سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک ایسے وقت میں سیاسی مفاہمت کے امکانات تلاش کرنے نکلے ہیں جب ملک تیزی سے پولرائزڈ‘ معاشی طور پر غیر مستحکم اور سنگین مسلح شورش کے درمیان جھول رہا ہے۔ان کیلئے یہ چیلنج بہت بڑا ہے کیونکہ یہاں مفاہمت کا تصور بجائے خود منقسم اور متنازع ہے۔ماضی قریب میں آصف علی زرداری نے اس اصطلاح کو بہت زیادہ سیاسی بنا کر سودا بازیوں کے مفاہیم میں ڈھال لیا اور ہماری مقتدرہ بھی کسی قسم کی مفاہمت کے بغیر ہی امن کا انتخاب کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی؛چنانچہ‘بظاہر یہی لگتا ہے کہ نوازشریف چند بڑے گروہوں کے درمیان شراکتِ اقتدارکی قابلِ عمل سکیم استوار کرکے معاشرے کا مشترکہ مستقبل سنوارنے کو ترجیح اول بنانے میں سرگرداں ہیں۔ مگر انہیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ ان کے پیش نظر ایک ایسی قوم ہے جو متنوع مسائل سے دوچار ہے‘جن میں گرتی ہوئی معیشت کے علاوہ آئینی پیچیدگیاں‘سماجی ناہمواریاں‘مذہبی تشدد اور سیاسی افراتفری نمایاں ہیں۔یہ سب مسائل مل کر ایسا آتش فشاں بناتے ہیں جس کے پھٹنے کا خطرہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ان سب سے بڑھ کر ہماری ایٹمی صلاحیت کی وجہ سے اندرونی مسائل صرف علاقائی استحکام کی حرکیات تک محدود نہیں رہتے بلکہ بعض صورتوں میں یہ عالمی سلامتی کا ایشو بھی بن سکتے ہیں۔مستزاد یہ کہ ایک ایسے وقت میں جب نئی عالمی صف بندی کے تحت پاکستان پیراڈائم شفٹ کے نازک مراحل سے گزر رہا ہے‘ تیزی سے زوال پذیر مغربی دنیا کے رہنما پاکستان میں تاریخی طور پر کمزور جمہوری نظام کو سہارا دینے کی بجائے علاقائی استحکام کو ایشو بنا کر جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔کانٹے میں پڑے چارے کی ترغیب کی مانند سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا یہ بیان کہ '' امریکہ پاکستانی فوج کو پاکستان کے حقیقی رہنما کے طور پر دیکھتا ہے‘‘ عالمی مقتدرہ کے خطرناک عزائم کی عکاسی کرتا ہے‘ لیکن موجودہ آرمی چیف کی طرف سے پارلیمنٹ کے فلور پہ عوام کے منتخب نمائندوں کو کرائی گئی یقین دہانی کہ فوج‘ قومی قیادت کے ہر فیصلے پہ عمل درآمد یقینی بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھے گی‘ ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کے خاتمہ کی طرف پیش رفت کا واضح اشارہ تھا۔ عین ممکن ہے کہ نواز شریف سویلین بالادستی کے اسی تصور کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر ملک کے چاروں صوبوں کی منتخب قیادت کو مرکزی قومی دھارے سے منسلک کر کے عوام کی سیاسی زندگیوں پر مقتدرہ کی روایتی بالادستی کو تحلیل کرنے کی خاطر ایسی پُرامن اصلاحات کو ممکن بنانے کی تگ و دو میں مشغول ہوں جو ہمیں سر پہ منڈلاتے ادارہ جاتی تصادم سے بچا سکے۔شاید اسی لئے پارٹی مفادات اور علاقائی تعصبات سے بالاتر ہو کر سب سے پہلے انہوں نے سیاسی‘سماجی اور معاشی طور پہ نظرانداز شدہ صوبہ بلوچستان کی روایتی لیڈر شپ کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے بلوچستان کے الیکٹیبلز کو (ن) لیگ میں شامل کرنے کے علاوہ اچھی ساکھ کے حامل بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالمالک سے ملاقات کرکے بلوچ عوام کو مثبت پیغام دیا۔نوازشریف اگر داخلی انتشار میں الجھی پختونخوا میپ کے ابھرتے ہوئے لیڈر خوشحال خان کاکڑ سے ربط و تعلق بڑھا کر پشتون ایریا کے اُن گیارہ اضلاع تک رسائی حاصل کرتے تو انہیں اپنے مقاصد کیلئے بہترین رجالِ کار مل سکتے تھے جہاں کاکڑ قوم کی اکثریت ہے۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی خاطر عوام (ن) لیگ کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن لیگی لیڈر شپ یہاں نہایت محتاط انداز میں پیشقدمی کرتی دکھائی دیتی ہے۔تاہم بڑے پیمانے کی معاشی اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر نوازشریف کیلئے شہری سندھ میں سرایت کرکے سیاسی مفاہمت پیدا کرنا زیادہ اہم ہو گا‘جہاں ایم کیو ایم میں دھڑے بندیوں نے طاقت کے توازن کو بُری طرح متاثر کیا اور اب سابق گورنر عشرت العباد کی قیادت میں ایم کیو ایم کی مرکزی دھارے کی جماعتوں اور رہنماؤں کے ساتھ دانشمندانہ صف بندی ترقی کے نئے عہد کی محرک بن سکتی ہے۔ہمارے ذرائع اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ عشرت العباد''پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے نام سے جس نئے فورم کی بنیاد رکھنے والے ہیں‘ اس میں ایم کیو ایم کے ساتھ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ مصطفی نواز کھوکھر اور مفتاح اسماعیل سمیت ملک بھر سے کئی نمایاں سیاسی شخصیات بھی شانہ بشانہ ہوں گی۔
قرائن بتاتے ہیں کہ نواز شریف جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی‘شہری سندھ میں عشرت العباد کی قیادت میں منظم ہونے والی ایم کیو ایم‘اندرون سندھ میں آزاد امیدواروں اور خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کے ساتھ الائنس کر کے پارلیمنٹ میں227 کے قریب نشستیں حاصل کرکے انقلابی معاشی اصلاحات لانے کی کوشش کو بارآور بنانا چاہتے ہیں۔ یہی اس وقت ہمارے دکھوں کے مداوا کی قابلِ عمل سکیم ہو گی۔البتہ نظریاتی سطح پر تشدد کی میراث کے طور پہ بکھرے ہوئے انسانی رشتوں کی دوبارہ تعمیر کے درمیان تعامل میں جس قسم کی سیاسی بصیرت درکار تھی اس کی فوری دستیابی تو ممکن نہیں لیکن متذکرہ مساعی کی کامیابی کا دار و مدار بھی ہماری سیاسی لیڈر شپ کے تنازعات کے مابعد معاشروں کی تشکیل ِنو کے مطالبات‘ بشمول سیاسی حقوق اور خاص طور پر ادارہ جاتی اصلاحات متعارف کرانے کیلئے مفاہمت کے طریقوں بارے میسر بصیرت سے معلق رہے گا۔امر واقعہ یہ ہے کہ پائیدار امن کے حصول کے دوران پالیسی سازوں کو اکثر دو بنیادی چیلنجز درپیش رہتے ہیں‘ پہلا مفاہمت کی سرگرمیاں کب ممکن اور مناسب ہیں؟ اور دوسرے‘ ان کے ممکنہ اثرات کو نتیجہ خیز کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ سیاق و سباق میں نیچے سے اوپر کے اقدامات سے جڑنے کے حقیقی چیلنجز جہاں غالب مفاہمت کے فریم ورک کا تصور اور عمل اوپر سے نیچے ہوں‘وہاں ان عوامل سے وابستہ مضمرات امن کی تعمیر کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔تشدد سے متاثر ہونے والے تمام افراد کی آوازوں کو تلاش کرکے سننے پر زور دینے کے ساتھ متاثرین کی تلافی کے علاوہ منقسم معاشروں میں معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلقات کو تبدیل کرنے میں مدد دینے والے اقدامات کی اصابت یقینی بنانا قدرے دشوار عمل ہوتا ہے‘تاہم ہمارے جیسے پیچیدہ معاشروں میں اخلاقی مفاہمت کے اقدامات کی کامیابی کی طویل تاریخ ہے جسے مختلف طریقوں بشمول مذہبی اصطلاحات میں سمجھا جا سکتا ہے‘ جو انفرادی یا اجتماعی معافی کے عمل کے نتیجے کے طور پر مفاہمت پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔مفاہمت کی یہی اقدار آج بھی یکساں طور پر رائج سیاسی نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہیں‘ جن کے اندر مفاہمت کو بنیادی طور پر پُرتشدد تنازعات کے نتیجے میں ٹوٹے ہوئے سماجی ڈھانچے کی تعمیرِ نو کے عمل اور خاص طور پر انسانی تعلقات کی تجدید کا داعیہ موجود ہے۔ مزید یہ کہ سیاسی مفاہمت‘ خاص طور پر سیاسی و سماجی تعلقات کی بحالی صحت مند تبدیلی پر مرکوز رہتی ہے تاکہ معاشرے کو مؤثر طریقے سے ریگولیٹ کرکے کام کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ یہ عمل مختلف سطحوں پر تعلقات کو تبدیل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے‘ گویا دونوں‘ عمودی طور پر ریاست اور معاشرے کے درمیان اور افقی طور پر معاشرے اور بالادست طبقات یعنی سرداروں‘ وڈیروں‘ سرمایہ داروں اور متوسط و غریب طبقات کے مابین(انٹر کمیونٹی اور انٹر ایلیٹ سطحوں پر)۔لیکن ہماری موجودہ لیڈر شپ جس قسم کی سیاسی مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہ ضروری نہیں کہ سماجی ہم آہنگی کی خصوصیت بھی رکھتی ہو‘ اس لیے معاشرتی عمل کی از سرِ نو تدوین کیلئے غیر مشروط سماجی آزادیوں کی بحالی کا احیا ضروری ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved