یہ دنیا کبھی کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ آئے بھی کیسے؟ پل پل رنگ بدلنا اِس کی فطرت ہے‘ مزاج ہے۔ کوئی کب تک نظر رکھے، کہاں تک سمجھنے کی کوشش کرے؟ اس رنگ بدلتی دنیا کے ساتھ ساتھ ہر ایک کو بدلنا ہی پڑتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے وجود کا جائزہ لینے پر حیران رہ جاتا ہے کہ دنیا کا ساتھ دینے پر وہ کیا سے کیا ہوگیا ہے! خیر‘ وقت کے ساتھ بدلنا ناگزیر ہے۔ دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اُن کا ساتھ دینا ہی پڑتا ہے۔ کہیں ساتھ چلنا پڑتا ہے اور کہیں بچ کر نکلنا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ شعور کی سطح پر ہوتا ہے۔ شعوری کوشش کے بغیر کوئی بھی دنیا کو سمجھنے، اُسے برتنے اور اُس کا ساتھ دینے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہم سب کے افکار و اعمال ہی کا نتیجہ ہے۔ کہیں اور سے کوئی مخلوق آکر یہاں کچھ نہیں کر رہی۔ یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ حتمی تجزیے میں‘ اُس کے ذمہ دار ہم ہی ہیں۔ لازم نہیں کہ کوئی قصور وار بھی ہو۔ بہرکیف‘ ذمہ داری تو قبول کرنا ہی پڑتی ہے۔
قصور وار ہونے اور ذمہ دار ہونے میں اچھا خاصا فرق ہے۔ شخصی ارتقا کے شعبے میں عالمگیر شہرت کی حامل شخصیت ڈیل کارنیگی نے کہا تھا ''اپنے کسی بھی معاملے میں قصور وار ہوں نہ ہوں‘ ذمہ دار تو آپ ہی ہوتے ہیں‘‘۔ یہ بات سو فیصد درست ہے۔ اِس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ آپ نے کسی کو ایک بڑی رقم کہیں پہنچانے کے لیے دی اور وہ شخص رقم لے کر بھاگ گیا۔ قصور وار کون ہوا؟ یقینا وہ شخص جو رقم لے کر بھاگ گیا مگر ذمہ دار کون ہے؟ یقینا ذمہ دار آپ ہیں۔ آپ کو ماننا پڑے گا کہ آپ سے غلطی سرزد ہوئی۔ کیسی غلطی؟ انسان کو پہچاننے میں غلطی تو آپ نے ہی کی۔ بس یہی ذمہ داری آپ کو قبول کرنی ہے۔ جب انسان کسی بھی معاملے میں اپنی ذمہ داری محسوس اور قبول کرتا ہے تب اصلاحِ احوال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ کبھی کبھی آپ بھی محسوس کرتے ہوں گے کہ حالات نے آپ کو ایسے مقام پر پہنچادیا ہے جو خاصا جانا پہچانا ہے یعنی محسوس ہوتا ہے کہ آپ وہاں سے کبھی گزرے تھے۔ شیونؔ رضوی نے خوب کہا ہے ؎
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
یہ دنیا چاہے جتنی بڑی ہو‘ بہر کیف محدود ہے۔ اور ہم؟ ہمارے انفرادی معاملات تو اور بھی محدود ہیں۔ ہر انسان اپنے مخصوص ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے۔ ہمارے حالات آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ آپس کے تفاعل کے نتیجے میں اچھے یا بُرے نتائج پیدا کرتا ہے۔ ہم اِس مایا جال سے بھاگ کر کہاں جاسکتے ہیں؟ ہاں‘ ایک بات ضرور طے ہے۔ یہ کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہمارے اپنے افکار و اعمال ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ کسی اور نے ہمارے خلاف سازش کی ہے اور ہمیں نیچا دکھانے کے لیے، پریشان کرنے کے لیے کچھ کیا ہے مگر غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہم ہی نے ڈھیل دی ہوتی ہے، کچھ نہ کچھ گنجائش چھوڑی ہوتی ہے کہ کوئی ہمارے خلاف جائے۔ حادثات کا معاملہ اور ہے۔ کوئی گاڑی آپ کی گاڑی سے ٹکرا جائے اور آپ شدید زخمی ہو جائیں، جان پر بن آئے تو اُسے لازمی طور پر کسی سازش کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عمومی سطح کے معاشی اور معاشرتی معاملات کی نوعیت کچھ اور ہوتی ہے۔ ہم گزر بسر کے لیے جو کچھ کرتے ہیں وہ سب کچھ ہمارے اپنے شعوری فیصلوں کے تحت ہوتا ہے۔ اِسی طور رشتوں اور تعلقات کو نبھانے کے معاملے میں بھی ہم اپنے شعوری فیصلوں ہی پر بھروسا کرتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ ہمارے فیصلے کوئی اور کیوں کرنے لگا۔
ہر انسان کو بار بار رونما ہونے والے واقعات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بہت کچھ ہے جو پلٹ کر ہماری طرف آتا رہتا ہے۔ ہم اگر شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے عادی نہ ہوں تو زندگی ایک مخصوص اور محدود دائرے میں گھومتی رہتی ہے۔ ہمیں مسلسل سوچنا بھی ہے اور کرنا بھی ہے۔ فکر و عمل کا سلسلہ رک جائے تو سبھی کچھ رک جائے۔ جب آپ فکر و عمل کی ہم آہنگی یقینی بنانے کی کوشش نہیں کرتے تب معاملات تھم سے جاتے ہیں، سبھی کچھ اٹکا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ خود کو بدلتے ہوئے زندگی بسر کرنے ہی میں عافیت ہے۔ چند بنیادی اصولوں پر ڈٹے رہنا ہے؛ تاہم عمل کی سطح پر تبدیلی کو گلے لگانا ناگزیر ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات ہم سے فکر و عمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اپنے آپ کو نہ بدلے اور پنپ جائے۔ یہ دنیا سبھی کے لیے مشکلات اور مواقع پیدا کرتی رہتی ہے۔ ہمیں دیکھنا اور سمجھنا ہوتا ہے کہ کب کس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور کب کس مشکل سے نجات پانے کی جامع حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ شعور اُسی وقت کام کا ثابت ہوتا ہے جب اُس سے مدد لی جائے، اُسے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے معاملات درست کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ ہر انسان کو مرتے دم تک سیکھنا کیوں پڑتا ہے؟ کیا سیکھے بغیر جیا نہیں جا سکتا؟ جیا جا سکتا ہے۔ کچھ نہ سیکھنے پر بھی انسان جی ہی لیتا ہے مگر ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی حالت میں انسان کس طور جیتا ہے۔ حالات سے کوئی سبق نہ سیکھنا ہر انسان کے لیے ایک آسان آپشن ہے مگر یہ آسان آپشن زندگی کو مشکل بنادیتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ آسان آپشنز کو گلے لگاکر اپنے لیے مشکلات بڑھاتے جاتے ہیں اور کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچتے کہ ایسا کرنے کی صورت میں زندگی کا تیا پانچا ہوتا جا رہا ہے۔
کامیاب زندگی وہ ہے جس میں انسان غلطیاں دہرانے سے گریز کرے۔ حالات کی تبدیلی ہمیں بار بار ایسے دو راہوں پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں ہم پہلے بھی پہنچتے رہے ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت کبھی کبھی سوہانِ روح ہو جاتی ہے۔ بعض دل دُکھانے والے معاملات کا بار بار ابھرنا ہمیں شدید ذہنی الجھن سے دوچار کرتا ہے۔ ایسے میں ڈھنگ سے کچھ کرنا تو ایک طرف رہا‘ انسان ڈھنگ سے سوچنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ ایسی کسی بھی صورتِ حال کا سامنا ہونے پر ہمت ہار بیٹھتے ہیں، سوچنا چھوڑ دیتے ہیں اور عمل کے معاملے میں بھی پژمردگی دکھاتے ہیں۔ بس یہی تو نہیں کرنا ہے۔ اگر کوئی معاملہ بار بار آپ کے سامنے آتا ہو، آپ بار بار جانے پہچانے دو راہوں یا چوراہوں پر پہنچتے ہوں تو زیادہ حیران ہونے کی ضرورت ہے نہ پریشان ہونے کی۔ یہ سب کچھ صرف آپ کے ساتھ نہیں ہو رہا، یہاں سبھی کو ایسے معاملات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ آپ کو پوری توجہ کے ساتھ کسی بھی غلطی کو دہرانے سے بچنا ہے۔ جو لغزش ہوچکی ہے اُس سے سبق سیکھنا ہے، سوچ بدلنی ہے، حکمتِ عملی درست کرنی ہے اور پوری لگن کے ساتھ اپنے کام میں گم ہو جانا ہے۔ زندگی بسر کرنے کی معقول ترین صورت یہی ہے۔ دُنیوی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ ہمیں زندگی بھر کچھ نہ کچھ سیکھنا ہی پڑتا ہے تاکہ ڈھنگ سے تبدیل ہوسکیں۔ تبدیل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان مکمل بدل جائے، پہچانا ہی نہ جائے۔ تبدیلی کا مطلب ہے تطبیق۔ ہر انسان کو حالات کی روش کے مطابق ایڈجسٹمنٹ آنی ہی چاہیے۔ غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ کامیاب وہی ہیں جو ایڈجسٹمنٹ کا ہنر جانتے ہیں۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر سمجھوتے کی طالب رہتی ہے۔ لازم نہیں کہ اصولوں پر سمجھوتا کیا جائے مگر ہاں‘ اپنے مفادات سے تھوڑا سا دستبردار ہونے سے اگر معاملات بہتر ہوسکتے ہوں تو ایسا کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ معقول طرزِ فکر و عمل یہی ہے کہ انسان جب بھی گزرے ہوئے حالات سے مماثل صورتِ حال سے دوچار ہو تو غلطی کے اعادے سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے۔ حالات اگر بار بار کسی جانے پہچانے دو راہے پر لاتے رہیں تب بھی گھبرانے کی ضرورت ہے نہ مایوس ہونے کی۔ حالات گھبرانے سے درست ہوتے ہیں نہ بدحواس و مایوس ہونے سے۔ معاملات کی درستی کا مدار ایسی طرزِ فکر و عمل اپنانے پر ہے جو حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved