غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی‘ ہسپتالوں‘ سکولوں اور عالمی امدادی اداروں و ٹیموں پر مسلسل حملوں‘ جنگی جرائم کے ارتکاب اور امریکہ و بعض یورپی ممالک کی جانب سے ان جنگی جرائم کی پشت پناہی پر ایک طرف ساری دنیا سراپا احتجاج ہے تو دوسری جانب اقوامِ متحدہ جیسا عالمی ادارہ صرف مذمت یا دوسرے الفاظ میں منت سماجت تک ہی محدود ہے۔ ماضی میں جہاں بھی عالمی امن کا مسئلہ ہوتا تھا تو انسانوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کا امن مشن وہاں بھیجا جاتا تھا۔ پاکستانی افواج نے بھی ہمیشہ عالمی امن کی بحالی کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ سب کچھ یو این او کی درخواست پر ہوتا تھا۔ اب کئی ہفتوں سے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل بمباری اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر عالمی ادارے کا کردار بالکل صفر ہے۔ اسے عالمی بے حسی کہا جائے یا بے بسی کیونکہ موجودہ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ اقوامِ متحدہ محض بیانات جاری کرنے اور خالی خولی مذمت کرنے تک محدود رہ گیا ہے جو صرف امریکی اشارے پر ہی کوئی حرکت یا عملی کارروائی کرتا ہے۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ اقوامِ متحدہ کا امن مشن کہاں گیا اور غزہ میں قیامِ امن کے لیے کب اور کون عملی اقدامات کرے گا؟
رواں برس مئی میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کی 75ویں سالگرہ منائی گئی۔ 1948ء سے اب تک دو ملین سے زیادہ فوجی و غیرفوجی اہلکار دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کی امن کارروائیوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پہلے دو امن آپریشنز‘ یو این ملٹری آبزرور گروپ اِن انڈیا اینڈ پاکستان اور دوسرا مشرقِ وسطیٰ میں اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی نگران تنظیم تھے۔ یہ دونوں مشن آج تک کام کر رہے ہیں۔ امن دستوں میں شامل کئی فوجیوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ 4200 سے زائد فوجی اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے خدمات سرانجام دیتے ہوئے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1948ء سے اب تک اقوامِ متحدہ کے جان سے ہاتھ دھونے والے 4200 سے زائد امن فوجیوں میں 168پاکستانی فوجی بھی شامل ہیں۔ پانچ جون 1993ء کو صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں اقوامِ متحدہ کے امن دستے پر حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں وہاں 25پاکستانی فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کئی برسوں تک پاکستان اقوامِ متحدہ کی امن فوج میں سب سے زیادہ فوجی تعاون فراہم کرنے والا ملک رہا ہے جو ہر سال آٹھ ہزار سے زائد فوجیوں کی صورت میں عالمی امن کے لیے اقوامِ متحدہ کو تعاون فراہم کرتا رہا ہے‘ تاہم اب بنگلہ دیش 2022ء میں سات ہزار 233فوجیوں کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے لیے سب سے زیادہ تعاون فراہم کرنے والا ملک بن گیا ہے‘ اس کے بعد نیپال نے چھ ہزار 251فوجی جبکہ بھارت نے تقریباً 6ہزار فوجی فراہم کیے ہیں۔ گزشتہ سال سے بنگلہ دیش‘ نیپال‘ بھارت اور روانڈا کے بعد پاکستان چار ہزار 331 فوجیوں کے ساتھ اس فہرست میں پانچواں بڑا ملک ہے۔ آج 125ممالک کے 87ہزار سے زائد امن دستے یورپ‘ افریقہ‘ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں اقوامِ متحدہ کے 12آپریشنز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس فورس میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ 1993ء میں اقوامِ متحدہ کے امن آپریشنز میں خواتین اہلکاروں کی تعداد ایک فیصد تھی جبکہ 2020ء میں تقریباً 95ہزار امن فوجیوں میں سے خواتین کی تعداد 4.8فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ اقوامِ متحدہ کے پولیس یونٹس میں 10.9فیصد جبکہ اقوامِ متحدہ کے انصاف اور اصلاحات کے امن مشنز میں حکومت کی طرف سے فراہم کردہ اہلکاروں میں 34فیصد خواتین ہیں۔ پاکستان نے بھی اس مقصد کے لیے 400خواتین کو تعینات کیا ہے اور مزید کو بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک اقوامِ متحدہ کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوئی عملی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا کیونکہ اسرائیل پر اقوامِ متحدہ کے مذمتی بیانات کا تو کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی اقوامِ متحدہ نے واہاں کسی امن مشن کے تحت فوج یا مبصر بھیجنے کی بات کی ہے جو وہاں اسرائیل کو جنگی جرائم سے روکیں۔
تادم تحریر تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نے خان یونس کے شمال مغرب میں رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں متعدد بچوں سمیت 26افراد شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ شمالی غزہ میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر تازہ فضائی حملوں میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے جبکہ ایک اور اسرائیلی حملے کے نتیجے میں جنوبی غزہ میں رفح کے مشرق میں ایک مکان کو نشانہ بنایا گیا۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر سے جاری غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شہدا کی تعداد 12ہزار ہو چکی ہے جن میں پانچ ہزار سے زائد بچے اور 3300سے زائد خواتین شامل ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 30ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ 1800بچوں سمیت تقریباً چار ہزار فلسطینی لاپتہ ہیں اور کئی کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ اسے چاہے جو بھی کہیں لیکن انسانی ہمدردی کے نقطۂ نظر سے یہ سادہ سا مطالبہ ہے کہ انسانیت کی خاطر جنگ بند کی جائے تاکہ معصوم شہریوں کے انخلا کا عمل محفوظ طریقے سے ممکن ہو سکے اور 22لاکھ سے زائد محاصرین تک امداد پہنچائی جا سکے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہم آپ سے چاند نہیں مانگ رہے بلکہ ہم آپ سے بنیادی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ متاثرین کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں اور جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس بحران پر قابو پایا جا سکے۔ جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش سمیت پانچ ممالک نے اسرائیل حماس جنگ کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کر لیا ہے‘ ان میں بولیویا‘ جبوتی اور مشرقی افریقی ملک کوموروس (Comoros) بھی شامل ہیں۔ جنوبی افریقہ کے صدر راما فوسا کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ شکایت اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے درج کرائی ہے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے جبکہ ہسپتالوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔ یقین ہے کہ عالمی فوجداری عدالت اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات کرے گی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں 75برسوں سے اقوامِ متحدہ کا امن مشن کام کر رہا ہے اور جنگ بندی و قیامِ امن کے لیے خدمات سرانجام دے رہا ہے تو پھر فلسطینی شہریوں کی نسل کشی روکنے کے لیے قدم کیوں نہیں اٹھایا جا رہا؟ کیا فلسطینیوں کا قصور مسلمان ہونا ہے یا وہاں مسلمانوں کا قبلۂ اول کفار کو کھٹکتا ہے؟ اقوامِ متحدہ سمیت امن مشن میں شامل رکن ممالک کو فلسطینیوں کی نسل کشی نظر کیوں نہیں آتی؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جہاں امریکہ کا مفاد ہوتا ہے تو وہاں نیٹو افواج اور اقوامِ متحدہ کے امن مشن بھی تعینات کردیے جاتے ہیں اور جنگی جرائم کے نام پر عالمی پابندیاں بھی عائد کر دی جاتی ہیں لیکن جہاں امریکی مفادات نہ ہوں یا ان کے برعکس ہو رہا ہو تو وہاں انسانیت کی کوئی قیمت نہیں؟ اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس بھی نشستن‘ گفتن اور برخاستن سے زیادہ کچھ نہ تھا جہاں صرف تقریریں اور مذمتی بیانات دے کر اپنی ذمہ داری پوری کی گئی۔ سوال پھر وہی ہے کہ کہاں ہے اقوامِ متحدہ کا امن مشن اور کیا فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے میں بے بسی کے بعد کیا اس کے وجود کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved