ہمارے قصبے کا ہونہار لیکن غریب خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان کافی عرصے سے ملازمت کی تلاش میں تھا۔ ایک دن کسی دوست نے اسے بتایا کہ اخبار میں تمہاری تعلیمی قابلیت سے متعلق فلاں محکمے میں ملازمت کا ایک اشتہار دیکھا ہے‘ وہاں درخواست دے کر دیکھ لو شاید کچھ بات بن جائے۔ حسبِ معمول ایک مرتبہ پھر اس نے ملازمت کے لیے اپلائی کر دیا۔ اس نوکری کے لیے ٹیسٹ ہوئے توا س کا ایک کالج کا دوست بھی اس ٹیسٹ میں موجود تھا۔ اس نے جب یہ ٹیسٹ کلیئر کر لیا تو انٹرویو کا مرحلہ آ گیا۔ اب اس نے اپنے دوست سے رابطہ کیا۔ وہ بھی ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا۔ جب دوست سے بات چیت ہوئی تو اس کے دوست نے بتایا کہ انٹرویو تو برائے نام ہی ہو گا کیونکہ اس سیٹ کے لیے پہلے ہی ہائرنگ ہو چکی ہے۔ کریدنے پر اس نے بتایا کہ اس کے ایک انکل ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہیں‘ انہوں نے اس محکمے کے چیئرمین صاحب سے پہلے ہی بات کر لی ہوئی ہے بلکہ یہ ملازمت کا اشتہار وغیرہ اس کی ملازمت کا پکا بندوبست کرنے کے لیے ہے لہٰذا انٹرویو میں اسے ہی فائنل کیا جائے گا۔اس کی حیرانی پر وہ دوست بولا: میری بات ہو چکی ہے‘ یہ ملازمت میری مٹھی میں سمجھیں۔ وہ نوجوان ان باتوں کو ایک مذاق سمجھتا رہا مگر اس وقت حیرانی کی انتہا نہ رہی جب اس ملازمت کے لیے واقعی اس دوست کا نام فائنل کیا گیا۔ وہ سب لوگ جن کے ٹیسٹ اور انٹرویوز اچھے ہوئے تھے‘ وہ دیکھتے ہی رہ گئے اور جس کی بات ہو چکی تھی‘ وہ سب کو انگوٹھا دکھاتا ہوا ملازمت کے مزے لینے لگا۔
محلے میں میچ کھیلتے ہوئے دو لڑکوں کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ بات بڑھی تو دونوں ٹیمیں آمنے سامنے آ گئیں۔ معاملہ تلخ کلامی سے ہاتھا پائی اور پھر ہاکیوں اور بلوں سے ایک دوسرے کو پیٹنے تک پہنچ گیا۔ ایک ٹیم کے دو لڑکے اس لڑائی میں شدید زخمی ہوئے۔ شور شرابا ور چیخ و پکار سن کر ایک ہجوم اکٹھا ہوچکا تھا جس نے بیچ بچائو کرایا اور پھر کچھ لوگ زخمی لڑکوں کو لے کر ہسپتال پہنچ گئے۔ کسی شخص نے اس دوران پولیس کو کال کر دی۔ تھوڑی دیر بعد پولیس آ گئی۔ زخمیوں کا معائنہ کرانے کے بعد میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر بات ایف آئی آر کے اندراج کے لیے تھانے تک پہنچ گئی۔ جیسے ہی یہ خبر دوسری ٹیم سے تعلق رکھنے والے افراد تک پہنچی تو ان سب میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اب ڈر یہ تھا کہ ابھی پولیس آ کر ان لڑکوں کو گرفتار کر لے گی جنہوں نے اس مار کٹائی میں حصہ لیا تھا لہٰذا پولیس کے آنے سے قبل ہی گھر والوں نے ان لڑکوں کو اپنے کسی دور کے رشتہ داروں کے گھر پہنچا دیا جبکہ مضروب اور زخمی لڑکوں کے لواحقین سب کو فخر سے بتانے لگے کہ ابھی پولیس آ کر ان سب کو گرفتار کر لے گی‘ پھر انہیں اب پتا چلے گا کہ ہاکیاں اور بلے کیسے چلاتے ہیں۔ کوئی ایک گھنٹے بعد کچھ ملزمان کے والدین آئے اور آتے ہی اہلِ محلہ سے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اور سب لڑکوں کو واپس بلا لو، کچھ بھی نہیں ہو گا، ان کی بات ہو گئی ہے۔
بارش میں اس سڑک سے گزرنے والوں کا جو حشر ہوتا تھا وہ اپنی جگہ لیکن بارش نہ ہونے پر بھی محلے کا سارا پانی اور ابلتے گٹروں کا گند کئی کئی دن تک یہاں کھڑا رہتا تھا اور یہاں کے مستقل باسیوں کے لیے ایک مصیبت بن چکا تھا۔ گٹروں کا یہ پانی گھروں کے اندر تک گھس جاتا جس سے لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی تھیں اور گھریلو سامان تباہ ہو رہا تھا۔ منتخب اراکین اسمبلی اور حکومتی محکموں میں متعدد درخواستیں دینے کے بعد احتجاج کا راستہ اپنایا گیا اور مین روڈ بلاک کر دی گئی۔ آخرکار یہ احتجاج رنگ لایا اور اہلِ علاقہ کو ایک دن خوشخبری مل گئی کہ حکومت نے ان کی یہ ایک کلومیٹر کی سڑک تعمیر کرنے کی منظوری دے دی ہے اور اس کے لیے ڈھائی کروڑ روپے کا فنڈ بھی منظور کر لیا گیا ہے۔ چند ہفتوں بعد خدا خدا کر کے سڑک کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہمارے معاشرے کی رسم کے مطابق‘ لوکل کونسلر سے لے کر ایم این اے تک اور مقامی سماجی و سیاسی کارکنان سے اعلیٰ افسران تک‘ ہر کوئی اس سڑک کی تعمیر کا سہر ا اپنے سر باندھنے لگا۔ سڑک کی تعمیر شروع ہوئی تو کچھ پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں نے اس سڑک کی تعمیر میں استعمال ہونے والا میٹریل دیکھا جو انتہائی ناقص تھا۔ اس پر انہوں نے پہلے تو ٹھیکیدار کے منشی کو اس کی نشاندہی کی اور اسے صحیح اور پائیدار میٹریل استعمال کرنے کا کہا لیکن جب اس نے ایک نہ سنی تو ایک دن کچھ لوگ اکٹھے ہو کر ٹھیکیدار کے پاس جا پہنچے اور اسے وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر سڑک کی تعمیر اسی ناقص میٹریل سے کی گئی تو وہ اس سڑک اور میٹریل کی وڈیو بنا کر میڈیا اور متعلقہ محکمے کو بھیجیں گے۔ اس بات کو دو‘ چار دن مزید گزر گئے لیکن منشی نے وہی میٹریل استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جس پر علاقے کے لوگوں نے مختلف محکموں میں درخواستیں دیں تو محکمے نے کارروائی کا آغاز کر دیا۔ اب مشہور ہو گیا کہ یہ سڑک اکھاڑ کر صحیح میٹریل سے دوبارہ بنائی جائے گی۔ اگلے دن سڑک کا میٹریل چیک کرنے کیلئے کچھ سرکاری اہلکار وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے سڑک کے کچھ حصوں کو اکھاڑ کر استعمال کیاگیا میٹریل ایک تھیلے میں بھرا اور چلے گئے۔ سرکاری محکموں میں جوتیاں چٹخانے اور جگہ جگہ درخواستیں دینے والے افراد یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوئے لیکن ان سب کی یہ خوشیاں اس وقت دھری کی دھری رہ گئیں جب تیسرے ہی دن منشی لیبر اور مشینوں کے ساتھ سڑک کا باقی ماندہ حصہ مکمل کر نے کیلئے پہنچ گیا۔ منشی سے جب اہلِ علاقہ نے دریافت کیا اس نے بتایا کہ ٹھیکیدار مالک نے یہ کہہ کر سائٹ پر جانے کا کہا ہے کہ کسی کی پروا مت کرو کیونکہ میری بات ہو گئی ہے۔ جا کر جلد سے جلد کام مکمل کرو۔ اب جب بات ہو گئی ہے تو پھر ڈر کس بات کا‘ اب جو مرضی میٹریل استعمال کرو‘ کوئی پروا نہیں۔
اُس گھرانے میں دولت کی خوب فراوانی تھی۔ حتیٰ کہ کالج میں پڑھنے والے بیٹے کی جیب میں بھی ہر وقت دسیوں ہزار روپے رہنا معمول کی بات تھی۔ اتنا لاڈ پیار بچوں کو بگاڑ دیتا ہے اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ بچے کا دھیان پڑھائی کی جانب کم اور دوسری مصروفیات کی طرف زیادہ ہو گیا۔ اس کے دوستوں کی ایک لمبی فہرست تھی‘ جن میں زیادہ تر اس جیسے مالدار گھرانوں ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ ایف ایس اسی کے امتحان سر پر آ گئے لیکن اس کی تیاری برائے نام تھی۔ جیسے ہی ڈیٹ شیٹ سامنے آئی تو سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے۔ اپنی ماں سے بات کی کہ اس کی تو کوئی خاص تیاری نہیں‘ اگر فیل ہو گیا تو ڈیڈ سخت ناراض ہوں گے۔ ماں نے پہلے تو سخت لہجے میں اسے ڈانٹا‘ دوستوں سے دور رہنے‘ فوری طور پر امتحانات کی تیاری شروع کرنے کی تاکید کی۔ پھر جب شام کو بچے کے والد گھر آئے تو کھانا وغیرہ دینے کے بعد بیگم صاحبہ نے ان کے سامنے اپنے بیٹے کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ وہ پڑھائی میں توجہ نہیں دیتا اور پھر وہ اپنے شوہر سے شکوہ کرنے لگیں کہ میں تو گھر اور خاندان کے کاموں میں اس قدر مصروف رہتی ہوں‘ مجھے کیا پتا کہ بیٹا تعلیم کی جانب دھیان نہیں دیتا‘ آپ تو والد ہیں‘ آپ کا تو فرض تھا کہ اس پر توجہ دیتے‘ اس کو پوچھتے‘ اس کے پاس بیٹھتے لیکن آپ کو تو اپنے دوستوں، آفس میٹنگز اور بزنس کے علاوہ کسی شے کا ہوش ہی نہیں۔ اب دیکھئے نا! اگر ہمارا بیٹا پاس نہ ہوا تو خاندان میں تو ہماری ناک کٹ جائے گی۔ یہ دیکھئے اس کی ڈیٹ شیٹ بھی جاری ہو گئی ہے‘ اب سستی نہ کیجئے اور میٹرک کی طرح کا اب بھی کوئی جگاڑ لگاکر بچے کو اچھے نمبروں سے پاس کرائیں تاکہ اس نالائق کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل سکے۔ اتنی لمبی تقریر سننے کے بعد پہلے تو میاں بیوی میں کچھ تکرار ہوئی اور ایک دوسرے پر بچے پر توجہ نہ دینے کا الزام لگایا جاتا رہا۔ پھر شوہر سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ خاندان اور دوستوں میں اپنی ناک کٹنے سے کیسے بچائی جائے۔ دو‘ تین دن بعد شوہر کا اپنی بیگم کو فون آیا کہ گھبرائو مت! بچے کے امتحانات سے متعلق بات ہو گئی ہے۔ شام کو گھر آنے کے بعد دونوں میاں بیوی نے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ اس دفعہ تو بات ہو گئی ہے لیکن میڈیکل کالج میں ڈاکٹر بننے کیلئے خوب پڑھنا پڑے گا کیونکہ وہاں وہی کامیاب ہوتا ہے جو توجہ سے اور دل لگاکر پڑھتا ہے اور سنا ہے کہ وہاں کوئی سفارش‘ کوئی بات وغیرہ نہیں چلتی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved