یونیورسٹی آف سائوتھ ایمپٹن (University of Southampton)انگلستان کی معروف درسگاہ ہے ۔اس میں بوڑھے افراد کے معیار زندگی پر تحقیق کی گئی جس میں 91ممالک کے بوڑھے افرادکے رہن سہن اور ان کو ملنے والی سہولتوں کا موازنہ کیا گیا ہے ۔اس تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کا تیسرا بد ترین ملک ہے جہاں معمر افراد انتہائی نا گفتہ بہ حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس تحقیق کے طریقہ کاراور نتائج کی ثقاہت (کلیتاً درست ہونے) سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بدلتے ہوئے طرز زندگی سے معمر/ ضعیف افراد کے مقام اور اہمیت میںخاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے ۔ ایک دور تھا جب یورپی ملکوں میں قائم اولڈ ہائوسز کی روداد ایک افسانہ معلوم ہوتی تھی اور یہ بات کبھی سوچی بھی نہیں جاسکتی تھی کہ پاکستان جیسے مسلمان اور مشرقی ملک میں بھی اولڈ ہائو سز قائم ہوںگے‘ لیکن جو سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا آج حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے ۔ چند ماہ قبل مجھے ایک اولڈ ہائوس میں جانے کا موقعہ ملا ۔اس میں بوڑھوں کے رہن سہن اور خورو نوش کا معقول انتظام تھا مگر گھر اور اولاد سے دوری کی وجہ سے اکثر بزرگوںکے چہروں پر غم اور اداسی کے اثرات نمایاں تھے ۔ ان میں سے بعض افراد سے اولڈ ہائوس میں منتقلی کے اسباب پر گفتگو ہوئی تو عقل دنگ رہ گئی کہ یہ بزرگ اپنی اولاد کی تعمیر وترقی کے لیے مسلسل محنتیں کرتے رہے ،اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی تعلیم اور خوراک کے لیے تگ و دو کرتے رہے ۔کسی کا بیٹا ڈاکٹر،کسی کا بیٹاانجینئر اور کسی کا بیٹاکامیاب تاجر بن گیا۔ والدین نے جس اولاد کا مستقبل سنوارنے کے لیے زمانے کے نشیب وفراز کا دیوانہ وار مقابلہ کیا اور ہر گرم و سرد تلخی صبر و تحمل سے برداشت کی‘ اسی اولاد نے معاشی طور پر مستحکم ہونے کے بعد اپنے والدین کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ بعض بدقسمت والدین ہر طرح کی اذیتیں سہتے رہے، شبانہ روز محنت سے بچوں کو گھروں میں آباد کیا اور اولاد نے آباد ہوتے ہی والدین کو انہی کے بنائے ہوئے گھر سے نکال باہر کیا۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ اس کی تمام اولاد بیرون ملک آباد ہے اور تقریبا ًدوبرس سے کسی نے ان کی خبر تک نہیں پوچھی۔ ایک عمررسیدہ لیڈی ڈاکٹر کی داستا ن انتہا ئی دردناک تھی۔جب تک وہ جاب کرتی رہیں‘ ان کا بیٹا اور بہو انہیں برداشت کرتے رہے اور جب ان کی جاب ختم ہوگئی توبیٹے نے بجلی کا بل ماں کے سامنے رکھ دیا کہ اُسے ادا کریں اور اگر آپ ادا نہیں کر سکتیں تو اپنا انتظام خود کرلیں ۔ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اور خونی رشتوں میں بھی ایک دوسرے کا احساس باقی نہیں رہا ۔خود غرضی اور مادہ پرستی نے لوگوں کی عقل پر پردے ڈال دیے ہیں اور لوگ اچھے برے کی تمیز کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں۔ والدین اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہیں اور ان کی نیکیوں اور احسانا ت کا بدلہ چکانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ٹھنڈے دل سے بیتے ہوئے ایام کو یاد کرے… جب وہ نا تواں تھا اور اسے ہر لمحہ والدین کی شفقت کی ضرورت تھی، ان ماہ و سال میں کس طرح ماں اُسے سردی اور گرمی سے بچا تی رہی‘ کس طرح بیماری کے دوران راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کی خبر گیر ی کرتی رہی‘ کس طرح باپ اپنی حیثیت اور استطاعت سے بڑھ کر اُس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تگ و دو کرتا رہا ۔چھوٹی عمر کے بچے اپنے والدین سے ہر طرح کی فرمائشیںکرتے رہتے ہیں اوروالدین خندہ پیشانی سے اپنی اولاد کے جائز اور نا جائز مطالبات پورے کرنے لیے مقدور بھر کوشاں رہتے ہیں اورجب انسان ان کے احسانا ت کا کسی حد تک بدلہ چکانے کے قابل ہوتا ہے تو وہ اپنے ماضی اور والدین کے احسانات کو یکسر فراموش کردیتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کی بہت بڑی وجہ دینی تعلیمات سے دُوری ہے۔ والدین کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ اولاد کی مادی ضروریات اور دنیوی تعلیم کو مکمل کرنے کی کوشش کریں بلکہ ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ انہیں قرآن وسنت کی تعلیمات سے مزیّن کریں۔ جب تک ہم قرآن وسنت کی تعلیمات سے دور رہیں گے‘ ہماری اخلاقی حالت بہترہونے کا امکان معدوم رہے گا۔ جب ہم سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23،24میں والدین سے متعلق احکامات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں میں آتی ہے کہ ہمیں ہر حال میں والدین کا احترام کرنا ہوگا ۔ان کو جھڑکنا تو کُجا ان کے لیے ’’اُف‘‘ کرنا بھی جائز نہیں ۔اگر وہ بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے چڑچڑے پن کا شکار ہوجائیں تو بھی ان سے نرم روی سے بات کرنا ہوگی۔ ہمیں ان کے سامنے اپنے کاندھوں کو جھکائے رکھنا ہوگا تاکہ وہ ہماری اٹھی ہوئی گردن اورتنے ہوئے کاندھو ں کو دیکھ کر مرعوبیت کا شکار نہ ہوجائیں۔گردش ایام کے نتیجے میں ان کو جس تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے درد کو ہمیں اپنے دل کی گہرائیوں سے محسوس کرنا چاہیے اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں آکر دعا مانگنی چاہیے کہ ’’اے ہمارے رب! ان (دونوں)پر رحم فرما جس طرح یہ مجھ پر بچپنے میں رحم کرتے رہے ۔‘‘ عقیدے اور مذہب کا اختلاف بھی والدین سے حسن سلوک کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ سورۃ لقمان اور سورۃ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے مشرک والدین سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور اپنے بندوں کو نصیحت کی ہے کہ اگر وہ تمہیں شرک کا حکم دیںتو ان کی تابعداری نہ کرنا مگر دنیوی امور میں ان کے ساتھ بہترین معاملہ کرنا ۔نبی کریم ﷺ نے ماں کی عظمت اورشان کو اس حد تک اجاگر کیا ہے کہ جنت کی رفعتوں کو بھی ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیا ہے۔ نبیﷺ چھوٹی سی عمر کے تھے جب آپﷺ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا لیکن حضرت حلیمہ سعدیہؓ، جو آپ کی رضاعی ماں تھیں‘ تادیر زندہ رہیں۔ وہ جب بھی کبھی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں نبیﷺ اُن کا پرتپاک طریقے سے استقبال کرتے‘ ان کے لیے اپنی چادر کو بچھا دیتے اور تحفے تحائف دے کر اُن کو رخصت فرماتے۔ سیدنا اویس قرنیؓ مدتِ مدید تک نبی ﷺ کی زیارت کے لیے بے تاب رہے لیکن رسو ل اللہ ﷺ نے ان کو ماں کی خدمت کی تلقین کی کہ جب تک وہ زندہ ہیں آپ ان کی خدمت میں مشغول اور مصروف رہیں ۔اسی طرح رسول اللہﷺ کے بعض صحابہؓ نے جب بوڑھے والدین کی موجودگی میں جہاد کی اجازت چاہی تو نبیﷺ نے انہیں بوڑھے والدین کی خدمت کی تلقین کی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام بخاریؒ نے بخاری شریف میں والدین کی اجازت کے ساتھ جہاد پر ایک مستقل باب باندھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب انگلستان کے ایک قصبے اولڈ ہم میں واقع ایک اولڈ ہائوس کے دورے کے دوران مَیں نے ایک عمر رسیدہ خاتون کو قرآن وسنت میں مذکور بوڑھوں کے حقوق سے آگا ہ کیا تو وہ حیرا ن وششدر رہ گئی۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ضرور اس قرآن کو پڑھوں گی جس میں بوڑھے والدین کے اتنے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی طرف پلٹنے کی توفیق دے اور بوڑھے والدین کے سایہ شفقت میں ہی زندگی کے باقی ماندہ روز وشب گزارنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved