مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نواز شریف کی پاکستان آمداور لاہور مینار پاکستان میں کامیاب جلسہ کے بعد بلوچستان کا دورہ بھی نہایت کامیاب رہا ہے کیونکہ بلوچستان کی درجنوں قد آور سیاسی شخصیات نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والی 30 سے زائد سیاسی شخصیات میں بی اے پی‘ نیشنل پارٹی‘ پی ٹی آئی اور پی پی پی کے سابق ارکانِ پارلیمنٹ شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ جام کمال‘ سابق وزرامیر سلیم کھوسہ‘ نور محمد دمڑ‘ ربابہ بلیدی‘ بی اے پی کے سردار عبدالرحمان کھیتران‘ محمد خان لہڑی‘ سردار مسعود لونی‘ شعیب نوشیروانی‘ عاصم کرد‘ رامین محمد حسنی اوردوستین بلوچستان کے نمایاں نام ہیں جبکہ دیگر کئی سیاسی رہنماؤں نے نواز شریف سے ملاقات کی جن میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے خالد مگسی‘ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ‘ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نواب ایاز جوگیزئی اور جمعیت علماء اسلام کے مولوی غلام سرور اور عثمان بادینی شامل تھے۔ اس موقع پر نواز شریف نے یقین دلایا کہ جس طرح ماضی میں سب کو ساتھ لے کر چلے تھے ‘اس مرتبہ بھی وہ پرانی روایت کو برقرار رکھیں گے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق آئندہ 10 روز میں نواز شریف کا سندھ کا دورہ متوقع ہے جس دوران وہ مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے اور سندھ میں اہم شخصیات( ن) لیگ میں شمولیت کا اعلان کریں گی۔ یہ بالکل ویسے ہی ہو گا جیسے بلوچستان میں ہو چکا ہے۔ نواز شریف کے دورۂ سندھ سے پہلے سارے انتظامات مکمل ہو چکے ہوں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو مسلسل مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ کچھ روز پہلے تک لیول پلینگ فیلڈ کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے تھے‘ اب مردان کے دورے پر انہوں نے کسی جماعت کا نام لئے بغیر کہا کہ ایک جماعت ان دنوں الیکٹیبلز کی تلاش میں ہے۔ اگر نواز شریف کے دورۂ سندھ کے دوران بھی الیکٹیبلز کی بڑی تعداد مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کو ہو گا۔ سیاسی جماعتیں بھی الیکٹیبلز کی تلاش میں ہوتی ہیں مگر الیکٹیبلز کی نفسیات یہ ہے کہ انہیں بھی کسی بڑی سیاسی جماعت کا سہارا درکار ہوتا ہے۔ آثار سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ الیکٹیبلز کا جھکاؤ کس پارٹی کی طرف ہے ‘اس کے مقابلے میں بلاول بھٹو کے دورۂ پختونخوا میں کسی بڑی سیاسی شخصیت کے پارٹی میں شامل ہونے کی اطلاعات موصول نہیں ہو ئیں۔ انہی سطور میں ہم تحریر کر چکے ہیں کہ معاشی بحران کے پیش نظر کوئی بھی جماعت عوام کی نظروں میں مقبول نہیں ہے جو جماعت معاشی بحالی کا پروگرام دے گی عوام اسے سپورٹ کریں گے۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) معاشی بحالی کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی ترقی کو اولین ایجنڈا قرار دیا ہے‘ اسی طرح وہ مہنگائی کا خاتمہ اور دہشت گردی سے نجات کا وعدہ کر رہے ہیں‘ دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کے سرفہرست مسائل یہی ہیں۔ اس کے برعکس بلاول بھٹو ماضی سے مثالیں پیش کر رہے ہی۔انہوں نے مردان میں کہا کہ شہید ذوالفقار بھٹو نے کسانوں کو زمینوں کا مالک بنایا‘ قائد عوام نے عوام کے لیے جدوجہد کی‘ شہید محترمہ 30 سال تک عوام کے لیے جدوجہد کرتی رہیں‘ دو آمروں سے ٹکرائیں۔ اسی طرح آصف زرداری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے دور میں جمہوریت بحال کی‘ آمر کو باہر کیا‘ خیبر پختونخوا کو شناخت دی‘ ان کے دور میں ہم نے دو انقلابی پروگرامز شروع کیے۔ بلاول بھٹو آج کی ضروریات کا ادراک کرنے اور اس کا حل پیش کرنے کی بجائے ماضی کی خدمات پر سیاست کرنا چاہتے ہیں جبکہ عوام موجودہ مسائل سے نجات چاہتے ہیں۔ یہ وہ اہم عوامل ہیں جنہوں نے الیکٹیبلز کو مسلم لیگ (ن) کے قریب کر دیا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں الیکٹیبلز یا منتخب افراد کا اثر و رسوخ حقیقت ہے۔ یہ اصطلاح عام طور پر ان سیاستدانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے علاقوں میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور اپنی انتخابی مہم یا کسی بڑی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ الیکٹیبلز عام طور پر زمیندار‘ جاگیردار‘ قبائلی رہنما یا مقامی بزنس مین ہوتے ہیں جو اپنے علاقوں میں لوگوں کی زندگیوں پر کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ الیکٹیبلز کی اصطلاع نئی نہیں بلکہ الیکٹیبلز کا ظہور آزادی سے پہلے برطانوی راج کے دور میں ہوا جب برٹش حکام نے مقامی اشرافیہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ ان مقامی رہنماؤں کو مختلف مراعات اور اختیارات دیے گئے جس سے ان کا اثر و رسوخ کافی بڑھ گیا۔ آزادی کے بعد بھی یہ رجحان برقرار رہا۔ سیاسی جماعتیں عموماً الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ ان کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اس سے سیاسی جماعتوں کا کردار کمزور ہوا اور ان کی اندرونی جمہوریت متاثر ہوئی۔ الیکٹیبلز نے پاکستانی سیاست میں خاندانی سیاست کو فروغ دیا۔ اکثر الیکٹیبل اپنی اولاد اور رشتہ داروں کو سیاست میں لانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکیں۔ اس سے سیاست میں خاندانی گروہوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا اور عام لوگوں کے لیے سیاست میں آنا مشکل ہو گیا۔ الیکٹیبلز کے اثر و رسوخ کے خلاف کئی بار آواز اٹھائی گئی ہے لیکن اب تک ان کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکٹیبلز اپنے علاقوں میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنا مشکل ہوتا ہے۔الیکٹیبلز کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی سیاست میں جمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے اور انتخابی عمل کو منصفانہ بنایا جائے۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے اندرونی جمہوری عمل کو مضبوط کرنا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کے کردار کو فروغ دینا ہوگا۔
آنے والے انتخابات میں مینڈیٹ اور پیچیدہ حکومت سازی کا چیلنج موجود رہے گا۔ الکٹیبلز اور آزاد امیدواروں کی اہمیت بڑھ جائے گی لیکن امن و امان کا مسئلہ بھی سنگین ہو سکتا ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی اور طالبان کی ناراضی ٹی ٹی پی اور داعش جیسے مسائل ہوں گے اسی کے ادارک کیلئے آرمی چیف نے علما و مشائخ سے ملاقات کی ہے۔ علمائے کرام و مشائخ نے متفقہ طور پر انتہا پسندی‘ دہشت گردی اور فرقہ واریت کی مذمت کرتے ہوئے ملک میں رواداری‘ امن اور استحکام کے لیے ریاستی اور سکیورٹی فورسز کی انتھک کوششوں کے لیے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس ملاقات کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف اگر ریاست کسی بڑے اقدام کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے مذہبی حلقوں کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔ اس سے قبل افغان سپریم لیڈر شیخ ہیبت اللہ اخونزادہ فتویٰ دے چکے ہیں کہ کوئی افغان شہری اور افغان حکومت کا رکن عسکریت پسندی کے لیے سرحد پار نہیں کرے گا‘ جو لوگ عسکریت پسندی کے لیے پاکستان گئے اور مارے گئے وہ شہید نہیں کہلائیں گے بلکہ ان کی موت کو ناپاک قرار دیا جائے گا۔ دہشت گردی کے چیلنج کے پیش نظر عسکری قیادت کی حکمت عملی اور معاشی بحالی میں عسکری قیادت کا تعاون اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کی ترجیحات کیا ہوں گی‘ مولانا فضل الرحمان بھی پرانی لکیریں مٹا کر نئے زاویے کے ساتھ مستقبل کو استوار کرنے کی بات کر رہے ہیں‘ اسی طرح مسلم لیگ (ن) سیاسی بصیرت اور خاموشی کے ساتھ انتخابی مہم کو آگے بڑھا رہی ہے جس سے سیاسی منظر نامہ کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے‘ سکیورٹی و معاشی چیلنجز کا ادراک نہ کرنے والی جماعتیں حالات کے مخالف سمت کھڑی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved