ہر پسماندہ معاشرے میں ایک رجحان تو ہر دور میں رہا ہے۔ وطن سے جان چھڑاکر کہیں اور آباد ہونے اور زیادہ انفرادی یا شخصی خوش حالی یقینی بنانے کا رجحان۔ یہ فطری رجحان ہے یعنی اِسے پنپنا ہی ہوتا ہے اور اِس کی طرف لوگوں کو متوجہ ہونا ہی ہوتا ہے۔ ہر پسماندہ معاشرے کے بیشتر افراد زندگی سے نالاں اور شکوہ کُناں رہتے ہیں۔ مادّی آسودگی کا فقدان انسان کو اپنے ماحول سے بیزار کرتا رہتا ہے۔ بنیادی آسائشوں سے محروم ہر انسان اپنے ماحول سے فرار چاہتا ہے۔ جو کچھ اُسے درکار ہوتا ہے وہ چونکہ ترقی یافتہ یا مال دار معاشروں میں پایا جاتا ہے اِس لیے اُن معاشروں میں دلچسپی لینا اور وہاں آباد ہونے کے بارے میں سوچتے رہنا بھی فطری امر ہے۔ ایک زمانے سے ہمارے ذہنوں میں یہ بات ٹُھنسی ہوئی ہے کہ وطن میں کسی کو عزت نہیں ملتی اور یہ کہ جب کوئی ملک سے نکلتا ہے، کہیں اور کام کرتا ہے، وہاں آباد ہوتا ہے تب اُس کے لیے توقیر کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ کسی نے کہا ہے ؎
سَر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اُسے ملی جو وطن سے نکل گیا
کیا واقعی ایسا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہے۔ پھول جب تک چمن میں ہوتا ہے تب تک اُس کی کچھ خاص توقیر نہیں ہوتی۔ جب وہ چمن سے نکلتا ہے تو کسی کے سَر بھی چڑھتا ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے جسے ہم نے انسانوں پر بھی منطبق کرلیا ہے۔ اگر اپنے معاشرے یا ملک میں بہتر مواقع میسر نہ ہوں تو کہیں اور جاکر قسمت آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ تو فطری معاملہ ہے۔ انسان وہیں کام کرتا ہوا اچھا لگتا ہے جہاں اُسے صلاحیت و سکت بروئے کار لانے کے مواقع زیادہ اور آسانی سے میسر ہوں۔ ہر دور کے انسان میں یہ رجحان رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ رجحان منفی ہے نہ قابلِ مذمّت۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ جو بھی لیاقت قدرت نے بخشی ہے اُسے پروان چڑھائے، بروئے کار لائے، بہتر زندگی یقینی بنانے کے لیے اُس سے استفادہ کرے۔ اپنی اصل میں یہ خواہش قابلِ قدر ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ چند امور کا خیال رکھنا بھی لازم ہے۔ اگر اپنے ماحول میں انسان کو بہتر مواقع میسر نہ ہوں تو اُس سے نکل جانے ہی میں بہتری ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے ماحول کو گھٹیا سمجھنا شروع کردے، اُس سے نفرت کرے اور بات بات پر ناشکرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو کمتر گردانے۔
ایک زمانے سے ہمارے ہاں بیرونِ ملک جاکر قسمت آزمائی کا رجحان پایا جاتا ہے اور اب یہ رجحان انتہائی قوی ہوچکا ہے۔ 90 فیصد سے زائد باصلاحیت افراد بیرونِ ملک کام کرنے اور وہیں آباد ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وطن میں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی تعداد اچھی خاصی ہے مگر مواقع کم ہیں۔ جو چند اچھے مواقع میسر ہیں اُن پر بھی غیر متعلق افراد متصرف ہیں۔ ہمارے ہاں صلاحیت اور سکت کی بنیاد پر کام دینے یا کام پر رکھنے کا رجحان اب تک پروان نہیں چڑھا۔ چھوٹے بڑے تمام طرح کے کاروباری اداروں میں کمتر صلاحیت و قابلیت کے حامل افراد بڑی تعداد میں دکھائی دے رہے ہیں۔ بہت سے انتہائی قابل افراد محض اس لیے فارغ دکھائی دیتے ہیں کہ اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی اُن کی بات آگے بڑھانے والا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خالص صلاحیت یا قابلیت کی بنیاد پر بہتر معاشی مواقع فراہم کرنے کا رجحان ہمارے ہاں اب تک پروان نہیں چڑھا۔ بیرونِ ملک جاکر کام کرنے اور وہاں آباد ہونے کا رجحان دنیا بھر کے پسماندہ معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ اور لاطینی امریکہ کے خطوں میں بھی یہ رجحان خاصا طاقتور اور نمایاں ہے۔ ہمارے ہاں سے لاکھوں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد مشرقِ وسطیٰ، یورپ، امریکہ اور دیگر خطوں میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ لاکھوں پاکستانیوں نے ترقی یافتہ معاشروں میں مستقل رہائش اختیار کرلی ہے۔ اُنہیں وہاں کی شہریت بھی مل چکی ہے۔ یہ لوگ وطن کی شاندار خدمت انجام دے رہے ہیں کیونکہ اِن کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم سے قومی خزانے کو تقویت ملتی ہے۔ ترسیلاتِ زر کی مدد سے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ متعلقین کے لیے بھی بلند تر معیارِ زندگی ممکن ہو پاتا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم خوش حال پاکستانیوں کو دیکھ کر ہماری نئی نسل کو بھی بیرونِ ملک آباد ہونے کا خیال آتا ہے اور وہ اس حوالے سے تیاری بھی کرتی ہے۔ ایسی سوچ کسی بھی درجے میں بُری نہیں۔ جن باصلاحیت نوجوانوں کو اندرونِ ملک بہتر مواقع نہیں مل پاتے اُنہیں بیرونِ ملک جاکر طبع آزمائی کرنی ہی چاہیے۔ کئی ممالک بیرونی افرادی قوت کی مدد ہی سے چل رہے ہیں۔ ایسے ممالک میں ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کی طلب بھی خاص نمایاں ہے۔
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے مگر مشکل یہ ہے کہ بیرونِ ملک کام کرنے اور وہاں آباد ہونے کا جنون جب سَر چڑھ جاتا ہے تب معاشرے میں خرابیاں بڑھتی ہیں۔ ہمارے ہاں کئی خطے ایسے ہیں جہاں سے لوگ بڑی تعداد میں بیرونِ ملک گئے اور وہاں مقیم ہو گئے۔ اِن خطوں کے لوگوں کی اکثریت آج بھی بیرونِ ملک آباد ہونے کے خواب دیکھتی رہتی ہے اور اس خواب کے ہاتھوں بے عملی کا شکار ہوکر کچھ خاص نہیں کر پاتی۔ نئی نسل جب دیکھتی ہے کہ اپنے ملک میں زیادہ مواقع نہیں اور بیرونِ ملک آباد ہونے والوں کو سَر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے تو وہ محض بیرونِ ملک آباد ہونے کا خواب نہیں دیکھتے بلکہ اپنے معاشرے یا ماحول سے نفرت بھی کرنے لگتے ہیں۔ اگر ملک میں زیادہ مواقع نہیں ہیں تو کروڑوں افراد کے لیے نہیں ہیں مگر مواقع سے محروم ہر فرد یہ سمجھتا ہے کہ باقی معاشرہ تو مزے کر رہا ہے، مشکلات ہیں تو بس اُسی کیلئے ہیں۔ اس مغالطے کو ذہن سے جھٹکنے کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جس کی زندگی میں چند ایک مسائل نہ ہوں۔ اگر کسی کے حصے میں زیادہ مسائل آئے ہیں تو اِس کا بھی کوئی نہ کوئی سبب ہو گا۔ جو لوگ واضح منصوبہ سازی کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں اُن کی زندگی الجھی ہوئی ہوتی ہے۔ نظم و ضبط کا فقدان کسی بھی انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں چھوڑتا۔
آج ہمارے ہاں لاکھوں باصلاحیت نوجوان جب یہ دیکھتے ہیں کہ بیرونِ ملک آباد پاکستانیوں کا اہلِ وطن غیر معمولی احترام کرتے ہیں تو اُن میں احساسِ محرومی اور احساسِ کمتری تیزی سے پروان چڑھتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے ماحول سے تنفّر سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی تنفّر بڑھتے بڑھتے مکمل نفرت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ نفرت کسی بھی حال میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ اِس سے نئی نسل کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچتا ہے، اُن کے مزاج میں کجی واقع ہوتی ہے اور وہ ملک و قوم کے لیے وہ سب کچھ نہیں کر پاتی جو وہ کر سکتی ہے۔ ہر طرح کے میڈیا کے ذریعے نئی نسل کو خصوصی طور پر یہ سبق دینے کی ضرورت ہے کہ بیرونِ ملک قسمت آزمانے کی خواہش کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ انسان اپنے وطن میں، اپنے ماحول میں صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لائے تاکہ وطن اور اہلِ وطن کی تھوڑی بہت خدمت تو ممکن ہو۔ اور اس میں اپنا بھلا بھی تو ہے۔ یہ سوچنا بالکل بے بنیاد اور سراسر غلط ہے کہ احترام صرف اُن کے لیے ہے جو ملک سے باہر جاکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ وطن کی حدود میں بھی اچھی خدمات کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہاں‘ یہ معاملہ زیادہ وسعت نہیں رکھتا۔ اس حوالے سے سوچنے اور تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اہل افراد کی ملک کو بھی ضرورت رہتی ہے۔ اگر اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل تمام افراد وطن چھوڑ کر چلے جائیں گے تو وطن کو پروان چڑھانے کا فریضہ کون انجام دے گا؟
ہماری نئی نسل کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُس میں وطن سے محبت بھی پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اُسے سبز باغ دکھانے والوں سے بچانا بھی لازم ہے۔ مواقع دنیا بھر میں ہیں مگر سب کے لیے نہیں۔ اِس کے لیے تیاری بھی چاہیے اور مالی سکت بھی۔ یہ مالی سکت اہلِ وطن کے درمیان ڈھنگ سے کام کرنے کی صورت ہی میں پنپ سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved