17 نومبر بروز جمعۃ المبارک چیف آف آرمی سٹاف جنرل حافظ سید عاصم منیر نے راولپنڈی میں علماء و مشایخ سے تفصیلی خطاب کیا۔ اس اجتماع میں پاکستان کے تقریباً تمام علاقوں سے علماء آئے ہوئے تھے، روایتی مشایخ کی تعداد نسبتاً کم تھی۔ بظاہر اس کا مقصد علماء کو دہشت گردی کی حالیہ لہر اور پاک افغان تعلقات کے بارے میں اعتماد میں لینا تھا اور اپنے عوام کی جان و مال اور آبرو کے تحفظ کی آئینی و قانونی ذمہ داری کے حوالے سے اپنے پختہ عزم کا اظہار تھا کہ قوم خاطر جمع رکھے، مسلّح افواج اپنی آئینی وقانونی ذمہ داریاں ہر قیمت پر نبھائیں گی۔ انہوں نے داخلی سیاست کو موضوعِ بحث نہیں بنایا۔ ابتدا میں انہوں نے قیامِ پاکستان سے لے کر پاک افغان تعلقات کی تاریخ بیان کی، ظاہر ہے: یہ تعلقات اتار چڑھائو کے مختلف ادوار سے گزرتے رہے ہیں، ہمیشہ ایک سطح پر نہیں رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے حوالے سے جس واحد ملک نے پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی، وہ افغانستان تھا۔ پھر سوویت یونین کے خلاف جہادِ افغانستان کا دور گزرا، امارتِ اسلامیہ افغانستان کا پہلا دور، پھر نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان پر یلغار، پھر 2021ء میں امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد امارت اسلامیہ افغانستان کا دور جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا: ''پاکستان نے اس کی قیمت بے پناہ جانی نقصان اور تقریباً 450 ارب ڈالر مالی نقصان کی صورت میں اٹھائی ہے‘‘۔ ظاہر ہے اس کا کوئی لگا بندھا تخمینہ ہمارے پاس دستیاب نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف صاحب حافظ قرآن ہیں، اُن کا قرآن کا استحضار بہت عمدہ ہے، موقع کی مناسبت سے قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور ان کا ترجمہ بھی عمدگی سے کرتے ہیں۔ تمام مسلم ممالک کے فوجی سربراہان میں ہمارے چیف آف آرمی سٹاف کا یہ امتیاز ہے، جو قابلِ فخر ہے۔
انہوں نے قتلِ ناحق اور فساد فی الارض یعنی دہشت گردی کے حوالے سے قرآنی آیت پڑھیں اورحالاتِ حاضرہ پر ان کی عمدہ تطبیق کی۔ سورۂ مائدہ آیت: 27 میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا ذکر ہے کہ حسد کی بنا پر قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا، اس کی بابت رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''(انسانیت میں) جب بھی کسی شخص کو ناحق قتل کیا جائے گا (ہر قاتل اپنے کیے کی سزا پائے گا)، مگر (ہر قتلِ ناحق) کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے (قاتل بیٹے) کے کھاتے میں بھی لکھا جائے گا، کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بنی آدم میں سب سے پہلے قتلِ ناحق کی بنیاد ڈالی‘‘ (بخاری: 3335)۔
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے واقعے کے تناظر میں یہ حکم بیان فرمایا: ''اور اسی سبب ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس شخص نے قصاص (جان کے بدلے میں جان) یا فساد فی الارض کے بغیر کسی شخص کو (ناحق) قتل کیا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس شخص نے ایک (بے قصور) انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے ساری انسانیت کو بچا لیا‘‘ (المائدہ: 32)۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ کی خدمت میں اون کے کپڑے پہنے ہوئے کچھ دیہاتی حاضر ہوئے، آپﷺ نے اُن کی بدحالی اور ان کی ضرورت کو دیکھا تولوگوں کو صدقے کی ترغیب دی۔ لوگوں نے تعمیل میں کچھ دیر کی تو آپﷺ کے رخِ انور پر ناگواری کے اثرات نظر آئے، پھر ایک انصاری درہموں کی تھیلی لے کر آیا، پھر دوسرا شخص آیا، پھر اور لوگ آئے، یہاں تک کہ آپﷺ کے رخِ انور پر مسرّت کے آثار نمودار ہوئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے اسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالی اوراس کے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا تو اس اچھے کام کی بنیاد ڈالنے والے کے نامۂ اعمال میں بعد میں اُس کام کے کرنے والوں کے برابر اجر لکھا جائے گا، جبکہ اُن کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے اسلام میں کسی برے کام کی بنیاد ڈالی، اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو بعد والوں کے عمل کے برابر گناہ اس بنیاد ڈالنے والے کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی‘‘ (مسلم: 1017)۔ آرمی چیف نے قتلِ عمد کی بابت قرآنِ کریم کی یہ آیت پڑھ کر اس کا ترجمہ کیا: ''اور جو کوئی قصداً کسی مؤمن کو (ناحق) قتل کرے گا، تو اُس کی سزا جہنم ہے، اس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور وہ اس پر لعنت کرے گا اور اللہ نے اُس کے لیے (آخرت میں) عذابِ عظیم تیار کر رکھا ہے‘‘ (النسآء: 93)۔
قرآنِ کریم نے دہشت گردی کو ''اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور فساد فی الارض‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور اُس کی سب سے سخت سزا بیان فرمائی ہے۔ چیف صاحب نے سورۂ مائدہ کی آیات 32 تا 34 کی تلاوت کی اور ان کا ترجمہ بھی بیان کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ (اُن کے جرم کی نوعیت کے مطابق) انہیں چن چن کر قتل کیا جائے یا انہیں سولی پر چڑھایا جائے یا اُن کے ہاتھ پائوں مخالف سَمت سے کاٹے جائیں یا انہیں زمین سے نکال دیا جائے، یہ اُن کے لیے دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑا عذاب ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو تمہارے اُن پر قابو پانے سے پہلے وہ توبہ کر لیں، پس جان لو! اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ (المائدہ: 33 تا 34)۔ پس جو مفسدین اور دہشت گرد اسلامی ریاست کے مقابل آمادۂ پیکار ہوں اور ریاست کے اُن پر قابو پانے سے پہلے وہ غیر مشروط طور پر توبہ کرکے دہشت گردی سے رجوع کر لیں تو اُن کے لیے معافی کی گنجائش ہے، لیکن اگر وہ باز نہ آئے اور ریاست نے اُن پر قابو پا لیا تو پھر اپنے جرم کے مطابق وہ سنگین سزاکے مستحق ہوں گے، اس کوشریعت کی اصطلاح میں ''حدِّ حِرابہ‘‘ کہتے ہیں۔
چیف صاحب کے خطاب سے معلوم ہوا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے بگاڑ میں بنیادی عنصر ٹی ٹی پی ہے، ہم نے افغان حکومت سے با رہا کہا: ''انہیں کنٹرول کرو کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی سے باز آ جائیں یا ان کو ہمارے حوالے کرو‘‘، ظاہر ہے حکومتِ افغانستان نے انہیں پاکستان کے حوالے نہیں کیا، جبکہ ان کی دہشت گردی ہمارے ملک کے اندر جاری ہے، یہ صورتِ حال کسی بھی قیمت پر قابلِ قبول نہیں ہے، اسے ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حالیہ دنوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے، ان میں ہماری مسلّح افواج کے افراد اور پُرامن شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، ان تمام واقعات میں افغانوں کی موجودگی کے شواہد موجود ہیں، جو ہم نے ان کو دکھائے ہیں اور ہم حکومتِ افغانستان کو افغانستان کے اندر اُن کے ٹھکانوں کی بابت بھی بتاتے رہے ہیں، لیکن ہمیں تعاون نہیں ملا، ہمارے لیے پاکستانی سرحدوں کا تحفظ اور پاکستانیوں کی جان و مال کا تحفظ سب سے مقدم ہے، اس پر کسی بھی صورت میں کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ اُن کا کہنا تھا: اگر ٹی ٹی پی یہ سب کچھ نفاذِ شریعت کے نام پر بھی کرے تو اِن اشعار کا مصداق ہو گی:
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
اَملاک بھی‘ اولاد بھی‘ جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا‘ نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
یہ درحقیقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک قول کی شعری تعبیر ہے، انہیں خوارج سے واسطہ پڑا تھا، وہ بھی قرآن سے دلیل پکڑتے تھے۔ آپؓ نے فرمایاتھا: ''اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہ توکلمۂ حق ہے، لیکن اس سے مراد باطل لی جا رہی ہے‘‘۔
ہم نے کہا: جب تک ٹی ٹی پی والے پاکستان کے نظامِ آئین و قانون کو تسلیم نہیں کرتے، ان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی جواز نہیں بنتا، نیز انہیں اپنے آپ کو قانون کے حوالے بھی کرنا ہو گا۔ البتہ اِتمامِ حجت کے لیے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ کام ترجمانوں کے توسّط سے نہ ہو، بلکہ اصل پالیسی ساز قیادت کے ساتھ ہی سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات ہونے چاہئیں، دونوں ممالک کا مفاد پُرامن بقائے باہمی میں ہے، تصادم کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ نیز ہمیشہ سے افغانستان کی معیشت پاکستان سے جڑی رہی ہے اور اب بھی اس کاقابلِ عمل طریقۂ کار بنایا جا سکتا ہے۔ چیف صاحب کا یہ بھی کہنا تھا: ''افغان ٹریڈ کے نام سے جو کنٹینر آتے ہیں، وہ بھی چمن اور طورخم بارڈر سے گھوم پھر کر واپس پاکستان میں سمگل ہو کر آتے ہیں اور اس طرح پاکستان کسٹم ڈیوٹی سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔ ایک صاحب نے متوجہ کیا: جو تاجر کراچی میں باقاعدہ کسٹم ڈیوٹی ادا کر کے سامان چھالیہ وغیرہ درآمد کرتے ہیں، وہ چمن بارڈر سے آئے ہوئے سمگل شدہ مال کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور یہ سمگل شدہ سامان ٹنوں کے حساب سے کراچی کی افغان بستیوں میں ہر وقت دستیاب ہوتا ہے، یہ سلسلہ تب موقوف ہو گا جب افغانستان سے پاکستان میں سمگلنگ کی مکمل روک تھام کی جائے۔
نیز ہمیں یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسیاں کب بنتی ہیں، کون بناتا ہے اور ان میں فیصلہ کُن موڑ کب آتا ہے، اب اگر ہمارے ریاستی ادارے یکسو ہو چکے ہیں تو پھر پالیسی کا تسلسل ہونا چاہیے، یہ سوال بھی اہم ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا، آیا اس کا ازسرِ نو جائزہ لے کرماضی کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے گا یا ''مٹی پائو‘‘ والی صورت ہی اپنا ئی جائے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستان کے جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی بنائے جا رہے ہیں، ہمیں تو صرف یہ اندازہ تھا کہ نادرا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو غیر ملکیوں سے رشوت لے کر پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کرتے ہیں، لیکن معلوم ہوا کہ صورتِ حال اس سے بھی ابتر ہے۔ ہم نے یہ بھی کہا: ''آپ قانون کی عمل داری کے لیے عملیت پسندانہ سوچ کے حامل ہیں اور ہماری عدلیہ آج کل آئیڈیل ازم کو اپنائے ہوئے ہے، پس جب ریاستی ادارے یکسو نہیں ہوں گے تو مطلوبہ نتائج کیسے برآمد ہوں گے‘‘۔ ایک سب سے اہم مسئلہ جو چیف صاحب نے بیان کیا: وہ اخلاقی زوال کا ہے، سوشل میڈیا شترِ بے مہار ہے، پاکستان میں مصروفِ عمل سوشل میڈیا کی کچھ جڑیں ملک کی سرحدوں کے اندر ہیں اور زیادہ تر ملک سے باہر ہیں جو ہمارے طاقتور حلقوں کی پہنچ سے بھی باہر ہیں، اس مرض کا ادراک تو سب کو ہے، لیکن علاج ندارد۔ چیف صاحب نے یہ بھی کہا: ''ڈالر کی شرحِ تبادلہ کو بے قابو نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved