فی الحال پاکستان دو سکیورٹی مسائل پر توجہ مرکوز کر رہا ہے اور ریاستی اداروں اور حکام ان سے نمٹنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ یہ دو مسائل غیر قانونی افغان مہاجرین اور پاکستان کے اندر بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے‘ خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں۔ پاکستان نے اکتوبر 2023ء کے پہلے ہفتے میں فیصلہ کیا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو واپس بھیج دیا جائے۔ انہیں 31اکتوبر تک ملک چھوڑنے کو کہا گیا تھا اور واضح کیا گیا کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو انہیں گرفتار کرکے واپس بھیج دیا جائے گا۔ جس کے بعد افغانوں کی ایک بڑی تعداد نے رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑ دیا۔ یکم نومبر سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام نے انہیں خصوصی پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کرنا شروع کیا۔ وہاں سے افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی حکام کیلئے ان کی واپس آسان بنانے کیلئے تین نئے راستے کھولے گئے ہیں۔ نومبر کے وسط تک دو لاکھ سے زائد افغان افغانستان واپس جا چکے تھے۔افغان حکومت‘ ایک بین الاقوامی تنظیم اور پاکستان کے کچھ طبقات نے افغان مہاجرین کی زبردستی واپسی پر تنقید کی۔ پاکستان میں مختلف مذہبی جماعتوں اور افراد نے اس پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا لیکن ان سے توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ وہ اسے ایک بڑے سیاسی مسئلے میں بدل دیں گے کیونکہ غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی واپسی کی پالیسی کو تمام صوبوں میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ان تمام غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کی پالیسی پر عمل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جن کا قیام غیر قانونی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی حکام کسی ایسے افغان مہاجر کو ملک بدر نہیں کر رہے جو پاکستان کے افغان مہاجر ین کے نظام یا پاکستان میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR) کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔ان افغانیوں کو بھی اس پالیسی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جو پاکستان میں امریکہ اور انگلینڈ واپسی کے منتظر ہیں۔
افغان مہاجرین کے بارے میں پاکستان کی نئی پالیسی اس احساس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا تعلق افغان مہاجرین سے ہے۔ سرکاری حلقوں کی رائے ہے کہ افغانستان سے آنیوالے دہشت گرد پاکستان میں قیام کے دوران افغان مہاجرین میں گھل مل جاتے ہیں یا وہ پاکستان میں اپنے پُرتشددعزائم کیلئے کچھ افغان مہاجرین کو اپنے مددگار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مزید برآں‘ کچھ افغان مہاجرین کو دیگر جرائم سے منسلک بھی پایا جاتا ہے۔ پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ غیر مجاز افغانوں کے انخلا سے پاکستان میں انتہا پسندی اور تشدد پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ یہ پالیسی کابل میں افغان طالبان کی حکومت کے خلاف پاکستان کے حکمرانوں کے غصے کی بھی عکاسی کرتی ہے جس نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کچھ دیگر انتہا پسند گروہوں کو افغانستان میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی ہے اور یہ کہ وہاں سے ہی وہ پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور اس کا سہارا لیتے ہیں‘ خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے متصل قبائلی اضلاع میں۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ گروہوں کی پُرتشدد سرگرمیوں کے بارے میں کابل حکومت سے پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوجود کابل حکومت اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتی ہے۔ افغان حکومت یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے کہ افغانستان میں قائم کوئی بھی عسکریت پسند گروپ پاکستان میں تشدد میں ملوث ہے۔ افغان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اندر تشدد پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور اس کی حکومت کو افغانستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اپنی اندرونی صورتحال سے نمٹنا چاہیے۔
یہ افغان مہاجرین 1979-80 ء میں پاکستان آنا شروع ہوئے کیونکہ 27 دسمبر 1979 ء کو سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اور افغانستان کی داخلی صورتحال خراب ہوگئی تھی۔صدر حفیظ اللہ امین کی حکومت کو ہٹا دیا گیا اور ببرک کارمل کو صدر کی حیثیت سے عنانِ اقتدار سونپ دی گئی۔ جیسے ہی سوویت فوجوں نے اپنا کنٹرول بڑھایا ‘ افغانیوں نے بڑی تعداد میں پاکستان آنا شروع کر دیا۔ یہ نمونہ افغانستان پر سوویت قبضے (دسمبر 1979ء تا فروری 1989ء) کے دوران اور اس کے بعد کے سالوں میں‘ اپریل 1992ء تک نجیب اللہ کی حکومت کے ساتھ افغان مجاہدین کے تصادم اور افغان مجاہدین کے مابین لڑائیوں تک جاری رہا۔ حکومتِ پاکستان اور زیادہ تر غیر سرکاری حلقوں نے افغان مہاجرین کا جوش و خروش سے خیرمقدم کیا۔ حکومتِ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے تعاون سے پناہ گزین کیمپ قائم کیے۔ ان پناہ گزینوں کو پاکستان میں کہیں بھی آباد ہونے کی اجازت تھی اور ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ اپنے انتظامات کے تحت کیمپوں میں یا باہر رہ سکتے تھے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کیمپوں سے باہر رہتی تھی اور ملازمتیں کرتی تھی یا اپنے طور پر یا پاکستان میں اپنے تعلقات اور دوستوں کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں میں مصروف رہتی تھی۔
1980ء اور 1990ء کی دہائی کے دوران پاکستان میں افغان پناہ گزینوں پر تنقید کرنا انتہائی مشکل تھا۔ پاکستانی معاشرے اور معیشت کیلئے ان کے منفی مضمرات پر زور دینے والے کسی بھی تبصرے کو حکومت اور بیشتر مذہبی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا۔ پاکستان کے سرکاری حلقوں اور غیر سرکاری حلقوں نے انہیں ''مسلم بھائیوں‘‘کے طور پر بیان کیا‘ جنہوں نے پاکستان کی معیشت اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کیا تھا۔ انہیں افغان مہاجر بچوں کیلئے مدرسے قائم کرنے کی اجازت دی گئی اور قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں کچھ پاکستانی مذہبی حلقوں کے ساتھ ان کے روابط واضح تھے۔ آپ نے سرکاری سطح پر ان کے بارے میں شاید ہی کوئی منفی بات سنی ہو۔ اب مگر2023ء میں داخلی سلامتی اور خارجہ پالیسی کی ضروریات بدل گئی ہیں‘ جس کی وجہ سے پاکستان کے مزاج میں ان افغان مہاجرین کی طرف سے ایک بڑی تبدیلی آئی ہے جو پاکستان میں بغیر کسی قانونی جواز کے رہ رہے تھے۔ آج حکومتِ پاکستان نہ صرف تمام غیر قانونی افغان مہاجرین بلکہ غیر قانونی طور پر ملک میں رہنے والے دیگر غیر ملکیوں کو بھی ملک بدر کرنا چاہتی ہے ۔ توجہ افغان پناہ گزینوں پر مرکوز ہے جو پاکستان میں رہنے والے 97 فیصد غیر ملکیوں پر مشتمل ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں اور افغان پناہ گزینوں کے درمیان رابطے کے بارے میں پاکستان کا سرکاری نقطۂ نظر دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سرگرمی کی ایک وجہ ہو سکتا ہے‘ لیکن اسے پاکستان میں ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروہوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی پُرتشدد سرگرمی کی واحد وجہ کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر سرحدی نگرانی اور سلامتی کو بڑھانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں مقیم دہشت گرد غیر مجاز راستوں سے پاکستان میں داخل نہ ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی ہوئی ہے جس کی انسانی اور تکنیکی نگرانی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں‘ افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان میں مقیم افغان دہشت گرد گروہوں کے روابط پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ بلوچستان کی صورتحال کو سماجی و اقتصادی مسائل‘ بالخصوص غربت اور پسماندگی سے نمٹنے کیلئے اضافی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے غیرملکی مخالفین سی پیک کو کمزور کرنے کیلئے اس صورتحال کا فائدہ نہ اٹھائیں۔ پاکستان کے سکیورٹی چیلنجز بہت بڑے ہیں جن کیلئے ایک جامع نقطۂ نظر کی ضرورت ہے جو بیرونی اور اندرونی عوامل پر غور کرے۔ صرف غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے سے سکیورٹی کے تمام چیلنجز حل نہیں ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved