانا بھی پڑے گا۔
رات گئے تک جاگنے کی لَت کتنی بُری ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ اِس میں مبتلا ہونے کے بعد انسان کچھ سیکھنے کے قابل رہتا ہے نہ ڈھنگ سے کمانے کے۔ کوئی طالب علم رات دو بجے تک گھر سے باہر رہ کر دوستوں کے ساتھ گپیں ہانکتا رہے گا تو صبح کے اوقات میں سکول، کالج یا یونیورسٹی میں کون سا تیر مار سکے گا؟ اگر کسی کو صبح آٹھ بجے کام پر پہنچنا ہو تو لازم ہے کہ صبح چھ بجے بیدار ہو۔ اِس کے لیے رات گیارہ بجے تک سونا لازم ہے۔ اب آپ ہی سوچئے کہ کوئی رات کے دو‘ ڈھائی بجے تک گھر سے باہر دوستوں کی محفل میں رہے گا تو صبح چھ بجے تک نیند کیسے پوری کرے گا۔ یہ فطری امر ہے کہ ایسا شخص نیند میں ڈوبا ہوا، جُھومتا ہوا ڈیوٹی کے لیے پہنچے گا۔ دن بھر دفتر، فیکٹری یا دکان اُس کی کارکردگی کیا ہوگی؟ کیا ایسا انسان اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہونا چاہیے۔
لَت چاہے کسی بھی چیز کی ہو، انسان کے معاشی معاملات کو بھی الجھا دیتی ہے۔ بہت زیادہ مطالعہ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ انسان زیادہ کام کرنے اور اپنے ذریعۂ معاش سے انصاف کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ایسے میں اُس کی آمدنی کا گراف گرتا ہے۔ پان، سگریٹ، گٹکے وغیرہ کی لَت بھی انسان کے معاشی معاملات کو الجھاتی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں بہت سے لوگ پان، سگریٹ، گٹکے وغیرہ پر روزانہ بالعموم ڈیڑھ‘ دو سو روپے لُٹا بیٹھتے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ ماہانہ پینتیس چالیس ہزار روپے کمانے والے کسی فرد کے پانچ چھ ہزار روپے ہر ماہ اِس طور ہاتھ سے جاتے رہیں! ستم بالائے ستم یہ کہ ایسے کسی فرد سے کہیے کہ بچوں کو مہینے میں ایک بار دو‘ چار سو کی کتابیں دلوادیا کرو تاکہ وہ مطالعے کے ذریعے اپنی قابلیت کا گراف بلند کریں تو جواب ملتا ہے اب اِتنا بچتا ہی کہاں ہے کہ بچوں کے لیے کتابیں خریدتے پھریے! لوگ اپنا شوق پورا کرنے کے لیے روزانہ دو‘ ڈھائی سو روپے پان، سگریٹ، چائے وغیرہ پر لُٹادیتے ہیں لیکن اگر ہفتے میں ایک دن اہلِ خانہ کہیں کہ شام کی چائے پر چار‘ پانچ سموسے لے آئیے تو تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے اور اِس ''فضول خرچی‘‘ و ''عیّاشی‘‘ کے خلاف لیکچر شروع ہو جاتا ہے!
زندگی توازن مانگتی ہے۔ کسی بھی عادت کو اِتنا ہی پروان چڑھائیے کہ وہ لَت نہ بنے اور زندگی کے معاشی پہلو کو متاثر نہ کرے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved