غزہ میں اڑتالیس روز تک جاری رہنے والی جنگ میں چار دن کا وقفہ کیا جا چکا ہے۔اس پر امریکہ بہادر بھی داد وصول کر رہا ہے‘اور دو برادر عرب ممالک (قطر اور مصر) بھی خراجِ تحسین کے مستحق گردانے جا رہے ہیں کہ جن کی سفارتی تگ و دو کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان یہ عارضی جنگ بندی ممکن ہوئی۔قیدیوں کا تبادلہ جاری ہے‘ اور غزہ میں امدادی سامان بھی پہنچایا جا رہا ہے‘لیکن دل اس تصور ہی سے سہما جا رہا ہے کہ چار دن کے بعد پھر آگ اور خون کا کھیل شروع ہو چکا ہو گا۔غزہ کے بچے‘عورتیں‘بزرگ اور نوجوان نشانہ بنائے جا رہے ہوں گے‘اور ہم خون کے گھونٹ پینے کے سوا کچھ نہ کر سکیں گے۔ دہشت اور خونریزی کے اڑتالیس دنوں میں 14ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں چھ ہزار بچے اور چار ہزار عورتیں تھیں۔ پینتیس ہزار زخمی ہوئے‘اور بیس لاکھ کے قریب افراد کو بے گھر بنا دیا گیا۔ چھت ان سے چھین لی گئی۔چار ہزار سے زیادہ عورتوں اور بچوں سمیت سات ہزار افراد کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کہاں ہیں۔ ان کی موت کی تصدیق ہوئی ہے نہ زندگی کی‘پورا غزہ کھنڈر بن چکا ہے کہ 60فیصد سے زیادہ عمارتیں تباہ ہو چکیں۔ ہسپتال قبرستان بنائے جا چکے۔سکول ملبے کا ڈھیر بنا ڈالے گئے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور اسرائیل کے سوا پوری دنیا جنگ بندی کی دہائی دیتی رہی‘آگ اور خون کے کھیل کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی۔مسلمان ممالک ہی میں نہیں مغربی ممالک میں بھی ہزاروں کیا لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے۔سراپا احتجاج بنے جنگ بندی‘ جنگ بندی پکارتے رہے‘لیکن انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والے نام نہاد حکمرانوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ حماس کو انتہائی سزا دینے تک اسرائیل کا ہاتھ روکنے سے انکار جاری رہا۔
اسرائیلی معیشت کو بھی اس جارحیت کا شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ 60کروڑ ڈالر روزانہ‘اسرائیلی کرنسی ڈی ویلیو ہو چکی ہے‘ بیروزگاری میں شدید اضافہ ہو رہا ہے‘قرضوں کا حجم بڑھ گیا ہے۔چار لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہو چکے ہیں۔حماس کو چند روز میں نیست و نابود کرنے کا اسرائیلی خواب چکنا چور ہے‘اور اسے ایسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔اسرائیل اور اُس کے سرپرستوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے‘دو ریاستی حل کی طرف آنا ہو گا۔اقوام متحدہ کی طرف سے کی گئی حد بندی کے اندر اسرائیل کو فلسطینی علاقے خالی کرنا ہوں گے‘ وگرنہ اسے چین نصیب نہیں ہو سکے گا۔
عالم ِاسلام ہی نہیں عالم ِ انسانیت جنگ بندی کا خواہاں ہے اس کے لیے مطالبہ کر رہا ہے‘اللہ کرے کہ چار روزہ وقفہ ایک ایسی بنیاد فراہم کر دے جس پر امن کی پختہ عمارت تعمیر ہو سکے۔اہل ِ پاکستان نے بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔پورا ملک اُن کے حق میں نعروں سے گونج رہا ہے۔ جماعت اسلامی‘ اور جمعیت العلمائے اسلام کے زیر اہتمام لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے ہیں۔ امدادی سامان بھی غزہ پہنچایا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکومت بھی اپنے برادر ممالک کے ساتھ سرگرم ہے۔
اسرائیل کے سب سے بڑے سرپرست امریکہ کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے کہ اس کے بغیر پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔عالم ِ اسلام پر لازم ہے کہ امریکہ پر اپنے سفارتی دبائو میں اضافہ کرے‘ امریکی رائے عامہ میں جو تحرک پیدا ہوا ہے‘ وہ بھی اُمید کی کرن دکھلاتا ہے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا امریکہ اپنے آپ کو چیمپئن سمجھتا ہے۔دنیا بھر میں اس نے جو بھی تنازعات کھڑے کیے ہیں ان کا جواز جمہوریت اور شہری آزادیوں کو بنایا ہے۔گزشتہ دو‘تین دہائیوں کے دوران اُس نے کئی ممالک کو جمہوریت کے نام پر تہہ و بالا کیا ہے‘ عراق‘شام اور لیبیا میں جو قیامتیں برپا کی گئی ہیں‘ان میں انسانی حقوق کی آڑ ہی لی گئی ہے‘لیکن اب جبکہ اسرائیلی جارحیت ننگی ہو کر ناچ رہی ہے‘ دنیا بھر میں کہرام مچا ہوا ہے تو امریکہ کو اسرائیل کے حق ِ دفاع کی پڑی ہوئی ہے اُس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے۔اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل جنگ بندی کی قرارداد تک منظور نہیں کر سکی۔ جوبائیڈن اور اُن کے ہمنوائوں کو عرب علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ دکھائی دے رہا ہے‘ نہ وہاں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر نظر آ رہی ہے۔اسرائیل نے اقوام متحدہ اور اس کی سکیورٹی کونسل کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے من مانی کی ہے۔فلسطینی ریاست کے قیام کو ناممکن بنانے میں لگا رہا ہے‘اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اس کی روش یہی رہے گی تو پھر اُسے بھی سکون کا سامنا نصیب نہیں ہو گا۔خوف اور خطرے کی فضا طاری رہے گی‘اور اس میں وہ جی کر بھی مرتا رہے گا۔اسرائیل اگر چین چاہتا ہے‘ سکون سے رہنا چاہتا ہے تو اُسے فلسطین کا سکون بہرحال واپس کرنا ہو گا۔ اس کا سرپرست امریکہ اس کی تجوریوں کو جتنا بھی بھر دے‘ اُسے سکون نہیں دے سکے گا کہ یہ چیز عالمی منڈی میں نہیں ملتی‘اسے صرف فلسطینی ہی اسرائیل کو فراہم کر سکتے ہیں۔جیو اور جینے دو‘ تم اپنی حدود میں چلے جائو‘ فلسطینیوں کو ان کا جغرافیہ واپس کر دو۔
سہیل وڑائچ کہانی
حضرت پیر ضیا الحق نقشبندی نے برادرم سہیل وڑائچ کی سوانح حیات لکھ ڈالی ہے‘اسے آپ بیتی بھی کہا جا سکتا ہے۔ نقشبندی صاحب سوال کرتے گئے‘اور سہیل سرور سلطان المعروف سہیل وڑائچ جواب دیتے رہے۔یہ طویل انٹرویو الامین اکیڈمی نے کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔ سہیل وڑائچ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران آسمانِ صحافت پر نمودار ہوئے‘ اور پھر چھاتے چلے گئے۔قلم کا لوہا بھی منوایا اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی انفرادی رنگ جمایا۔ اُن کے انٹرویو بہت مقبول ہوئے‘مخصوص دھیمے انداز سے وہ دلوں میں جگہ بناتے چلے گئے۔کئی کتابیں بھی لکھیں‘محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر اُن کی تصنیف کو تو عالمی پذیرائی ملی۔ سہیل وڑائچ کی زندگی کی کہانی آج کے نوجوانوں کو محنت اور ہمت کے بل پر آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ سہیل وڑائچ دلوں کو توڑتے نہیں جوڑتے ہیں۔آئین کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں‘اور اسی کو پاکستان کی ترقی اور مضبوطی کا ضامن قرار دیتے ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان سے اُن کا تعلق بہت قریبی رہا‘نوابزادہ صاحب اتفاقِ رائے کی سیاست کے علمبردار تھے۔سہیل صاحب کا کہنا ہے کہ اُنہیں مختلف الخیال لوگوں کو یکسو کرنے کا فن آتا تھا‘دائیں اور بائیں بازو کے انتہا پسند بھی ان کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے نظر آتے تھے‘ وہ اپنی زندگی کے آخری دور میں پاکستانی ضمیر کی آواز بن چکے تھے‘میں نے ان کے اسی دور میں جتنی عزت و تکریم ان کو ملتے ہوئے دیکھی ہے شاید ہی کسی کو نصیب ہوئی ہو۔وہ جب اور جہاں کہیں جاتے تھے ہر کوئی اُنہیں عزت و تعظیم دینے کے لیے خودبخود اُٹھ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ سہیل وڑائچ کو ہم بلا خوف و تردید نوبزادہ نصر اللہ خان کہہ سکتے ہیں‘ جتنی عزت و تکریم اُن کو حاصل ہے‘وہ پاکستان کے بہت ہی کم اخبار نویسوں کے حصے میں آئی ہے۔سب اُنہیں اپنا سمجھتے ہیں‘ اور وہ بھی سب کو اپنا بنا لیتے ہیں‘جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved