تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-11-2023

چلو، یوں ہی رُوٹھے رہو

چند معاملات میں تمام (بالخصوص پسماندہ) معاشرے یکساں ہوتے ہیں۔ مادّی ترقی نے ہمیں یہ باور کرادیا ہے کہ بعض معاشرے دوسروں سے بہتر اور برتر ہیں۔ درست‘ مگر یہ معاملہ صرف مادّی ترقی تک محدود ہے۔ اِس سے آگے سبھی کچھ یکساں ہے۔ بیشتر معاشرتی معاملات میں سوچ کا زیادہ فرق پایا نہیں جاتا۔ بعض بنیادی انسانی رویوں کے اعتبار سے تو سبھی معاشرے ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔ بعض بنیادی اخلاقی اقدار کا احترام تمام معاشروں میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ پھر بھی بعض معاملات میں معاشروں کے درمیان فرق بہت نمایاں ہے۔ تمدن انسان کو بہت سے معاملات میں درست کرتا جاتا ہے۔ دیہی معاشروں میں پائی جانے والی ذہنی پیچیدگیاں شہری علاقوں کی طرزِ زندگی کا حصہ کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ تمدن اِسی کا نام ہے۔ تہذیب کا مطلب ہی یہ ہے کہ خرابیوں کو زندگی سے نکال باہر کیا جائے اور اچھائیوں کو اپنایا جائے۔ اگر کوئی معاشرہ اِس مرحلے سے نہ گزر سکے تو اُسے بالیدگی کی منزل تک پہنچنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ دنیا کہاں کھڑی ہے اور اب کس طرف جائے گی اِس کے بارے میں بھی سوچنا ہے مگر اِس سے قبل ہمیں اپنے معاشرے کے بارے میں سوچنا ہے تاکہ اِس کی خرابیاں دور کرکے خوابیوں کا گراف بلند کیا جا سکے۔ ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جس میں گزرے ہوئے ادوار کی بہت سی خرابیاں اب تک پائی جاتی ہیں اور محض پائی نہیں جاتیں بلکہ اُن کا عمل دخل ہماری زندگی میں خطرناک حد تک ہے۔ بہت سے معاملات میں ہمارا رویّہ اب تک خاصا غیر عاقلانہ ہے۔ دنیا بدل چکی ہے مگر ہم اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ سب کچھ مختلف وجوہ کی بنیاد پر ہے۔ اِن میں نمایاں ہے علم و حکمت کی کمی۔ جب کوئی معاشرہ علم و حکمت کو گلے لگانے سے گریز کرتا ہے اور نظم و ضبط کے ساتھ جینے کو ترجیح نہیں دیتا تب وہی کچھ ہوتا ہے جو آج ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔
ہمارے ہاں معاشرتی سطح پر بہت کچھ الجھا ہوا ہے۔ فکر و نظر کے اعتبار سے بھی اور عمل کے اعتبار سے بھی۔ ترقی یافتہ معاشروں کو دیکھ کر یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ بعض معاملات میں جاہلانہ طرزِ فکر و عمل سے نجات پائے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں زندگی کا معاشرتی پہلو قدرے مختلف ہے یعنی اچھے خاصے کنٹرول کے ساتھ۔ وہاں ایک بنیادی تصور یہ پروان چڑھایا گیا ہے کہ ہر انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ تصور بعض معاملات میں انتہائی خطرناک بھی ہے؛ تاہم مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہم اِسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ یہ روش متعدد معاملات میں بہت اچھی ہے۔ شخصی آزادی کے تصور نے انسان کو اپنی مرضی سے جینا ہی نہیں سکھایا بلکہ اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی تحریک بھی دی ہے۔ جب انسان طرزِ زندگی کے معاملے میں کسی کی مرضی کا محتاج یا پابند نہ ہو تو کھل کر جیتا ہے، اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی شعبے میں طبع آزمائی کرسکتا ہے، کسی سے بھی تعلقات استوار کرسکتا ہے، کسی بھی منزل تک پہنچنے کی جدوجہد کرسکتا ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کے لیے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنا اُسی وقت ممکن ہوسکا جب انہوں نے علم و حکمت کو اپناکر اپنی اصلاح پر توجہ دی۔ اصلاح سے کیا مراد ہے؟ کیا محض بُری عادتوں کو چھوڑ دینا اصلاحِ نفس ہے؟ بُری عادتوں سے نجات پانا بھی لازم ہے مگر اِتنا کافی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ انسان اچھی عادتیں اپناتا ہے یا نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ اپنی اصلاح کے نام پر چند بُری عادتوں سے چُھٹکارا تو پالیتے ہیں مگر کچھ نیا کرنے کے لیے درکار اچھی عادتیں اپنانے میں ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ زندگی پورے پیکیج کا نام ہے۔ کسی ایک پہلو کو کمزور چھوڑا تو بنتی بات بھی بگڑ جاتی ہے۔ مستقل مزاجی چاہیے تو مکمل۔ خوش مزاجی چاہیے تو مکمل۔ سب کے ساتھ مل کر چلنے کی عادت چاہیے تو مکمل۔ تبدیلیوں کو قبول کرنے ذہنیت چاہیے تو مکمل۔ اشتراکِ عمل کی صورت میں اپنا کردار ادا کرنے کا عزم ہو تو مکمل۔ کچھ بھی ادھورا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی ایک معاملے میں بھی ادھورا پن رہ جائے تو دوسرے تمام معاملات پر اُس کا منفی اثر مرتب ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
ترقی یافتہ معاشرے جب ترقی یافتہ نہیں تھے تب اُن میں ایسا بہت کچھ تھا جو آج ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ تمام پسماندہ معاشرے یکساں نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ معاشرتی سطح پر پائی جانے والی پیچیدگیاں عملی زندگی کو دشوار سے دشوار تر بناتی چلی جاتی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں زندگی کا معاشی پہلو بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ زندگی کے معاشی پہلو کو نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ساری مادّی ترقی صرف اور صرف معاشی جدوجہد کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہم باطنی یا روحانی سطح پر چاہے کچھ بھی ہوں، اگر معاشی جدوجہد کا حق ادا نہ کریں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ایک دنیا ہے کہ ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے۔ مادّی ترقی کے نئے مدارج سامنے آرہے ہیں اور اِدھر ہم ہیں کہ اب تک معاشرتی الجھنوں اور پیچیدگیوں سے اپنا دامن چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ معاشرتی سطح پر پائی جانے والی الجھنیں زندگی کا معیار بلند کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ اُلجھی ہوئی طرزِ فکر و عمل عام آدمی کو ذرا سا بھی بلند نہیں ہونے دے رہی۔ ایک طرف فکرِ معاش انسان کو کھارہی ہے اور دوسری طرف رویوں میں پائی جانے والی پیچیدگی انسان کو پستی سے ابھرنے کا موقع نہیں دے رہی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مزاج کی کجی انسان کو قدم قدم پر عقل و فہم کی روشنی میں کچھ بھی کرنے سے روکتی ہے۔ معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ لوگ بے عقلی کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسروں میں بھی ایسا ہی بے معنی رویّہ پروان چڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے ہمارے ہاں رُوٹھنے اور منانے کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اِس وقت عمومی چلن میں پائی جانے والی سب سے بڑی پیچیدگی ہے بات بات پر منہ پھلانا، رُوٹھنا اور بات چیت بند کردینا۔ کچھ لوگ صرف بہانہ ڈھونڈتے ہیں، موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کہیں بھی کوئی ذرا سی بھی ایسی ویسی بات ہو اور بات چیت بند کی جائے۔
بات بات پر ٹُھنکنے اور رُوٹھ کر تعلقات معطل کرنے کی روش کسی بھی انسان کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ایسا کرنے سے زندگی کی گاڑی کسی ٹھوس جواز کے بغیر رُک جاتی ہے۔ بات بات پر منہ پھلانے اور رُوٹھنے میں کیا اور کس کا فائدہ ہے؟ یہ روش ہر اُس انسان کے لیے ''معقول‘‘ ہے جو اپنی ذمہ داری سے دامن چُھڑانے پر تُلا ہو۔ کسی صورتِ حال میں عمل لازم ہو مگر بے عملی کو ترجیح دینا ہو تو منہ پھلا لیجیے۔ کوئی کسی معاملے میں جائز وضاحت طلب کرے اور وضاحت سے دامن کش رہنا ہو تو بات چیت بند کردیجیے۔ صورتِ حال کا تقاضا ہو کہ آپ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیجیے اور آپ اپنا کردار ادا کرنے سے یکسر گریز چاہتے ہوں تو تعلقات معطل کرلیجیے۔ کیا زندگی جیسی نعمت ایسے رویے کی متحمل ہوسکتی ہے؟ یقینا نہیں۔
آج سب سے قیمتی اثاثہ ہے وقت۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ اپنے وقت کو ضائع کرے یا ضائع ہوتا ہوا دیکھے۔ آج کی زندگی قدم قدم پر وقت کے معاملے میں انتہائی محتاط ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ ایسے میں معاشرتی معاملات کی الجھنیں انسان کو راہ سے ہٹادیتی ہیں۔ کسی کا بلا جواز رُوٹھنا اب اعلانِ جنگ جیسا ہے۔ ہاں‘ یہ جنگ دفاعی انداز سے لڑنی ہے یعنی حملوں سے بچاؤ ممکن بنانا ہے مگر حملے نہیں کرنے۔ اگر کوئی بات بات پر بُرا مان جاتا ہو، منہ پُھلا لیتا ہوِ، بات چیت بند کردیتا ہو تو اُس کے حوالے سے واضح فکر اور بالکل واضح فیصلہ لازم ہے۔ ایسے کسی بھی انسان کا آپ کی زندگی میں زیادہ عمل دخل نہیں ہونا چاہیے جو بات بات پر رُوٹھ کر آپ کے ذہن کو الجھاتا ہو اور وقت کے ضیاع کا باعث بنتا ہو۔ کوئی کسی جواز کے بغیر رُوٹھے تو رُوٹھا رہنے دیجیے اور اپنی ترجیحات اور منصوبہ سازی کے مطابق زندگی بسر کیجیے۔ آج کی دنیا میں وہی کامیاب ہیں جو وقت ضائع نہیں کرتے اور وقت ضائع کرنے والوں سے دور رہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved