نواز شریف کی قیادت میں ترقی کا
سنہرا دور شروع ہو گا: شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور (ن) لیگ کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کی ترقی کا سنہرا دور شروع ہو گا‘‘ جبکہ ان کے پہلے تینوں ادوار سنہری نہیں تھے‘ اس لیے اب سے سنہرا دور شروع ہو گا جس کا اندازہ لگانے کے لیے عوام کو کسی خاص سمجھ بوجھ کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی کہ یہ ترقی خود اپنا وجود ثابت کرے گی‘ نیز حکمرانوں کو ترقی کے لیے کسی تگ و دو کی ضرورت نہیں ہوتی کہ انہیں تو بس پہلے سے موجود ترقی کا تھوڑا سا رنگ بدلنا ہوتا ہے جس کے طریقے انہیں خواب آتے ہیں‘ ترقی کے تین چار تیر بہدف طریقے تو انہیں ہر وقت یاد ہوتے ہیں اور اب تو کسی کو نیب وغیرہ کی طرف سے بھی کوئی خطرہ نہیں رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سابق ارکانِ اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔
معاشی تباہی کے ذمہ دار صرف
چیئرمین پی ٹی آئی نہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''معاشی تباہی کے ذمہ دار صرف چیئرمین پی ٹی آئی نہیں‘‘ بلکہ اس میں دوسری جماعتیں بھی برابر کی حصہ دار ہیں کیونکہ اتنی تباہی ایک اکیلا شخص نہیں کر سکتا اور اب وقت آ گیا ہے کہ قوم کے سامنے سچ بولا جائے۔ اگرچہ سیاست کا سارا کاروبار جھوٹ ہی پر استوار ہے لیکن کبھی کبھار غیرسیاسی بھی ہو جانا چاہیے کہ آخر سب کو روزِ محشر کا بھی تو سامنا کرنا ہے۔ آپ اگلے روز ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
پیپلزپارٹی کی کامیابی سب
کو نظر آ رہی ہے: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کی کامیابی سب کو نظر آ رہی ہے‘‘ جبکہ ہمیں تو سب سے زیادہ اور صاف دکھائی دے رہی ہے حالانکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اگرچہ ہمیں اس کا یقین نہیں آیا‘ تاہم‘ ہم نے آنکھیں مل مل کر بھی دیکھا ہے اور ہمارا پختہ خیال ہے کہ جو کچھ ہمیں نظر آیا ہے وہ کامیابی ہی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ہے بلکہ وسان صاحب کو اس کا خواب بھی آ گیا ہے اور اس لیے اس بارے میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے‘ اور اب عوام کو صحیح معنوں میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عوام کی بدقسمتی ہے کہ سیاستدانوں کی کامیابی انہیں کبھی راس نہیں آئی۔ آپ اگلے روز مردان میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
دانستہ (دیوان)
یہ ہمارے ممتاز اور سینئر شاعر ‘نقاد اور ادیب شاعر علی شاعر کا مجموعۂ غزل ہے جو دو سو غزلوں پر مشتمل ہے۔ یہ کراچی سے شائع ہوا ہے جبکہ انتخاب جاوید رسول جوہر کا ہے اور انتساب جلیل عالی کے نام ہے۔ پسِ سر ورق شاعر کی تصویر اس شعر کے ساتھ درج ہے ؎
فاقے سے مر گیا جو پڑوسی تو یہ کھُلا
ہیں میرے جیسے حال میں کچھ لوگ مبتلا
دیباچہ پروفیسر یونس حسن (قصور) نے لکھا ہے جبکہ پیش لفظ کے نام سے تحریریں مرتب اور شاعر کی قلمی ہیں۔ مرتب کے مطابق ''ان کے قلم سے ترتیب و تدوین‘ تصنیف و تالیف اور تخلیقی پاکر 13کتابیں شائع اور فروخت ہو چکی ہیں اور 20 کتابیں منتظرِ اشاعت ہیں۔ شاعر کے اب تک حمد و نعت کے نو مجموعے‘ آٹھ شعری مجموعے‘ تین افسانوی مجموعے‘ تنقیدی کتابیں اور چار ناول زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں...‘‘ شاعر علی شاعر کی پہلی خصوصیت سادہ بیانی ہے اس کے علاوہ ان کا خاص موضوع محبت ہے۔ ان کا کلام روایت اور جدت کے ایک خوبصورت امتزاج کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ تازگی اور تاثیر ان کی شاعری کا ایک اضافی حسن ہے‘ لطفِ سخن کے متلاشی قارئین کو یہ کتاب بطورِ خاص پسند آئے گی۔ تمام دیوان مردّف ہے۔
اور اب اسی مجموعے میں سے ایک غزل:
بن کر رہِ حیات میں رہبر‘ لیے پھرا
مجھ کو جنون عشق کا دَر دَر لیے پھرا
لکھا تھا جو نصیب میں اس کے حصول کو
دنیا جہاں میں مجھ کو مقدر لیے پھرا
دنیا کی تیز دھوپ میں سوچو تو دوستو!
میں کس طرح یہ موم کا پیکر لیے پھرا
کس کو ہے شوق گردشِ ایام میں پھرے
مجھ کو مرے نصیب کا چکر لیے پھرا
اے دوست دشمنوں کے خیابان تک مجھے
تیری ادائے خاص کا منظر لیے پھرا
کوشش کے باوجود ترا گھر نہ مل سکا
نامہ کہاں کہاں یہ کبوتر لیے پھرا
اظہار اُس سے کر نہ سکا پیار کا کبھی
خواہش مَیں دل کی دل ہی کے اندر لیے پھرا
صحرا کی خاک چھانی کبھی دشت میں گیا
جذبہ وصالِ یار کا گھر گھر لیے پھرا
اک شخص کی جدائی میں شاعر تمام عمر
آنکھوں میں آنسوئوں کا سمندر لیے پھرا
آج کا مقطع
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے ظفرؔ
کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved