لاہور میں کم عمر ڈرائیور نے چھ افراد کی جان لے لی‘ اس پر بات کرنے سے پہلے میں آپ کو ایک فلم کی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔میں نے بہت عرصہ پہلے ایک فلم دیکھی جس میں ایک شخص ایک بچے کو گاڑی سے ٹکر مار کر بھاگ جاتا ہے۔اگر وہ رک کر اُس بچے کی جان بچانے کی کوشش کرتا تو شاید بچہ بچ جاتا لیکن نشے میں اُس نے بچے کو گاڑی کے نیچے دیا اور بھاگ گیا۔ اُس شخص پر hit and runکاکیس بنا‘لیکن وہ شخص طویل عرصے تک اس کیس سے راہِ فراراختیارکرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اندر ہی اندر ضمیر اس کو ملامت کر رہا کہ اس کے ہاتھوں ایک معصوم بچے کی جان گئی۔اس حادثے کے بعد تک وہ سو نہیں پایا۔ اُس کو Insomniaہوگیا۔یہ ایسی بیماری ہے جس میں انسان کو نیند نہیں آتی۔آخر اُس شخص نے اپنے ضمیر کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اورپولیس کے سامنے سرنڈر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔جیسے ہی اُس نے اعترافِ جرم کرکے خود کو پولیس کے حوالے کیا اور اس کو جیل میں ڈالا گیا‘ اس کے کچھ دیر بعد اُس کو نیند آگئی کیونکہ وہ گناہ کا اعتراف کرچکا تھا اور اُس نے اپنے ضمیر کی تسلی کر لی تھی۔ یہ تو ایک فلم تھی‘ اگر ہم حقیقی زندگی میں بھی دیکھیں تو بہت سے لوگوں کے ضمیر مر چکے ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ ہم بحیثیت قوم بے حس ہوچکے ہیں۔آپ لاہور میں ڈیفنس کے علاقے فیز 6 کا سانحہ لے لیں جس میں آپ کو بے حسی صاف دکھائی دے گی اور وہ بھی کم عمر بچے کی جو ابھی آٹھویں کلاس میں پڑھتا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق سانحہ کچھ یوں ہوا کہ دو گاڑیوں میں سوار ایک خاندان کے لوگ اپنے رشتہ داروں کی شادی سے واپس آرہے تھے۔ افنان نامی ڈرائیور گاڑی میں بیٹھی خواتین کا پیچھا کرنے لگا ۔ اس دوران متاثرہ گاڑی کے ڈرائیور حسنین نے کئی بار اپنی گاڑی کی رفتار تیز کر کے کوشش کی کہ شاید وہ انکا پیچھا چھوڑ دے لیکن خود سر ملزم نے گاڑی کا پیچھانہیں چھوڑا اور مسلسل خواتین کو ہراساں کرتا رہا۔ جس پر متاثرہ گاڑی کے ڈرائیور نے گاڑی روک کر ملزم افنان کو ایسی حرکتوں سے باز آنے کا کہا‘ دوسری گاڑی سے حسنین کے والد نے بھی اسے سمجھایا لیکن ملزم افنان دھمکیاں اور گالیاں بکنے پر اُترآیا۔ حکومت پنجاب کے مطابق ملزم دھمکیاں دیتے ہوئے کہتا تھا کہ میں دیکھتا ہوں تم لوگ ڈیفنس میں گاڑی کیسے چلاتے ہو۔ اس کے بعد حسنین بہن اور بیوی کو لے کر آگے نکلتا ہے تو ملزم افنان پھر سے پیچھا شروع کر دیتا ہے اور 160کی سپیڈ سے گاڑی گھما کر خواتین والی گاڑی سے جان بوجھ کر ٹکرادیتا ہے۔حادثے کے بعد کار میں سوار تمام 6 افرادموقع پر جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔ اس المناک وقوعے کو شروع میں ایک حادثہ قرار دیا گیا لیکن جب سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی گئی تو ساری کہانی سامنے آگئی۔ملزم افنان کے پاس گاڑی چلانے کالائسنس بھی نہیں تھا۔یہ انڈر ایج تھا‘ ایسے میں والدین پر بھی سوال اُٹھتا ہے کہ اُنہوں نے اُسے گاڑی چلانے کی اجازت کیوں دی؟اب سوال یہ بھی ہے کہ کم عمرنے گھمنڈ اور طاقت کے نشے میں ایک خاندان کو تباہ کیا تو کیا اس کی کم عمری کی وجہ سے اسے چھوڑدینا چاہیے؟قانونی ماہر میاں علی اشفاق اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ایسانہیں کہ اس ملزم کو جووینائل یا کم عمر سمجھتے ہوئے ہر الزام سے بری کر دیا جائے گا۔ جرم سرزد ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں چھ انسانی جانیں گئی ہیں‘ اس لیے مجرم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی تو ہوگی۔ وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا ہے کہ یہ عدالت کا کام ہے کہ اس کا تعین کرے کہ وہ ملزم جووینائل ہے بھی یا نہیں۔ اگر جو وینائل ہوتو بھی اُس کے خلاف عدالتی کارروائی ہو گی اور قصوروار ثابت ہوتا ہے تو قانون کے مطابق اسکو سزا ہو سکتی ہے۔پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے جس میں تین دفعات شامل کی گئی ہیں جن میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 322‘ 279 اور 427 شامل ہیں۔دفعہ 279 کے مطابق اگر کوئی شخص غفلت سے گاڑی چلاتے ہوئے انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالے یا کسی کو زخمی کرے اور نقصان پہنچائے تو اسے تین سال تک سزا دی جا سکتی ہے۔ سیکشن 322 قتل بہ سبب سے اور دیت سے متعلق ہے۔لیکن اس ملزم کے خلاف سیکشن 320 نہیں لگائی گئی جو غفلت سے گاڑی چلاتے ہوئے قتلِ خطا سے متعلق ہے‘ جس کی سزا دیت کے علاوہ زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید ہوسکتی ہے۔
اب اس کیس میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب ایکٹو ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ تفتیش سے پتہ چلتاہے کہ ڈیفنس کار حادثہ نہیں بلکہ 6 افراد کا قتل ہے۔6 افراد کے قتل کے تمام حقائق ہمارے پاس آ چکے ہیں۔ لڑکے نے حادثے سے پہلے فیملی کو تنگ کیا‘ متاثرہ فیملی کے بچے کے سامنے اس کے گھر کے 6افراد جاں بحق ہوئے۔ڈیفنس واقعہ کسی بھی طرح سے ایکسیڈنٹ نہیں‘یہ قتل تھا۔ قتل اوردہشت گردی کی دفعات لگ گئی ہیں۔دوسری فیملی جتنی بھی بااثرہو‘پولیس بلاامتیاز کارروائی کوآگے بڑھا رہی ہے‘ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے اور چالان پیش کیا جائے گا۔نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ایک پولیس والا دباؤ ڈالنے میں ملوث تھا جسے معطل کردیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکے کے والدین کی جانب سے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا کم عمرڈرائیور کے والدین کو بھی سزا ہو سکتی ہے؟ قانونی ماہرین کی ر ائے میں اس کا انحصار پولیس کی تحقیقات اور ان حالات پرہے جن میں یہ المناک وقوعہ پیش آیا۔ پولیس کو تحقیقات میں دیکھنا ہوگاکہ کیا اس واقعے میں بالواسطہ ذمہ داری ‘جسے قانون کی زبان میںVicarious liability کہا جاتا ہے‘ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ اس میں کئی پہلوؤں کو دیکھنا ہوگا جیسا کہ وہ گاڑی کس کے نام پر رجسٹر تھی جس کی ٹکر کی وجہ سے انسانی جانیں گئیں‘ اس کیساتھ ساتھ پولیس کو تحقیقات میں یہ بات معلوم کرنا ہو گی کہ جس شخص کے نام پر گاڑی رجسٹرڈ ہے وہ کم عمر بچے کا والدیا والدہ ہے اور اگر ایسا ہے تو وہ یہ جانتے تھے کہ بچہ ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنے کے باوجود گاڑی چلا رہا ہے۔ کیا انہوں نے اس کوگاڑی چلانا سکھایا ہے یا کسی اور نے؟ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ والدین سو رہے ہیں اور بچہ چوری چھپے گاڑی لے کر نکل جاتاہے تو ایسی صورت میں عدالت کو یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا اس صورتحال میں Vicarious liability کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ بہرحال والدین کو مکمل بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔لاہور ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت پر اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ لائسنس کے بغیر گاڑیاں چلانے والے کلنگ مشین ہیں۔لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس علی ضیاباجوہ نے ملزم کی درخواست پر سماعت کی اوردلائل سن کر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالتی حکم پر چیف ٹریفک آفیسر لاہور اور ایس ایس پی آپریشنز عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے چیف ٹریفک آفیسر سے پوچھا کہ اگر روڈ پر 10 لاکھ گاڑیاں ہیں تو دو لاکھ لوگوں کا لائسنس بنا ہوگا؟چیف ٹریفک آفیسر نے جواب دیا کہ 73 لاکھ گاڑیاں روڈ پر چل رہی ہیں مگر لائسنس صرف 13 لاکھ کے پاس ہے۔
اللہ کرے حکومت اس المناک وقوعے کے بعد ہوش کے ناخن لے اور دوبارہ کبھی ایسا وقوعہ پیش نہ آئے۔ لیکن اس وقوعے میں تربیت کا فقدان بھی نظر آیا۔ایک کم عمر بچہ جو اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں کر رہا تھا اوراس نے انتقام میں پورا خاندان مار دیا۔ یہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا ٹیسٹ کیس ہے کہ متاثرین کیساتھ کیسا انصاف کیا جاتا ہے‘لیکن ایک بات طے ہے کہ فلم اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ فلم کی کہانی میں ناحق خون بہانے والے کا ضمیر جاگ گیا لیکن لاہور میں ہونیوالے گاڑی کے حادثے میں ضمیر سوگیا اور بے حسی جیت گئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved