کم از کم ایک معاملہ تو انسان کے اختیار میں ہے ‘ وہ یہ کہ وہ جس طور چاہے جی سکتا ہے۔ زندگی بسر کرنے کے معاملے میں انسان اپنی مرضی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے‘ اور ہوتا ہی ہے۔ اپنی مرضی کی راہ منتخب کرکے اُس پر گامزن ہونے میں بظاہر کوئی قباحت نہیں۔ ہر انسان اپنے مزاج، قابلیت، سکت اور مخصوص حالات کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے۔ ایسا کرنا اُس کا حق ہے اور اِس کے سوا اُس کے پاس چارہ بھی نہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی میں کوئی غم، کوئی پریشانی نہ ہو مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ معاشرے سے جُڑے ہوئے ہر شخص کو دوسروں کا کیا ہوا بہت کچھ بھگتنا پڑتا ہے۔ لازم نہیں کہ آپ کسی سے ٹکراکر زخمی ہوں۔ کوئی آکر آپ سے بھی تو ٹکرا سکتا اور آپ کو زخمی کرسکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اِس میں اُس کا کوئی قصور نہ ہو۔ اور یہ بھی کہاں لازم ہے کہ آپ کسی ٹکرائیں تو آپ ہی قصور وار ہوں؟ بہر کیف‘ ہر طرح کے دُکھوں اور الجھنوں سے پاک زندگی ہر انسان کا خواب ہوا کرتی ہے۔ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا زندگی بھر کی کاوش کا نام ہے۔ ہمیں بہت کچھ کسی خاص کاوش کے بغیر مل جاتا ہے اور دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے جو بہت کاوش کرنے پر بھی نہیں مل پاتا۔ اِسی کا نام زندگی ہے۔
ذہن کو متحرک کیے بغیر جینا؟ یہ تو شدید نوعیت کی بے ذہنی کے نتائج کے ساتھ جینا ہوا۔ لوگ ایسا ہی تو کرتے ہیں۔ عمومی سطح پر بیشتر کا یہ حال ہے کہ جیے جاتے ہیں اور ذہن کو بروئے کار نہیں لاتے۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے یہ بات کسی سے پوچھئے تو وہ تسلیم ہی نہیں کرتا کہ اُس سے کوئی غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ سب کچھ درست ہے، کہیں کوئی ایسی بات نہیں جس پر پریشان ہوا جائے۔ ہم میں سے بیشتر کو اس بات کا خیال نہیں آتا کہ اگر سب کچھ درست ہے تو پھر خرابیاں کیوں ہیں۔ اگر تمام کاوشیں بھرپور ہیں تو نتائج بھرپور اور قابلِ قبول کیوں نہیں؟ عام آدمی سے پوچھئے کہ آپ کی زندگی میں جو الجھنیں ہیں وہ کیوں ہیں تو اُس کا سیدھا سا جواب یہ ہوتا ہے کہ اُس کی طرف سے تو کسی معاملے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی مگر ماحول ہی اُسے ناکام بنانے پر تُلا رہتا ہے۔ وہ اپنی کسی بھی خامی، کمی یا کوتاہی کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کیے بغیر صرف ماحول کو موردِ الزام ٹھہراکر سکون کا سانس لیتا ہے۔ کیا محض اِتنا کرنے سے انسان بخوشی جی سکتا ہے؟ عمومی سطح پر تو ہم یہی دیکھتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں۔
ڈھنگ سے جینے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ذہن کو بروئے کار لانا لازم ہے۔ سوچے بغیر راہ سُوجھتی نہیں۔ کبھی کبھی معاملات اِتنے سیدھے اور سادہ ہوتے ہیں کہ ذہن کو زیادہ متحرک کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایسا تو کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ ہم اِسے اصول کا درجہ نہیں دے سکتے۔ بیشتر معاملات میں انسان کو سوچنا پڑتا ہے اور منصوبہ سازی کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ جس طور کھیلوں کے کسی مقابلے کے لیے منصوبہ تیار کیا جاتا ہے بالکل اُسی طور پوری زندگی کے لیے بھی منصوبہ سازی کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں زندگی بھر مختلف النوع حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی بہت کچھ ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب کچھ ہمارے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ انسان کو ہر طرح کے معاملات کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر اچانک ابھر کر سامنے آنے والی صورتِ حالات کا سامنا کرنے کے لیے انسان کس نوعیت کی تیاری کرے۔ کسی بھی ماحول میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہوتا ہی ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ تیاری کرے یعنی پہلے سے تیار رہے۔ کیا تمام معاملات میں مطلوب نتائج یقینی بنانے کے لیے پہلے سے تیار رہا جاسکتا ہے؟ ایسا بظاہر ممکن نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ انسان ایک خاص حد تک ہی پہلے سے تیار ہوسکتا ہے۔ ہاں‘ فہم و ادراک کا تقاضا ہے کہ انسان اچانک ابھرنے والے کسی بھی معاملے کے لیے اِتنی تیاری تو ضرور کرے کہ وقت پڑنے پر محض بدحواس ہونے کا آپشن نہ بچے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کسی بھی ایسی ویسی بات کے لیے تیاری کس طرح کرے۔ اِس کی معقول ترین صورت یہ ہے کہ انسان کو ایسی کیفیت میں جینا چاہیے کہ تیاری کرنی ہی نہ پڑے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان پورے شعور کے ساتھ نظم و ضبط کے تحت زندگی بسر کرنے کو اپنا بنیادی شعار بنائے۔
عام آدمی کے نزدیک نظم و ضبط کے تحت بسر کی جانے والی زندگی خاصی خشک اور ''بے رَس‘‘ ہوتی ہے۔ اُس میں وہ رنگینی دکھائی نہیں دیتی جو پورے ماحول میں نظر آتی ہے۔ یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ ہر اعتبار سے بے لگام زندگی ہمیں بہت پُرکشش دکھائی دیتی ہے کیونکہ اُس میں کہیں بھی کچھ بھی غلط دکھائی نہیں دے رہا ہوتا اور لوگ بہت مسرور نظر آتے ہیں۔ بے لگام زندگی میں کسی کو بھی جبر کا سامنا نہیں ہوتا اِس لیے اُس میں خاصی کشش محسوس ہوتی ہے۔ اِس کے برعکس نظم و ضبط سے مزین زندگی زنجیروں میں جکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ نظم و ضبط کا مطلب ہے معاملات میں تنظیم اور بہت کچھ ضبط کرنا۔ اِس کے لیے تحمل بنیادی شرط ہے۔ ہر انسان اپنے بیشتر معاملات میں آزادی اور خود مختاری چاہتا ہے۔ نظم و ضبط کے ساتھ زندگی بسر کرنے میں ہر معاملہ اپنی مٹھی میں نہیں رہتا کیونکہ دوسروں کی سہولت کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں کسی معاملے میں پریشان نہ کریں، سہولت دیں اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ ظاہر ہے کہ دوسرے بھی ہم سے یہی توقع رکھتے ہوں گے۔
نظم و ضبط کا بنیادی مطلب ہے اپنی حدود کا تعین۔ ایسا کیے بغیر ہم دوسروں کے معاملات میں مُخِل ہوسکتے ہیں اور شاید یہ عمل لاشعوری سطح پر ہو۔ کسی کو بھی یہ پسند نہیں ہوتا کہ اُس کے معاملات میں بے جا مداخلت کی جائے۔ آپ بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کے لیے الجھن کا باعث نہ بنے۔ نظم و ضبط کے ساتھ بسر کی جانے والی زندگی چونکہ چند مخصوص حدود کی پابند ہوتی ہے اس لیے عام آدمی، جسے نظم و ضبط کے بنیادی تصور کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہ ہو، اِسے اپنی آزادی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ خیال کرتا ہے۔ وہ قدم قدم پر یہ محسوس کرتا ہے کہ اُسے روکا جارہا ہے۔ جن کے ذہن میں نظم و ضبط کا تصور پختہ نہ ہو وہ ایسا ہی محسوس کیا کرتے ہیں۔ بنیادی مسئلہ نظم و ضبط نہیں بلکہ اُس کے لیے تیاری ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نظم و ضبط کے ساتھ بسر کی جانے والی زندگی کچھ خاص نہیں دے پاتی وہ فوجیوں ہی کو دیکھ لیں۔ فوجیوں کی زندگی میں نظم و ضبط ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ملنا ملانا، بات کرنا، معاملات طے کرنا‘ غرض سبھی کچھ چند متعین حدود کے تحت ہوتا ہے۔ عام افراد ہی میں سے چند کو منتخب کرکے تربیت کے ذریعے فوجی بنایا جاتا ہے۔ یہ تربیت صرف اور صرف نظم و ضبط کے حوالے سے ہوتی ہے۔ پھر یہ طرزِ فکر و عمل زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ عام گھرانے کا فرد فوجی ہو تو باقی گھرانے یا پورے خاندان سے بالکل الگ دکھائی دیتا ہے۔ نظم و ضبط کے تحت جینے والے کسی بھی معاملے میں منطقی حدود سے تجاوز نہیں کرتے۔ وہ بیشتر معاملات میں تعقل کو اہمیت دیتے ہیں۔ محض جذباتیت کی رَو میں بہہ کر وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس سے بعد میں پچھتاوا ہو۔ ہاں‘ اگر حالات ہی خلاف جائیں تو اور بات ہے۔
نظم و ضبط کے ساتھ جینے والے ہر معاملے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ نہیں‘ ایسا نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا۔ انسان اپنی سی کوشش کرسکتا ہے مگر جب حالات کچھ اور ہو جائیں تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ اگر پوری دیانت اور لگن سے کی جانے والی محنت رائیگاں جائے تو دُکھ ضرور ہوتا ہے مگر دل کو اس بات کا اطمینان بھی رہتا ہے کہ ناکامی میں قصور اپنا نہیں تھا۔ منظم زندگی بسر کرنے والے بھی اِسی نوعیت کے اطمینان سے ہم کنار رہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved