اس دوغلی دنیا میں‘ جس میں کسی ملک کے عوام مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور سربراہ اسرائیلی بہیمیت کے ساتھ‘ ایک الگ سا جزیرہ ایسا بھی ہے جہاں خاص و عام‘ شہری اور سربراہ‘ برسرِ اقتدار گروہ اور حزبِ اختلاف سب یکجان ہوکر فلسطین کے حق میں بول رہے ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ کہ یہ جزیرہ یورپ میں واقع ہے۔ آپ کو مزید حیرت ہو گی کہ اس ملک میں لگ بھگ 76فیصد لوگ مسیحی ہیں۔ ہمارے ذہن میں جو یہ بات ہے کہ پورا یورپ حکومتی سطح پر اسرائیل کی مدد کیلئے کھڑا ہے‘ ہمارے دماغوں میں یہ جو بات راسخ ہے کہ تمام مسیحی حکومتیں اور عوام غیرمشروط طور پر صہیونیوں کے ساتھ ہیں‘ جمہوریہ آئرلینڈ ان غلط فہمیوں کی تردید کرتا ہے۔ یہ جزیرہ مکمل طور پر فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور یورپ کے کسی ملک نے اس طرح کھل کر اسرائیل کی مذمت نہیں کی جس طرح جمہوریہ آئر لینڈ نے کی ہے۔
شمالی بحرِ اوقیانوس کا یہ بڑا جزیرہ آئر لینڈ‘ جس کا رقبہ لگ بھگ 84 ہزار مربع کلو میٹر ہے‘ اپنی سرسبز زمین کی وجہ سے زمردی جزیرہ بھی کہلاتا ہے۔ آئرلینڈ دو حصوں میں منقسم ہے۔ جمہوریہ آئرلینڈ‘ جو آزاد ملک ہے اور شمالی آئر لینڈ‘ جو برطانیہ کا حصہ ہے۔ جمہوریہ آئر لینڈ کا دارالحکومت ڈبلن اور شمالی آئرلینڈ کا دارالخلافہ بلفاسٹ ہے۔ جمہوریہ آئر لینڈ‘ جو صرف آئر لینڈ بھی کہلاتا ہے‘ جزیرے کے چھ میں سے پانچ حصوں کا مالک ہے اور پچاس لاکھ کی آبادی کیساتھ بڑا ملک ہے۔ یہاں برٹش پاؤنڈ اور یورو‘ دونوں کرنسیاں رائج ہیں۔ اس کے ساتھ شمالی آئر لینڈ میں بیس لاکھ لوگ بستے ہیں۔ دونوں طرف بہت بڑی اکثریت مذہبی اعتبار سے مسیحی ہے۔ یہ تو آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ اگرچہ آئر لینڈ انگریزوں کے زیرِ اثر اور زیرِ تسلط رہا اور آج بھی یہاں انگریزی مرکزی زبان ہے‘ لیکن برطانیہ اس پر مکمل قابو پانے میں ہمیشہ ناکام رہا۔ آئرش ہمیشہ سے خود کو برطانیہ سے الگ ایک جغرافیائی حقیقت اور علیحدہ قوم سمجھتے رہے ہیں۔ آپ نے بھی سنا ہو گا کہ برطانوی حصے میں آج بھی شورشیں بپا رہتی ہیں اور زیر زمین تحریکیں علیحدگی پر کام کرتی رہتی ہیں۔ ایک زمانے میں تو بلفاسٹ میں دھماکوں کی روز خبریں چھپا کرتی تھیں۔
خیر‘ یہ الگ موضوع ہے۔ اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ جمہوریہ آئرلینڈ فلسطین کی کس طرح حمایت کرتا رہا ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں‘ اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ آئرش سیاستدان اور سابقہ وزیر لیو واراڈکار (Leo Varadkar) نے اسرائیلی بمباری کو انتقامی کارروائی قرار دیا۔ وزیر خارجہ نے اسے بالکل غیرمتوازن اور غیر مناسب کہا اور حزبِ مخالف کے رہنماؤں نے تو سب سے بڑھ کر اسے اجتماعی قتلِ عام کا نام دیا؛ چنانچہ ان بیانات کو فلسطین میں بہت پذیرائی ملی اور ہزاروں فلسطینیوں کے قتلِ عام پر یورپ میں ان بیانات کا بہت چرچا ہوا۔ ظاہر ہے اس کے مخالف‘ اسرائیلی لابی کے زیر اثر یوروپینز نے اسے اسرائیل کے حقِ دفاع کا نام دیا اور حماس کی کارروائیوں کو ظالمانہ قرار دیا‘ لیکن آئرلینڈ کے ان بیانات پر سب سے زیادہ اسرائیلی تلملائے۔ یورپی یونین کے ایک ممبر ملک کی طرف سے یہ بات اسرائیل کیلئے بہت تکلیف دہ ہے۔ اسی طرح فلسطینیوں کے حق میں مسلسل مظاہر ے اور مارچ پورے آئرلینڈ میں جاری ہیں۔ حزبِ مخالف کی جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انٹر نیشنل کریمنل کورٹ میں اسرائیل پر مقدمہ کیا جائے اور اسرائیلی سفیر ڈانا ارلچ کو ملک بدر کیا جائے۔ یہ مطالبہ اگرچہ پورا نہیں ہوا مگر دباؤ جاری ہے۔ 600اکیڈیمیز نے دستخطوں کے ساتھ مختلف یونیورسٹیوں کو مراسلہ بھیجا کہ اسرائیل سے تعلیمی روابط منقطع کیے جائیں۔ تعلیمی سطح پر یہ تحریک شاید آئرلینڈ کے علاوہ کسی ملک سے نہیں چلائی گئی۔ ظاہر ہے‘ فلسطینیوں پر اس کا بہت مثبت اثر ہوا۔ ایسے وقت میں جب پورے یورپی یونین کی حکومتیں اسرائیل کی مکمل حمایت میں کھڑی ہیں‘ یورپ ہی سے ایک ایسی آواز کا اٹھنا ان کیلئے بہت خوش آئند ہے۔ اسی لیے آئر لینڈ میں فلسطینی سفیر جیلان وھابہ عبدالمجید نے کہا ہے کہ آئر لینڈ کے لوگ بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ میرا اعزاز ہے کہ میں ان کے بیچ موجود ہوں۔ انہوں نے جنگ بندی کیلئے آئر لینڈ کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ فلسطین میں وہ وِڈیو کلپس بہت وائرل ہورہے ہیں جن میں آئرش قانو ن سازوں نے ان کی حمایت کی ہے۔
آئر لینڈ کی فلسطینی حمایت کی ایک تاریخ ہے۔ آئر لینڈ یورپی یونین کی پہلی ریاست تھی جس نے 1980ء میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا۔ اسی طرح آئرش عوام میں لکسمبرگ کی سابقہ وزیر خارجہ جین ایسل بورن کو پذیرائی ملی تھی جنہوں نے کہا تھا کہ تمام یورپی یونین کو فلسطینیوں کی ذرہ برابر پروا نہیں ‘ سوائے میرے اور آئرلینڈ کے۔ آئرلینڈ کے وزیر خارجہ مارٹن نے حالیہ دورۂ اسرائیل میں اگرچہ حماس کے حملے کو سفاکانہ کہا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہ اسرائیل کی غلطی ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل جنگ سمجھتا ہے۔ ایک سابقہ آئرش سفارت کار نیال ہولاہان نے‘ جو رملہ میں بہت مدت تعینات رہے ہیں‘ کہا ہے کہ ہمیں صدیوں سے جبر کا سامنا رہا ہے۔ اس لیے یہ ہماری نفسیات میں ہے کہ ہم مجبور کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل دراصل برطانیہ کا بویا ہوا بیج ہے‘ اس لیے آئرلینڈ کی برطانیہ مخالفت اور نو آبادیاتی زمانے میں اس کا خود نوآبادی ہونا‘ اس کی فلسطین کی حمایت کا ایک سبب ہے۔ ایک اور بڑا سبب آئرلینڈ میں یہودی اثر و رسوخ نہ ہونا ہے۔ آئر لینڈ میں بمشکل ڈھائی ہزار یہودی آباد ہیں جو پوری آبادی کا 0.05فیصد بنتے ہیں جبکہ یورپ اور خود برطانیہ اور فرانس میں ان کی کافی آبادی موجود ہے۔ یہ بھی ایک سبب ہے کہ آئرلینڈ کسی دباؤ کے بغیر اپنے اصولوں کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ آئرلینڈ میں یہودیوں کے ترجمان موریس کوہن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئرلینڈ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ جیسے انہوں نے قابضین کے خلاف مسلسل جدوجہد کی ہے‘ اسی طرح فلسطینی بھی قابضین کو ہٹانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایک اور آئرش کونسلر سائرین پیری نے ایک تحریک چلائی تھی کہ ڈبلن سٹی ہال پر فلسطینیوں کی حمایت میں جھنڈا لہرایا جائے۔ یہ تحریک کامیاب نہ ہوئی لیکن پیری کا خیال ہے کہ یہ دباؤ آئرش حکومت کو مجبور کرے گا کہ وہ امریکہ اور بلجیم کی حکومتوں کو مضبوط پیغامات بھیجے اور جنگ بندی کیلئے ان حکومتوں کو جھکنا پڑے گا۔
ایک لمحہ یہاں ٹھہر کر آئر لینڈ کے عوام اور حکومت سے اپنا موازنہ کریں۔ یہ مسیحی اکثریتی ملک ہے جس کی کوئی مذہبی ہمدردی مسلمانوں سے نہیں ہے۔ اس کے اپنے مسائل بھی ہیں اور یورپی یونین میں رہ کر اس کیلئے بڑے اور طاقتور ملکوں کی مخالفت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کو اپنے معاملات میں فلسطینیوں سے کسی حمایت کی توقع بھی نہیں ہے۔ فلسطینی‘ جو اس وقت زمین کی کمزور ترین قوم ہیں‘ کسی کی کیا مدد کر سکتے ہیں‘ انہیں تو اس وقت خود مدد کی سخت ضرورت ہے‘ لیکن آئرلینڈ ان سب سے بالاتر ہوکر فلسطین کی حمایت کر رہا ہے۔ آئر لینڈ کا نڈر رویہ مسلمان بالخصوص عرب ملکوں کیلئے باعثِ شرم ہونا چاہیے۔ جن کی زبانیں کسی کے ساتھ ہیں اور تلواریں کسی کے ساتھ۔ حال یہ ہے کہ کبھی چینی اور کبھی روسی وزیر خارجہ سے مدد مانگنے کیلئے ان کے دروازوں پر پہنچتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اپنی بے حسی پر شرم آتی ہے اور اپنی مجبوریوں پر رونا۔ لیکن ایک منٹ ٹھہریے‘ کون سی مجبوریاں؟ حقیقی یا خود ساختہ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved