لگتا ہے کہ ہم لوگوں کو ابھی تک یہ احساس نہیں ہو سکا کہ اس ملک میں زیرِ زمین قدرتی وسائل ایک خاص مقدار میں ہی میسر ہیں‘ یہ بھی وقت اور استعمال کے ساتھ ساتھ کم پڑ سکتے ہیں اور ہم ہی کیا‘ کسی ملک کے پاس بھی لامحدود وسائل نہیں ہیں کہ جیسے چاہیں استعمال یا ضائع کرتے رہیں اور یہ کبھی ختم ہونے میں نہ آئیں۔ ان قیمتی وسائل میں پانی اہم ترین ہے جس کے بغیر کسی جاندار‘ نباتات اور حیوانات کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ پانی صرف پینے اور نہانے دھونے کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ جو خوراک ہم کھاتے ہیں‘ اس کی پیداوار بھی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ زمین کے نیچے پانی کی سطح کتنی کم ہو رہی ہے یہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کا اہم ترین ایشو ہونا چاہیے لیکن اس پر شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے اور وہ بھی تب جب کبھی اس ایشو پر کوئی شور مچ جائے یا پھر جب سال کے سال پانی کی اہمیت کے پیش نظر اس کا عالمی دن منایا جائے۔ میڈیا بھی اس پر تب ہی نظر دوڑائے گا جب معاملہ بالکل ہاتھ سے نکل جائے گا اور سب بوند بوند پانی کے محتاج ہو جائیں گے۔ عالمی جرائد اور اخبارات میں مگر ایسے مسائل کو برابر یا نسبتاً زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں اس مسئلے کو لے کر کتنی سنجیدہ ہیں‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
پانی کی عیاشی جتنی پاکستان میں ہو رہی ہے‘ دنیا کے شاید ہی کسی اور ملک میں ایسے ہو رہا ہو۔ کہنے کو ہم قرضوں تلے ڈوبے ہوئے ہیں‘ معیشت ہماری سسک رہی ہے‘ ہر دوسرے مہینے ڈیفالٹ کی خبریں چلنے لگتی ہیں‘ ایکسپورٹس ہماری بڑھنے کا نام نہیں لے رہیں لیکن پانی ہم بادشاہوں کی طرح استعمال کرتے ہیں، اور کیوں نہ کریں کہ پانی کا بل کون سا میٹر ریڈنگ کے مطابق آتا ہے۔ ملک کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں پانی کا بل استعمال کے مطابق آ رہا ہو۔ ایسے ملک میں جہاں بجلی کنڈے لگا کر چوری کی جا رہی ہو‘ وہاں پانی کا بل کون دیتا ہے۔ اگر بل آتا بھی ہے تو ماہانہ چند سو روپے مقرر ہوتے ہیں جن کے بدلے لامحدود پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسا ہم گیس یا بجلی کے معاملے میں کریں تو ہمارا بل لاکھوں میں آئے لیکن ہم بل چند سینکڑے یا ہزار‘ دو ہزار روپے ادا کر کے خود کو زمین کے نیچے موجود پانی کے خزانے کا مالک سمجھ بیٹھتے ہیں۔
آج سے قریب تیس برس قبل جب پہلی مرتبہ لندن جانا ہوا تو حیرت انگیز معلومات حاصل ہوئیں۔ اس وقت انٹرنیٹ تو ہوتا نہیں تھا اس لیے ایسی معلومات یا تو اخبارات سے ملتی تھیں یا پھر خود ایسی چیزوں کا مشاہدہ کیا جاتا تھا۔ وہاں جا کر معلوم یہ ہوا کہ لندن میں پانی کی خوب قدر کی جاتی ہے اور اس کا استعمال خوب سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ شہر میں زیرِ زمین کئی ایسے فلٹریشن پلانٹس یا سسٹم بنائے گئے ہیں جن کے ذریعے استعمال شدہ پانی دوبارہ قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے اور اسے ہی استعمال میں لایا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ پینے اور کھانے کے لیے بھی یہی پانی استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر نلکوں سے بعض اوقات اتنا گدلا پانی آتا ہے کہ اسے پینا تو درکنار‘ اس سے ہاتھ منہ دھونا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ زیرِ زمین کیا کچھ ہو رہا ہے‘ صاف پانی کہاں سیوریج سے جا کر مل رہا ہے‘ جو پانی آ رہا ہے وہ مضرِ صحت اجزا سے کس قدر پاک ہے‘ کوئی بھی اس بارے میں تصدیق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
شہروں اور دیہات میں بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے تعمیرات ہو رہی ہیں اور ان میں عوام کے مفاد یا قدرتی وسائل کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ اب بیشتر علاقوں میں ہر کوئی پانی کا اپنا اپنا بور کروا رہا ہے اور اسی وجہ سے بور کئی جگہوں پر تین‘ تین سو یا اس سے بھی زیادہ گہرائی میں کیا جا رہا ہے تب جا کر صاف پانی نکلتا ہے۔ پھر جو چند لاکھ روپے خرچ کر کے بور کراتا ہے‘ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے چونکہ پیسے خرچ کیے ہیں اس لیے زمین کے نیچے سے جتنا پانی وہ نکال سکتا ہے‘ وہ اس کا حق ہے۔ وہ نہاتے ہوئے پچاس افراد کے برابر پانی استعمال کر لے‘ اسے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ گاڑی دھونے کے لیے وہ گھنٹہ‘ دو گھنٹے پائپ کھلا چھوڑ دے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ اس کا ''ذاتی بور‘‘ ہے اور اب یہ سارا پانی بھی اس کا ذاتی ہے‘ وہ جتنا چاہے پانی زمین سے کھینچ لے اور جتنا چاہے گٹر میں بہا دے۔ یہ تو ان گھروں کی بات ہے جہاں بور ہے‘ وہ گھر جہاں پر تھوڑا بہت بل آتا ہے وہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پتا انہیں تب چلتا ہے جب گرمیوں کا موسم آتا ہے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سرکاری موٹریں خاموش ہو جاتی ہیں‘ تب یہی لوگ سارا غصہ حکومت پر نکالنے کے لیے پتھر لے کر سڑکوں پر اتر آتے ہیں جیسے اس سارے معاملے میں ان کا کوئی قصور ہی نہیں ہے۔
پانی کی طرح گیس کے ساتھ بھی ہم نے یہی کچھ کیا ہے۔ ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں کہ گھر میں سوئی گیس کا بل سو‘ ڈیڑھ سو سے زیادہ کبھی نہیں آیا اور اس کے بدلے گیس ہم یوں استعمال کرتے تھے جیسے گیس کے کنویں کے مالک بن بیٹھے ہوں۔ گھروں میں بڑے بڑے گیس کے گیزر موجود ہوتے تھے جن کا رواج اب کہیں جا کر کم ہو رہا ہے کیونکہ انہیں چلانے کے لیے مسلسل گیس کی ضرورت رہتی ہے جو اب میسر نہیں ہو پاتی۔ مجھے یاد ہے کہ چند برس قبل کسی وزیر نے یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں گیزر عیاشی ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے تو اس بیان پر عوام سیخ پا ہو گئے تھے اور ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔ شاید ان کے خیال میں عیاشی صرف وزرا اور مشیران ہی کر سکتے ہیں‘ عوام کا کوئی فعل اس ذیل میں نہیں آتا۔ حالانکہ وزیر موصوف نے یہ بیان گیس کے ذخائر کی دستیابی اور پاکستان میں اس کے استعمال کو دیکھتے ہوئے دیا تھا مگر اس پر اُن کے خوب لتے لیے گئے تھے۔ آہستہ آہستہ جب گیس کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوا اور مختلف قسم کی سلیبز لگائی گئیں اور استعمال کے حساب سے گیس کے چارجز وصول کیے جانے لگے تب عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ لوگ جو سردیوں میں جہازی سائز کے گیزر اور ہر کمرے میں الگ الگ گیس ہیٹرز کے مزے لیتے تھے‘ انہیں جب پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے تک کے بل آنے لگے تو پہلے تو وہ سمجھے کہ شاید انہیں غلطی سے زیادہ بل بھیجے گئے ہیں مگر چند ایک واقعات کو چھوڑ کر کہ جن میں کسی ایک کمرے کے گھر کا لاکھوں کا بل آ گیا تھا‘ اکثریت کو ان کے گیس کے استعمال کے حوالے سے بالکل درست بل ملے تھے کیونکہ ایک تو گیس کی سلیبز اور اس کے ریٹس بڑھ چکے تھے، دوسرا‘ ان کے استعمال کی شرح وہی تھی جس کے وہ اپنے باپ‘ دادا کے زمانے سے عادی چلے آ رہے تھے۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو یہ احساس ہو گیا کہ بہتر یہی ہے کہ کپڑے گرم پہن لو لیکن اب ہیٹر والی عیاشی مزید نہیں چلے گی۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ سلیبز اور یہ ریٹس بہت پہلے نافذ کیے جانے چاہئیں تھے تاکہ لوگ پانی اور گیس کا بھی اسی طرح استعمال کریں جیسے بجلی کا پھونک پھونک کر استعمال کرتے ہیں۔
اگر بڑھتی آبادی‘ بڑھتے استعمال اور ذخائر کی دستیابی کو مدنظر رکھ کر بروقت پالیسیاں بنائی جاتیں تو اب یکدم ہمارے سروں پر اضافی قیمتوں کی بجلیاں گرتیں نہ ہی بجلی کی طرح گیس اور پانی کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوتی۔ بعض اوقات ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں اور ہمارے ساتھ اب یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اب پاکستانی قوم کو وہ قرض بھی اتارنا پڑ رہے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں ہیں لیکن جہاں جہاں ان کا قصور ہے‘ اگر اب تک انہیں اس کا احساس نہیں ہے تو بہت جلد ہو جائے گا کیونکہ گیس کے بارے میں تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اس سال نہیں تو اگلے سال موسمِ سرما میں گھروں میں گیس اتنی بھی نہیں آئے گی جتنی کہ اب دو وقت کھانا پکانے کے لیے میسر ہو جاتی ہے؛ چنانچہ کمر کس لیں اور گیس سلنڈر بھر‘ بھر کر لانے کے لیے تیار ہو جائیں کہ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved