کرکٹ اب محض کھیل نہیں رہا‘ اس کے سوا بھی کچھ ہے۔ یہ اگرچہ ایک کھلا راز ہے مگر کچھ حرج نہیں اگر اس پر چند لمحے سوچ لیا جائے۔
زندگی کے مادی تصور نے جو زاویۂ نظر پیدا کیا ہے‘ وہ ہر معاملے کو نفع و نقصان کے پیمانے پر ناپنے کا خوگر ہے۔ کھیل کا محض کھیل ہونا اس کے لیے زیادہ قابلِ فہم نہیں۔ اس کے نزدیک یہ عمل اسی وقت کارآمد ہو گا جب اس سے کوئی مالی فائدہ وابستہ ہو جائے۔ زندگی کا غیرمادی تصور اس کے برخلاف کھیل کو تفریح سمجھتا ہے اور تفریح بذاتِ خود مطلوب ہے۔ مذہب کا معاملہ تو خیر اس سے بہت ارفع ہے کہ زندگی کو ایک مختلف زاویۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ میں تو اس تصورِ حیات کی بات کر رہا ہوں جو سرمایہ دارانہ فکر کے فروغ سے پہلے غالب تھی۔ اس میں زندگی کو سرمایے کے بجائے چند اخلاقی اقدار سے وابستہ سمجھا جاتا تھا اور اسی کی بنیاد پر اس کی قدر کا تعین ہوتا تھا۔
مثال کے طور پر کسی صلے سے بے نیاز ہو کر دوسروں کے کام آنا۔ ضرورت مند کے لیے دل اور وسائل کے دروازے کھول دینا‘ ایثار اور قربانی‘ یہ سب اقدار انسانی سماج کی پہچان تھیں۔ 'آئیڈیالوجی‘ کے دور سے پہلے زندگی کا عمومی مفہوم یہی تھا کہ وہ انسانیت پر مبنی اقدار سے عبارت ہے۔ پھر وہ دور آیا جب زندگی کو سرمایے اور محنت کی بنیاد پر سمجھا گیا اور تاریخی واقعات کو مادے کی کارستانی قرار دیا گیا۔ سرمایے کو نفع سے جوڑ دیا گیا اور محنت کو معاوضے سے۔ ایک معاشی عمل کے حوالے سے یہ بات قابلِ فہم تھی مگر جیسے ہی زندگی کے ہر فعل کو اس کے تابع کر دیا گیا‘ اس کے بعد زندگی واپس ان اقدار کے ساتھ نہیں جڑ سکی جو نفع و نقصان سے بے نیاز تھیں۔
مادی ترقی انسانی معاشروں کی ترقی کا غالب پیمانہ بن گیا۔ یہی ترقی ایک سماج میں لیڈر کے لیے معیار بنی اور اسی کی بنیاد پر اقوام کے باہمی تعلقات کو جانچا گیا۔ اس سوچ نے ان تمام سر گرمیوں کو ایک مادی عمل بنا دیا جو انسان اپنی تفریح یا نشاطِ خاطر کے لیے سرانجام دیتا تھا۔ مثال کے طور پر وہ تہوار مناتا تھا۔ فصلیں کٹتی تھیں تو اپنی خوشی کے اظہار کے لیے مختلف اسالیب اختیار کرتا تھا۔ وہ گھوڑے دوڑا کر خوشی کا اظہار کرتا تھا یا ناچ گا کر۔ مقصد گزرے سال کی تھکن اُتارنا اور خود کو نئے عزم کے ساتھ نئی مشقت کے لیے تیار کرنا تھا۔ آسودہ حال لوگوں کے اپنے کھیل تھے اور عام لو گوں کے اپنے۔ روح سب کی ایک ہی تھی۔
جب معاملات سرمایے کے پجاریوں کے ہاتھ لگے تو انہوں نے تفریح اور کھیل کو ایک مادی سرگرمی میں بدل دیا۔ کھلاڑی اور کھیل دونوں کو جنسِ بازار بنا دیا گیا۔ آج سعودی عرب کے ایک فٹ بال کلب نے ایک عالم گیر شہرت رکھنے والے کھلاڑی کو اپنی ٹیم کا کوچ بنایا اور اس کو جو معاوضہ دیا‘ وہ غریب ملکوں کے بجٹ کے برابر ہے۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں کو بھی اسی طرح خریدا جاتا ہے۔ کیری پیکر نے اس عمل کا آغاز کیا اور اب اس کی کئی صورتیں وجود میں آ چکی ہیں۔
اس خطے میں باوجوہ کرکٹ مقبول ہے۔ مودی سرکار نے اس کے عالمی مقابلے کو ایک معاشی سرگرمی کے طور پر دیکھا۔ دنیا کا ہر ملک یہی کرتا ہے۔ قطر میں اگر فٹ بال کے ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا تو یہ بھی ایک معاشی سرگرمی تھی۔ ملک اس کی میزبانی کے حصول کے لیے جو پاپڑ بیلتے ہیں‘ ان سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ کھیل کی محبت میں نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ غیرمعمولی معاشی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ کھیل کو اب سفارت کاری کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت نے جس طرح پاکستان کے حالات کو جواز بنا کر پاکستان کو ایشیا اور عالمی کرکٹ سے دور رکھ کر اسے معاشی مفادات سے محروم کرنا چاہا‘ وہ سب پر ظاہر و باہر ہے۔
بھارت اگر جیت جاتا تو وہ اس سے اور مفادات کشید کرنا چاہتا۔ مودی صاحب اسی کے لیے تیار ہو کر سٹیڈیم پہنچے تھے مگر ان کی مراد پوری نہ ہو سکی‘ تاہم اس عالمی کپ کے کامیاب انعقاد سے بھارت نے بہت سے مادی اور سفارتی فائدے حاصل کر لیے۔ یہ بات اب سمجھنے کی ہے کہ کرکٹ محض ایک کھیل نہیں‘ ایک معاشی سرگرمی ہے۔ پاکستان کو دیکھیے تو کرکٹ بورڈ کا شمار ملک کے بڑے مالیاتی اداروں میں ہوتا ہے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ بڑے بڑے سیاسی راہنما اور شخصیات اس کے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے عزتِ سادات قربان کرنے پر بھی آمادہ رہتی ہیں۔
اس مادی تصورِ حیات نے ایک عام انسان کو ایک صارف کی نظر سے دیکھا ہے۔ انسان کو اخلاقی کے بجائے مادی وجود سمجھنے کا یہ ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔ اس لیے اب ہر وہ شے جو عام آدمی کی ضرورت ہے‘ اسے معاشی سرگرمی کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس میں اب مذہب بھی شامل ہے۔ انسان کو اپنی مذہبی ضروریات کی تکمیل کے لیے بہت سے چیزوں کی حاجت ہوتی ہے۔ یہ 'چیزیں‘ اس تصورِ حیات کے تحت جنسِ بازار ہیں اور اب طلب و رسد کے اصول پر ان کی تجارت ہوتی ہے۔ اس کو صارف کے لیے زیادہ پُرکشش بنایا جاتا ہے اور اس کی قدر میں اضافہ (value addition) کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لوگ مذہبی مقاصد کے لیے تسبیح استعمال کرتے ہیں۔ اب بازار میں اس کی اتنی اقسام ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ طرح طرح کے پتھروں کی بنی ہوئی ہیں۔ صندل جیسے لکڑی سے بنے ہوئے دانوں کی بھی تسبیح ہے۔ لباس سے ہم رنگ تسبیح بھی استعمال ہوتی ہے۔
مذہب سے تعلق‘ کھیل کی طرف رغبت‘ یہ سب انسان کے فطری مطالبات ہیں۔ مادی تصورِ حیات نے ان تمام فطری مطالبات کو نفع و نقصان کے پیمانے سے دیکھا ہے۔ اگر نفع متقاضی ہو تو سماج میں کھیل کے نام پر ہیجان پیدا کیا جاتا ہے۔ میڈیا اس میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک ناگزیر نتیجے کے طور پر مذہب‘ کھیل‘ ہر شے اپنے حقیقی مفہوم سے دور ہو کر ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ لوگ اس کو اپنا رہے ہیں اور انہیں اس کے پسِ پردہ مفادات کی کار فرمائی دکھائی نہیں دیتی۔
کیا ہمار ے پاس اس کا کوئی متبادل ہے؟ کیا کھیل کو کھیل بنایا جا سکتا ہے؟ میرا خیال ہے یہ اب آسان نہیں رہا۔ علامہ اقبالؔ نے اس جانب عالمِ انسانیت کو متوجہ کر رکھا ہے۔
عہدِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری دے کر تجھے فکرِ معاش
میرے نزدیک یہ صلاحیت مذہب کے دیے ہوئے تصورِ حیات میں ہے کہ معاملات کو ان کی فطری ڈگر پر چلا سکتا ہے۔ جب ہم نے انسان کو مادی کے بجائے ایک اخلاقی وجود مان لیا اور اس کی تربیت اور نشو و نما کو ہر سرگرمی کا محور مان لیا‘ اس کی ترجیحات بدل جائیں گی۔ اس کے نتیجے میں کوئی راحت زندگی سے خارج نہیں ہو گی‘ صرف اپنی فطری جگہ پر آ جائے گی۔
یہ کیسے ہو گا؟ یہ تعلیم اور عوامی شعورکی تربیت سے ہو گا۔ یہ سیاسی تبدیلی سے ہوگا نہ 'ریاست مرکز‘ سوچ سے ہو گا۔ جب معاشرے کی ذہانتیں‘ سیاست و طاقت کے بجائے‘ فروغِ علم اور معاشرتی تعمیر میں صرف ہوں گی تو سماج کی ترجیحات بدل جائیں گی۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ بالخصوص ان حالات میں جب مادی تصورِ حیات دنیا کی واحد قابلِ عمل فکر بن چکا ہے۔ کیا سماج کو کرکٹ کے اس بخار سے نجات دلائی جا سکتی ہے؟ یہ سوال تصورِ حیات کی تبدیلی کے بغیر حل نہیں ہو سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved