تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     18-11-2023

پاک افغان تعلقات …(حصہ دوم)

ہم عالمی قوتوں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنی تہذیب و اقدار کو جبراً دوسروں پر مسلّط نہ کریں، ہر ملک کا اپنا تہذیبی پس منظر ہوتا ہے، اپنی ثقافت ہوتی ہے، اپنی مذہبی اقدار ہوتی ہیں، ہر ملک و قوم کو یہ حق پہنچتاہے کہ وہ اپنی تہذیبی، ثقافتی اور دینی اقدار پر قائم رہے۔ مغرب، مشرقی ممالک کو دبائو میں لانے کے لیے حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، حقوقِ اَطفال اور اظہارِ رائے کی آزادی کو حربے اور پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتاہے۔ لیکن آج فلسطین میں یہ سارے حقوق اسرائیل کی جانب سے ڈنکے کی چوٹ پر پامال کیے جا رہے ہیں، مگر اہلِ مغرب نہ صرف یہ کہ ان سے صَرفِ نظر کیے ہوئے ہیں بلکہ وہ اسرائیل کے ہر ظلم پر اس کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ اسرائیل کو تو حقِ دفاع دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن فلسطینیوں کے حقِ دفاع کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ اسرائیل کے حقِ وطن کو تو ماننے کے لیے تیار ہیں اور اس کے مُدافع ہیں، لیکن فلسطینیوں کو حقِ وطن دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ واضح تضادات ہیں۔
امریکہ اسرائیل کو جدید اسلحہ بھی سپلائی کر رہا ہے، اپنا بحری بیڑا بھی اس کے دفاع کے لیے متحرک کر دیا ہے، حال ہی میں 14 ارب تین سو ملین ڈالر کی امداد بھی امریکی ایوانِ نمائندگان نے اسرائیل کے لیے منظور کی ہے، جبکہ اس کے برعکس فلسطین کا سارا انتظامی ڈھانچہ، ہسپتال، تعلیمی ادارے اور رہائشی مکانات ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، ان کی بحالی کے لیے اربوں ڈالر چاہئیں، لیکن ان کے لیے کسی امدادی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا، یہ اہلِ مغرب کی شقاوت، سنگ دلی اور ظالمانہ سوچ کی انتہا ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ 11 نومبر کو مسلم ممالک اور عرب لیگ کا جو مشترکہ اجلاس منعقد ہوا ہے، اس کا بھی کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا، فلسطینیوں کے لیے کسی بڑے امدادی پیکیج کا اعلان ہوا ہے نہ اسرائیل اور اس کے سرپرست ممالک کے خلاف کوئی اجتماعی سفارتی، اقتصادی اور تجارتی بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا ہے، بس ایک رسمی سی کارروائی ہوئی ہے، فَیَا اَسفیٰ ویَا لَلْعَجَب!
ہمارے افغان بھائیوں کو یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ سوویت یونین کے خلاف دس سالہ جنگ اور بعد میں امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف تقریباً بیس سالہ جنگِ آزادی کے دوران جو افغان شرقِ اوسط اور مغربی ممالک میں منتقل ہوئے اور اب وہاں خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، وہ پاکستان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر ہی وہاں کے ویزے لے کر گئے، نیز جس افغان قیادت نے دوحہ میں امریکہ کے ساتھ سال بھر مذاکرات کیے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے، انہوں نے بھی اپنی سفری دستاویز پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر بنائیں اور بین الاقوامی سفر کرنے کے قابل ہوئے، ان میں سے کچھ گوانتاناموبے سے رہا ہو کر آئے اور بعض پاکستانی ریاستی اداروں کی حفاظت و نگہداشت میں تھے کہ انہیں موقع فراہم کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہی ہے: احسان کا بدلہ صرف احسان ہے‘‘ (الرحمن: 60)۔ بلکہ اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں: حدیث پاک میں ہے:
''حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: لکیر کے فقیر نہ بنو کہ یہ کہو: اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھا برتائو کریں گے تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے اور اگر وہ زیادتی کریں گے تو ہم بھی ردِّعمل میں ایسا ہی کریں گے، بلکہ اپنے نفس کے تقاضوں کو شریعت کے تابع بنا کر رکھو، لوگ اچھا برتائو کریں تو تم بھی ایسا ہی کرو اور اگر وہ برا کریں تو تم کسی پر زیادتی نہ کرو‘‘ (سنن ترمذی: 2007)۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا: ''نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتے، (دوسروں کی) برائی کا ازالہ احسن طریقے سے کرو (اس کا نتیجہ یہ نکلے گا:) وہ شخص کہ تمہارے اور اس کے درمیان دشمنی ہے (اس حسنِ سلوک کے نتیجے میں) تمہارا گہرا دوست بن جائے گا، یہ خصلت صرف صبر کرنے والوں کو دی جاتی ہے اور ان کو دی جاتی ہے جو بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں‘‘ (حم السجدہ: 34 تا 35)۔
حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے عقبہ بن عامر! جو تجھ سے تعلق توڑے، تم اُس سے تعلق جوڑو اور جو (تمہاری ضرورت کے موقع پر) تمہیں محروم رکھے، تم (اس کی ضرورت کے موقع پر) تم اُسے دو اور جو تم پر زیادتی کرے، اُسے معاف کر دو‘‘ (مسند احمد: 17452)۔
کراچی میں ماضی میں ایک شعردر و دیوار پر لکھا ہوتا تھا:
وفا کرو گے، وفا کریں گے، جفا کرو گے، جفا کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے
اس کے جواب میں ایک صاحب نظر نے شعر لکھا، جو اسلامی تعلیمات کی صحیح تعبیر ہے:
جفا کرو گے، وفا کریں گے، دغا کرو گے، دعا کریں گے
نہیں آدمی ہم تمہارے جیسے، نہ وہ کریں گے، جو تم کرو گے
مناسب ہوتا اگر افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے حکومتِ افغانستان کے ساتھ ایک باوقار اور قابلِ قبول طریقہ وضع کر لیا جاتا، انہیں اپنا ضروری ساز و سامان‘ جو منتقلی کے قابل ہے‘ اور جمع سرمایہ ساتھ لے جانے کی اجازت دی جاتی، تو بہتر ہوتا۔ کیونکہ جتنے افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے، اُن سے دسیوں گنا تعداد میں افغان پاکستان میں مقیم ہیں، نیز جن کو طورخم یا چمن کی سرحد سے بھیجا جائے گا، اگر افغانستان میں اُن کے لیے روزگار کے مواقع نہیں ہوں گے، تو وہ دوسرے راستوں سے واپس پاکستان آ جائیں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے: ہماری داخلی سلامتی کے اداروں کو یہ خدشات ہیں، بلکہ یقین ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے افغان یا اُن کے شریکِ کار تحریکِ طالبان پاکستان کے لوگوں کو افغان مہاجرین کی بستیوں ہی میں محفوظ پناہ گاہیں ملتی ہیں، یہیں بیٹھ کر وہ دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، ریکی کرتے ہیں اور پھر اچانک حملہ کر دیتے ہیں۔ دہشت گردی ایک ایسا حربہ اور جرم ہے کہ اس میں پہل کا فائدہ حملہ آور کو ملتا ہے اور جب مقابل قوت پلٹ کر حملہ آور ہوتی ہے تو وہ بھاگ کر اپنی کمین گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان‘ دونوں کے مفاد میں ہے کہ پُرامن بقائے باہمی کے لیے کوئی حکمتِ عملی اختیار کریں، احسن تدبیر کریں، آپس میں تعاون اور باہمی اعتماد کی فضا پیدا کریں۔
پاکستان کے وہ علما اور سیاسی و مذہبی جماعتیں جن کی افغان جہادی تنظیموں کے ساتھ کافی قربت رہی ہے، اُن کا بھی فرض ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ساتھ ماضی کے تعلقات کے حوالے سے روابط قائم کر کے دونوں ممالک کے درمیان حالات کو سازگار بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، یہ بہت بڑی دینی، ملّی، ملکی اور قومی خدمت ہو گی۔ بہتر ہو گا کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان اور اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی اعلیٰ قیادت باہم مل بیٹھیں اور پُرامن بقائے باہمی کے لیے ایک ایسا میثاق مرتب کریں،جو دیرپا اور مثبت نتائج کا حامل ہو اور دونوں ممالک کی قیادتیں اس میثاق پر عمل درآمد کی ذمہ داری قبول کریں۔ تحریک طالبانِ پاکستان کو یقینا تخریب و فساد کا تجربہ ہوگا، یہ اُن کی فطرتِ ثانیہ بھی بن چکی ہے اور کسی حد تک اُن کا معاش بھی اس سے وابستہ ہو چکا ہے، لیکن انہیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان کی افواج منظم ہیں، تربیت یافتہ ہیں، الحمد للہ جدید اسلحہ سے لیس ہیں، پاکستانی فوج کا موٹو ''الجہاد‘‘ ہے، لہٰذا اسے دہشت گردی کی کارروائیوں سے زیر نہیں کیا جا سکتا۔ وقتی طور پر بے امنی پیدا کی جا سکتی ہے، لیکن پاکستان کی مسلّح افواج اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کے لیے پوری پاکستانی قوم مسلّح افواج کی پشت پر ہوتی ہے، اس لیے کسی قسم کی مہم جوئی مثبت نتائج کی حامل نہیں ہو سکتی۔ آپ نے پاکستان کے اندر رہنا ہے تو آئین و قانون کے دائرے میں رہنا ہو گا اور سیاست کرنی ہے تو دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح جمہوری انداز سے کرنی ہو گی، اس کی پاکستان کے آئین میں گنجائش موجود ہے۔
حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے، ہمیں بھی حکومت کے بعض اقدامات سے اختلاف رہتا ہے، لیکن پاکستان میں اس کے اظہار کے لیے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے دہشت گردی کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ قرار دیا ہے، اسے اسلامی حدود میں ''حِرابہ‘‘ اور ''مُحَاربہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور اللہ کی زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، اُن کی سزا یہ ہے کہ انھیں چُن چُن کر قتل کیا جائے یا انہیں سولی پر چڑھایا جائے یا مخالف سَمت سے اُن کے ہاتھ اور پائوں کاٹے جائیں یا ان کو (اپنے وطن کی) زمین سے نکال دیا جائے، یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور اُن کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے، سوائے اُن لوگوں کے کہ تمہارے (یعنی اسلامی حکومت کے) اُن پر قابو پانے سے پہلے انہوں نے (اپنے جرائم سے) توبہ کر لی، پھر جان لو کہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ (المائدہ: 33 تا 34)۔ نوٹ: آج کل عالمی قوانین کے تحت کسی کو وطن کی سرزمین سے نکالنا دشوار ہے، اس کا متبادل طریقہ جیل میں ڈالنا ہے تاکہ معاشرہ ایسے لوگوں کے شَر سے محفوظ رہے۔
اسلامی ریاست کے اندر منفی تخریبی اور فسادی قوتوں کا فائدہ ہمیشہ اسلام دشمنوں کو پہنچتا ہے، اگر تصادم کے دونوں فریق مسلمان ہوں تو دونوں خسارے میں رہتے ہیں، انجامِ کار کفِ افسوس مَلنا پڑتا ہے، اس لیے فراست، تدبّر اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ان تخریبی کارروائیوں سے اجتناب کرنا چاہیے، یہی ہم سب کے لیے بہتر ہے اور یہی اسلامی تعلیمات کا لازمی تقاضا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved