معاشروں کا عدم توازن کسی ایک شعبے میں نہیں ہوتا۔ جب کوئی معاشرہ عدم توازن کا شکار ہوتا ہے تو تمام ہی معاملات میں کچھ نہ کچھ خرابی دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی تو ہے۔ اِس وقت کوئی ایک شعبہ بھی اپنے مقام پر اور معقول انداز سے کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہ خرابیاں کیوں ہیں اِس پر طویل بحث کی جاسکتی ہے۔ قصہ مختصر‘ ہم بیشتر معاملات میں توازن کو اہمیت دینا اور اُس سے کام لینا چھوڑ چکے ہیں۔ جہاں اعتدال کی راہ ترک کردی جائے وہاں قدم قدم پر بھٹکنا خارج از امکان نہیں رہتا۔
بچوں کی معقول تعلیم و تربیت ناگزیر معاملہ ہے۔ ناگزیر اِس لیے کہ یہی وہ تو معاملہ ہے جس پر پوری قوم کے مستقبل کا مدار ہے۔ بچوں کو آنے والے وقت کے لیے معقول ترین انداز سے تیار نہ کیا جائے تو پورا معاشرہ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ہم نے ایک زمانے سے بچوں کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ ہم یہ نکتہ بھول چکے ہیں کہ بچے (بڑے ہوکر بھی) خود کو آنے والے زمانے کے لیے بہترین انداز سے تیار نہیں کرسکتے۔ اُنہیں قدم قدم پر توجہ درکار ہوتی ہے۔ اگر توجہ میں کمی پائی جائے تو زندگی میں بہت سی خرابیاں در آتی ہیں۔ یہاں ایسا ہی تو ہوا ہے۔
کسی بھی کامیاب معاشرے کا ذرا باریک بینی سے جائزہ لیجیے تو آپ پائیں گے کہ وہاں لوگ اولاد کو مستقبل کے لیے تیار کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ سوال صرف سکول یا کالج میں داخلہ دلانے کا نہیں‘ بچوں میں وہ اعتماد پیدا کرنے کا ہے جو آگے چل کر اُنہیں درکار ہوتا ہے۔ عملی زندگی انسان کو قدم قدم پر آزماتی ہے۔ اگر بچوں میں بھرپور اعتماد پیدا نہ کیا جائے تو وہ عملی زندگی میں شدید الجھنوں کا سامنا کرتے ہیں۔
کوئی بھی تعلیمی ادارہ کسی بھی بچے میں وہ سب کچھ پیدا نہیں کرسکتا جو اُسے عملی زندگی میں درکار ہوتا ہے۔ اساتذہ سبق پڑھاتے ہیں اور امتحانات کے لیے تیار کرتے ہیں۔ کوئی بھی بچہ کمرۂ امتحان میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اُس کا مدار محض اساتذہ کی محنت پر نہیں بلکہ والدین اور گھرانہ و خاندان کے بزرگوں کی توجہ پر بھی ہے۔ کوئی بھی بچہ تعلیم کے شعبے میں اُسی وقت کچھ کرسکتا ہے جب اُسے پورے گھر کی توجہ بھی حاصل ہو۔ والدین اور خاندان کے بزرگ بچوں کو پڑھاتے نہیں‘ سکھاتے ہیں۔ سکول یا کالج میں اساتذہ جو کچھ پڑھاتے ہیں وہ بھی عملی زندگی کے لیے لازم ہے مگر اُس سے کہیں زیادہ لازم وہ سب کچھ ہے جو گھر اور خاندان کے بزرگ سکھاتے ہیں۔
بچوں کو مستقبل کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے میں کلیدی کردار والدین کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ والدین ہی بچوں میں وہ اعتماد پھونک سکتے ہیں جو اُنہیں عملی زندگی میں بلندیوں تک لے جانے کے لیے ناگزیر طور پر درکار ہوا کرتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کے ذہن پر کمانے کا دباؤ نہیں ہوتا۔ اُنہیں سب کچھ بہت اچھا دکھائی دے رہا ہوتا ہے کیونکہ تعلیمی فیس والدین ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بے فکری کا زمانہ ہوتا ہے مگر اِسی زمانے میں اساتذہ اور والدین کو مل کر بچوں کے ذہن کو مضبوط بنانا ہوتا ہے تاکہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہوکر فکرِ معاش میں کچھ کرنے کے لیے گھر سے نکلیں تو قدم قدم پر ٹھوکر نہ کھائیں۔ اس کے لیے اعتماد بنیادی شرط ہے۔ جن بچوں میں چھوٹی عمر سے اعتماد پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے وہ عمر کے تمام ادوار میں کمی سی محسوس کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں اُن کی معاشی جدوجہد کمزور پڑتی جاتی ہے اور وہ معاشرتی تعلقات میں بھی زیادہ متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ ہمارے ہاں والدین کے ذہنوں میں صرف یہ بات بسی ہوئی ہے کہ اُن کی ذمہ داری بچوں کی تعلیمی فیس ادا کرنے تک ہے۔ وہ تعلیم کے تمام اخراجات ادا کرکے سکون کا سانس لیتے ہیں۔ یہ تصور بھی عام ہے کہ نئی نسل کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنا تعلیمی اداروں کا کام ہے۔ اس معاملے میں تعلیمی اداروں کا کردار اہم ضرور ہے مگر ایک خاص حد تک۔ اُس کے بعد تو والدین اور خاندان کے بزرگوں ہی کو اپنا فرض نبھانا ہوتا ہے۔ کیا والدین اور خاندان کے بزرگ اپنا فرض نبھارہے ہیں؟
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نئی نسل کو تیار کرنے میں والدین بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں نہ خاندان کے بزرگ۔ حقیقت یہ ہے کہ اُنہیں تو آپس کی رنجشوں اور جھگڑوں ہی سے فرصت نہیں۔ ہمارا معاشرتی ڈھانچا ہے ہی ایسا کہ جو وقت بچوں کو دینا ہوتا ہے وہ بڑوں کے آپس کے مناقشوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ بیشتر گھرانوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت اِن جھگڑوں کے باعث شدید متاثر ہوتی ہے۔ والدین جیب ڈھیلی کرنے کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا سمجھ بیٹھے ہیں۔ تعلیمی اخراجات ادا کرنے اور بچوں کو واقعی کچھ بنانے کی سعی میں بہت فرق ہے۔ یہ فرق سمجھے بغیر بچوں پر معقول حد تک توجہ نہیں دی جاسکتی۔ والدین اس نکتے کو سمجھنے سے بالعموم قاصر ہیں کہ بچوں کو گھر کے ماحول میں الجھن پیدا کرنے والی باتیں سُنائی اور دکھائی دیں تو اُن کے ذہن منتشر ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اُن کے لیے ڈھنگ سے پڑھنا‘ کچھ سیکھ پانا ممکن نہیں رہتا۔ تھوڑی بڑی عمر میں یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے کیونکہ بچے خود بھی بڑوں کے معاملات میں ملوث ہونے لگتے ہیں۔ بعض ناسمجھ گھرانوں میں بچوں کو بڑوں کے معاملات میں ملوث کرنے کی ''روایت‘‘ سی پائی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں معقول تعلیم و تربیت ممکن نہیں رہتی۔
منظم معاشروں میں بچوں کی معقول تعلیم و تربیت کے لیے والدین بھی خود کو تیار کرتے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اُنہی گھرانوں کے بچے زیادہ اعتماد کے ساتھ کچھ سیکھتے ہیں جن میں والدین کو بھی پڑھنے اور سیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ بچے سکول اور ٹیوشن سنٹر میں کیا کر رہے ہیں اِس کا جائزہ لینے کے لیے والدین کا بھی پڑھا لکھا ہونا لازم ہے۔ اگر رسمی تعلیم نہ بھی پائی ہو تو کوئی بات نہیں‘ تھوڑے بہت مطالعے کے ذریعے والدین خود کو بچوں سے کسی حد تک ہم آہنگ رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بچوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ والدین کسی بھی وقت کسی بھی معاملے میں کچھ پوچھ سکتے‘ وضاحت طلب کرسکتے ہیں۔ یہ پوچھ گچھ اگر متوازن ہو تو بچے بھی چوکس رہتے ہیں۔ ایسے گھرانوں کے بچے سکول یا کالج میں پڑھائی پر بھرپور توجہ دیتے ہیں کیونکہ اُنہیں گھر میں بھی بہت کچھ بیان کرنا ہوتا ہے۔ ایسے بچوں میں یہ احساس بھی توانا رہتا ہے کہ والدین اُن کی تعلیم و تربیت پر جو کچھ خرچ کر رہے ہیں اُسے ضائع ہونے سے بچانا ہے اور اِس کے لیے لازم ہے کہ پڑھائی پر‘ کچھ نیا سیکھنے پر بھرپور توجہ دی جائے۔
ہمارے ہاں والدین کی اکثریت اب تک اس بات سے بے نیاز سی دکھائی دیتی ہے کہ بچوں کو گھر میں کلاس روم اور امتحان کی بہتر تیاری کے لیے ایسا ماحول درکار ہوتا ہے جس میں کشیدگی نہ ہو، مناقشے نہ ہوں، کھینچا تانی نہ ہو۔ گھر اگر خاندان کے جھگڑوں سے اَٹا ہوا ہو تو بچے پڑھ چکے اور کچھ بن چکے۔ ایسے ماحول میں وقت کو صرف دَھکّا دیا جاسکتا ہے، کچھ سیکھا اور بنا نہیں جاسکتا۔
والدین یہ بھول بیٹھے ہیں کہ بچوں کو ہمہ وقت توجہ درکار ہوتی ہے۔ ایک طرف تو اُن کی تعلیم کی نگرانی کرنا ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ ماحول سے کیا سیکھ رہے ہیں، کیا اخذ کر رہے ہیں۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو بچوں کے کام کا نہیں ہوتا مگر اُن کی زندگی میں در آتا ہے۔ فی زمانہ سوشل میڈیا نے بچوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ اُن کی سیکھنے کی صلاحیت کمزور پڑتی جارہی ہے کیونکہ انہماک ممکن نہیں ہو پارہا۔ بچوں کو سکول یا کالج بھیج کر مطمئن ہو رہنے کی ضرورت نہیں۔ اُن کے شب و روز پر نظر رکھنا بھی لازم ہے تاکہ وہ بُری صحبت اور بُری عادتوں سے دور رہیں۔ بُری عادت کسی بھی نوعیت کی ہوسکتی ہے۔ مطالعہ اچھی بات سہی؛ تاہم فضول مطالعہ بھی بُری عادت ہے۔ جاننے کی خواہش فطری امر ہے مگر ماحول کو جاننے اور دنیا کو سمجھنے کے نام پر محض سوشل میڈیا میں گم رہنا بُری عادت ہے۔ نشے کی لَت کی طرح یہ لَت بھی نئی نسل کو برباد ہی کر رہی ہے۔ ایسے میں والدین کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved