سردیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان کو گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ وسائل ہونے کے باوجود بروقت گیس کی خریداری نہیں کی جاتی جس کے باعث عوام کو گیس کی لوڈ شیڈنگ اور مہنگی گیس جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نے 4 دن کے نوٹس پر ٹینڈر جاری کیا ہے جس میں 24 نومبر تک ایک ایل این جی کارگو کیلئے تکنیکی اور مالیاتی پیشکشیں طلب کی گئی ہیں، جس کی ڈیلیوری کا ہدف 8‘ 9 جنوری مقرر کیا گیا ہے۔ تقریباً ایک سال کے وقفے کے بعد گزشتہ مہینے پاکستان کو موسم سرما کی بلند طلب کے لیے دو اضافی ایل این جی کارگو کے لیے تین بولیاں موجودہ سپاٹ قیمت کے برعکس نمایاں طور پر زیادہ پریمیم پر موصول ہوئیں۔ ایک ایل این جی تاجر نے 7‘ 8 دسمبر اور 13‘ 14 دسمبر کے لیے بالترتیب 18.39 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) اور 19.39 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے دو پیشکشیں کی ہیں۔ دوسرے بولی دہندہ نے 7‘ 8 دسمبر کے لیے 15.97 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی بولی دی ہے۔ پی ایل ایل نے 7‘ 8 دسمبر کے لیے دوسرے بولی دہندہ اور 13‘ 14 دسمبر کے لیے پہلے بولی دہندہ کی واحد بولی کو سب سے کم پیشکش قرار دیاہے۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے رواں ماہ کے لیے آر ایل این جی ٹرانسمیشن مرحلے کی قیمت سوئی ناردرن گیس کے لیے 11.86 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور سوئی سدرن گیس کے لیے 11.47 فی ایم ایم بی ٹی یو ڈالر مقرر کی ہے۔ یہ 9 کارگو کی اوسط ایل این جی قیمت 9.76 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی بنیاد پر مقرر کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سب سے کم قیمت 15.97 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی پیشکش بھی قطر کے دوسرے طویل المدت معاہدے سے دگنی اور 900 ملین کیوبک فٹ یومیہ گیس (ایم ایم سی ایف ڈی) فراہم کرنے والے 9 کارگو کی اوسط سے 60 فیصد زائد ہے۔ قطر 13.37 فیصد برینٹ (ستمبر میں 10.7 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو) کے حساب سے ہر ماہ تقریباً پانچ کارگو‘ اور 10.2 فیصد برینٹ (8.17 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو) کے حساب سے تقریباً پانچ گیس کارگو فراہم کرتا ہے، جبکہ ای این آئی برینٹ کے 12.14 فیصد (9.72 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو) پر ایک کارگو فراہم کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق دوسرے بولی دہندہ نے دو ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے زیادہ کے پریمیم یعنی بین الاقوامی مارکیٹ میں سپاٹ ریٹ سے تقریباً 13 فیصد زیادہ پر پیشکش کی ہے، جس کی ظاہری وجہ ملک کی کریڈٹ ریٹنگ اور خطرے کا عنصر ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں گندم، چاول، چینی، پٹرول اور ایل این جی کی خریداری پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے جو ملک کا فائدہ دیکھنے کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال لوٹ مار کی ایک جیسی کہانیاں سامنے آتی ہیں اور کوئی ایکشن لینے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔
آج کل پاکستان سمیت دنیا کے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں نوجوان غیر فعال (Passive) انکم کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے مستقبل کے لیے جو سائیڈ بزنس کرتے ہیں‘ اسے غیر فعال آمدن کہتے ہیں۔ پہلے یہ کام صرف امیر لوگ ہی کر سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس پیسہ ہوتا تھا جسے وہ رئیل اسٹیٹ میں لگا سکتے تھے اور اس سے کرایہ کما سکتے تھے یا پھر کسی دوسری جگہ خاموش سرمایہ کاری کر سکتے تھے۔ کورونا لاک ڈاؤن کے بعد غیر فعال آمدنی کی تعریف ہی بدل گئی ہے کیونکہ اب نوجوانوں‘ خاص طور پر زیڈ جنریشن (رواں صدی کی نسل) کہلانے والے نوجوانوں نے غیر فعال آمدنی کے نئے طریقے دریافت کر لیے ہیں۔ ملازمتوں کے چیلنج اور سوشل میڈیا کے اثرات کی وجہ سے غیر فعال آمدن میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ امریکہ میں تقریباً 20 فیصد گھرانے غیر فعال آمدنی حاصل کرتے ہیں اور ان کی اوسط آمدنی تقریباً 4200 ڈالر سالانہ ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل بڑھتی مہنگائی اور روز مرہ کے بڑھتے اخراجات کی وجہ سے بھی بہت سے نوجوان اب غیر فعال آمدن کی جانب راغب ہوتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ جہاں وہ مین سٹریم یا روایتی ملازمتوں میں زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں وہاں ان کی آمدنی بھی نسبتاً بہت کم ہوتی ہے۔ کچھ لوگ کھانے کا کاروبار کر رہے ہیں اور کچھ بلاگر بن گئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے حصص کی خرید و فروخت شروع کر دی ہے جبکہ کچھ ڈراپ شپنگ سٹورز چلا رہے ہیں۔ کورونا کے دوران آن لائن کلاسز کا رجحان بہت بڑھ گیا تھا۔ اس دوران بہت سے لوگ ایسے تھے جو کوئی اور کام کر رہے تھے لیکن پڑھانے کا شوق تھا‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اپنا شوق پورا کیا بلکہ آمدنی کا ایک اور ذریعہ بھی دریافت کر لیا۔ اس دور میں بہت سے لوگوں نے کتابیں لکھیں اور انہیں شائع کرکے پیسہ کمایا۔ آن لائن چینلز پر کوکنگ کلاسز کے ذریعے بہت سے لوگوں‘ خاص طور پر خواتین نے اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی کمایا۔ کورونا کے دوران لوگوں نے ڈراپ شپنگ کے ذریعے بھی بہت کمایا اور اب یہ کام بہت مقبول ہو گیا ہے۔
ڈراپ شپنگ ایک جدید آن لائن بزنس ماڈل ہے جس میں بہت کم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں آپ کو نہ تو بہت زیادہ سامان خرید کر گودام میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ پروڈکٹ بکے گی یا نہیں۔ اس میں آپ سپلائر سے سامان لیتے ہیں اور انہیں براہِ راست گاہکوں کو بیچ دیتے ہیں۔ آپ کو بس ایک آن لائن سٹور کھولنا ہے اور ان سپلائرز کے ساتھ معاہدہ کرنا ہے۔ جیسے ہی آپ کو کوئی آرڈر ملتا ہے‘ آپ وہ چیز سپلائر سے حاصل کرتے ہیں اور خریدار کو آن لائن بیچ دیتے ہیں۔ سٹاک اور حصص کی تجارت بھی ایک ایسا کاروبار ہے جس سے آپ گھر بیٹھے پیسے کما سکتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں آن لائن پورٹل، انسٹاگرام‘ فیس بک اور یوٹیوب کی مدد سے پیسہ کمایا جا رہا ہے۔ آپ جو کچھ بھی جانتے ہیں‘ وِڈیو یا کانٹینٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر اسے اَپ لوڈ کر کے پیسے کما سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وڈیو ویب سائٹ یوٹیوب بہت سے لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بن رہی ہے، لیکن بہت سے لوگ اب بھی اسے سائیڈ بزنس ہی سمجھتے ہیں۔ انسٹاگرام نے بھی نوجوانوں کو ایک آسان طریقہ فراہم کیا ہے، جس میں اگر آپ کا ہینڈل اچھا پیسہ کما رہا ہے تو آپ کسی مارکیٹنگ کمپنی سے رابطہ کر کے ٹری پروموشن بھی کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ طریقۂ کار کام کرتا ہے لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ خواب ہی رہ جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ چیزیں اتنی آسان نہیں ہیں جتنی کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز ظاہر کرتے ہیں۔ کسی بھی پروجیکٹ کو قائم کرنے میں سخت محنت اور وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لیے غیر فعال آمدن حاصل کرنا اتنا آسان نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے انفلوئنسرز غلط ارادوں کے سوشل میڈیا انکم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایسے کورسز بیچ کر پیسے کمائے جا سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود تو بہت پیسہ کماتے ہیں لیکن ان کورسز کو خریدنے والے کچھ نہیں کر پاتے۔ کچھ کامیاب مثالوں کو اسی انداز میں لیا جانا چاہیے، لیکن اس کے باوجود اس حوالے سے مواقع ضرور موجود ہیں۔ اگر زیادہ لوگ دیگر ذرائع سے آمدن حاصل کرتے ہیں تو نوجوانوں کے لیے پیسہ کمانے کے ذرائع میں تبدیلی آسکتی ہے۔ ڈیجیٹل کاروبار کے حوالے سے اب سوچ بدل رہی ہے۔ دیگر ذرائع آمدن کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے اور اب یہ صرف امیروں کے لیے نہیں۔ بہت سے لوگ اس کی وکالت بھی کر رہے ہیں لیکن لوگ دیگر ذرائع آمدن کو پیسہ کمانے کے لیے اپنی آمدنی کا اہم اور بنیادی ذریعہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں‘ یہ روش درست نہیں ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو اپنے دفتری کاموں کو نظر انداز کر کے دیگر ذرائع آمدن پر توجہ مرکوز کرتے دیکھا ہے‘ یہ غلط روش ہے۔ یہ آپ کی آمدن کے دونوں ذرائع کو متاثر کر سکتا ہے۔ دیگر ذرائع آمدنی حاصل کرنا ان دنوں ہر کسی کی خواہش ہے لیکن اگر آپ اس میں بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں اور اپنے اور اپنے خاندان کے لیے وقت نہیں نکال پا رہے تو اس پر ایک بار پھر غور کرنا چاہیے۔ پیسہ کمانا مقصد ضرور ہونا چاہیے لیکن یہ زندگی کا حتمی مقصد نہیں ہونا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved