تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     26-11-2023

شنگھائی سے…

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور گلوبل گورننس پر ساتویں بین الاقوامی فورم کے موقع پر چین کی فودان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز اور پاکستان سٹڈی سنٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ژان جگن کی دعوت پر شنگھائی میں ہوںْ پروفیسر ژان جگن نہایت اعلیٰ صلاحتیوں کے مالک ہیں اور انہیں چین میں پاکستان کے معاملات کے حوالے سے اتھارٹی تصور کیا جاتا ہے جبکہ فودان یونیورسٹی چین کی تیسری بڑی یونیورسٹی ہے۔ فودان یونیورسٹی کے سلک روڈ تھنک ٹینک ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ‘ فودان انسٹی ٹیوٹ آف بیلٹ اینڈ روڈ اینڈ گلوبل گورننس‘ چائنا مرکز برائے معاصر عالمی مطالعہ اس اہم فورم کی میزبانی کر رہا ہے۔2017ء سے اب تک نہایت کامیابی کے ساتھ یہ فورم منعقد کیا جا رہا ہے۔24 سے 26 نومبر تک جاری رہنے والے اس فورم کو ''بیلٹ اینڈ روڈ کے 10 سال ‘ کامیابی اور نئے چیلنجز‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ شنگھائی میں منعقدہ اس فورم میں دنیا بھر سے سوچنے سمجھنے والے لوگ موجود ہیں‘ فودان یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈی سینٹر نے سی پیک کے 10 سال پورے ہونے پر میڈیا اور کاروباری شخصیات کے درمیان مفید مکالمے کا اہتمام کیا جس میں میری معروضات اختصار کے ساتھ نذر ِقارئین ہیں۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی صدر شی جن پنگ کی قیادت میں بدلتے ہوئے عالمی حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے میں قابلِ ذکر مہارت کا مظاہرہ کر چکی ہے‘ جو اپنے عوام کو زمانے کے جدید چیلنجز سے ہم آہنگ کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اہم پیش رفت ہے‘ جو ایک عظیم الشان منصوبہ ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری ‘ بی آرآئی کا ایک اہم جزو ہے۔ سی پیک گوادر پورٹ کو چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ سے جوڑتا ہے جس سے انفراسٹرکچر کی اہمیت میں اضافہ ہونے کے علاوہ خطے میں اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ کامیابیوں کے باوجود پاکستان کو بیرونی دباؤ کا سامنا ہے‘ خاص طور پر مغرب اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے عائد کردہ شرائط اور سی پیک کے ساتھ پاکستان کی وابستگی کو متاثر کرنے کی کوششیں جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ بی آرآئی کے وسیع تر تناظر میں اس منصوبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کیلئے سی پیک کی سالمیت کے تحفظ کیلئے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت بہت ضروری ہے۔
اگرچہ سی پیک نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر کیا ہے لیکن اس وقت اہم ضرورت مضبوط صنعتی بنیاد کی ترقی ہے۔ انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی کامیابی کسی قوم کی اقتصادی ترقی کے لیے ان سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے منسلک ہے‘ اس لیے سی پیک کے تحت ترجیحی انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ پلان ضروری ہو جاتا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی عدم توازن کو دور کرنا اہم تشویش ہے کیونکہ پاکستان اور چین کے دوطرفہ تجارتی حجم میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے۔ چین کی پاکستان کو 20 ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان کی چین کو برآمدات تقریباً 3 ارب ڈالر ہیں۔ چین اہم اقتصادی شراکت دار کے طور پر اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کو خصوصی تجارتی مراعات دینے سے مقامی صنعتوں کی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو گا۔ ایسی دنیا میں جہاں بیانیہ کو تشکیل دینے میں طاقتور ٹولز استعمال کیے جا رہے ہیں‘ چین کو میڈیا اور پروپیگنڈا میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور یورپ کی کامیابی قابلِ ذکر ہے۔ بی آرآئی کے ذریعے چین کا عالمی رابطہ 150 سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک مضبوط بیانیہ سازی کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ چین کے نقطہ نظر کو واضح طور پر اور مؤثر طریقے سے بیان کرنے کے لیے پرنٹ‘ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں سرمایہ کاری لازمی ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے پیچیدہ منظر نامے میں پاکستان اور چین کے درمیان میڈیا کے تعاون کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مشترکہ میڈیا حکمت عملی بیانیے کو فروغ دینے اور عالمی سطح پر متحدہ محاذ پیش کرنے کے لیے طاقتورآلہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ دونوں ممالک بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت سی پیک جیسے اہم منصوبے کے شراکت دار ہیں اس لئے اپنے مشترکہ وژن کو تقویت دینے‘ سازش پر مبنی فیک نیوز کا مقابلہ کرنے اور مضبوط روابط بنانے کے لیے میڈیا کے تعاون سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ باہمی تعاون سے سازشی کہانیوں کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے اسی طرح کے کامیابی کے اہداف اور فوائد کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ دوطرفہ میڈیا تعاون نہ صرف عوامی حمایت کو تقویت دے گا بلکہ بیرونی عوامل کی طرف سے پھیلائے جانے والے کسی بھی منفی پروپیگنڈہ کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ چین کے لیے میڈیا اور پروپیگنڈا میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا مطلب صرف حریف ممالک کے بیانیے کا مقابلہ کرنا نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر فعال مقابلہ کرنا ہے۔ اگرچہ چین اقتصادی اور تکنیکی شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر چکا ہے‘ تاہم بیانیے کا خلا ایک ایسا میدان ہے جہاں وہ اپنے اثر و رسوخ کو نمایاں طور پر بڑھا سکتا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی شراکت داری کے ساتھ ساتھ خطے میں مختلف ذرائع سے پیدا ہونے والے سکیورٹی چیلنجز بھی نمایاں ہیں۔ افغانستان کی صورتحال کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کے علاوہ داعش کی افغانستان میں موجودگی ایسے سنگین سکیورٹی خدشات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔افغانستان میں بدلتے حالات کا براہ راست اثر علاقائی استحکام پر پڑتا ہے‘ پاکستان اور چین کو ممکنہ سکیورٹی اثرات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے کیونکہ مستحکم افغانستان دونوں ممالک کے مفاد میں ہے اور خطے کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے سفارتی اور سکیورٹی شعبوں میں مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ پاکستان اور چین کی دوستی محض سی پیک تک محدود نہیں‘ اس لئے چین افغانستان میں اپنا اثر رسوخ بروئے کار لاتے ہوئے دہشتگردی کے خاتمے میں پاکستان کی ہر ممکن مدد کرے‘ کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کیلئے سنگین چیلنج ہے۔ انٹیلی جنس شیئرنگ‘ سرحدی انتظام اور مشترکہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تعاون ضروری ہے۔ دونوں ممالک کو ٹی ٹی پی کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے‘ جو نہ صرف پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ پورے خطے کے ا ستحکام کے لیے بھی خطرناک ہے۔ بھارت کے ساتھ طویل عرصے سے جاری جیو پولیٹیکل تناؤ کے پیش نظر ایک مضبوط سکیورٹی حکمت عملی کی ضرورت کا تقاضا ہے۔ سی پیک جیسی اقتصادی شراکت داریاں علاقائی استحکام کو فروغ دینے کا امکان رکھتی ہیں‘ تاہم تاریخی تنازعات سے پیدا ہونے والے سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔ ان پیچیدہ سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سکیورٹی اور اقتصادی مقاصد فطرتاًآپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ سی پیک جیسے اقدامات کی کامیابی نہ صرف انفراسٹرکچر کی ترقی پر منحصر ہے بلکہ ایسا محفوظ ماحول بھی فراہم کرنا ہے جو اقتصادی ترقی کو فروغ دے۔ اس لئے مشترکہ سکیورٹی اقدامات‘ انٹیلی جنس تعاون اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے مشترکہ عزم اقتصادی تعاون کے کامیاب اور پائیدار ہونے کے لیے ضروری ہے۔ بین الاقوامی فورم پر سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کے ذریعے باہمی تعاون‘ملٹری تعاون‘ انڈسٹریل‘ انٹیلی جنس شیئرنگ‘ اقتصادی تعاون‘ فائیو جی اور نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی‘آٹوموبیل انڈسٹری‘ زرعی تعاون‘ ادویہ سازی اور ای کامرس میں تعاون کیلئے تجاویز میرے مقالے کا حصہ تھیں۔ میڈیا کے تعاون کے ساتھ محفوظ اور خوشحال مستقبل کے خواب کو پورا کیا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved