قمر زماں کو تُلنے دیجئے ۔ ابھی فیصلہ ہوا جاتاہے کہ وہ کم تُلتے ہیں،پورے یا زیادہ ۔ موسمِ خزاں کی سویر۔ دل درد سے بھرا ہوا۔ کوئی کہے تو کیا کہے ؟ حالِ دل لکھوں کب تک، جائوں ان کو دکھلائوں انگلیاں فگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا کامل علی آغا نے کہا : قمر زماں ایماندار ہیں مگر ان سے امید کیسے ہو کہ مقرر انہیں میاںمحمد نواز شریف اور سیّد خورشید شاہ نے کیا ہے ۔ یہ بھی خوب رہی ، اگر وہ ایماندار ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتاہے کہ کس نے تقرر کیا ۔ اگر بد دیانت ہیں تو خواہ صلاح الدین ایّوبی ، ابراہم لنکن اور محمد علی جناح مل کر مقرر کریں ، لا حاصل ! بے نیام شمشیر کے دستے پر امیر تیمور نے ہاتھ رکھا اور یہ کہا : مرد کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہوتاہے ۔ پھر بے وقت نصیحت کرنے والے واعظ کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے : تاتاری ٹھیک ہی کہتے ہیں ، دو مولوی ایک مرد کے برابر ہوتے ہیں ۔ قومی احتساب بیورو کے نامزد چیئرمین اگر عدالتِ عظمیٰ کا پل پار کر پائے تو ان کے سامنے فقط دو ہی راستے ہوں گے ۔ پوری قوت سے بروئے کار آکر برقرار رہنے والی آبرو مندی یا کبھی نہ دھلنے والی رسوائی۔ عرب کے ریگزار میں کبھی ایک ہستی نے جنم لیا تھا ۔ تیرہ سو برس کے بعد لاہور کے ایک شاعر نے لکھا: ’’جہاں کہیں روشنی ہے ، ان کے طفیل یا ان کی تلاش میں‘‘۔ شاعر کا نام محمد اقبالؔ تھا اور اس مبارک ہستی کو سبھی جانتے ہیں ۔ وہ بھی، جو مانتے نہیں: وہؐ دانائے سبل، ختم الرّسل، مولائے کُل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا جوبات کہہ دی ، پتھر پہ لکیر ہو گئی اور ابد الآباد تک کے لیے ۔ ہر صاحبِ ایمان کو پروردگار اپنی پناہ میں رکھے ، سرکارؐ کا فرمان یہ ہے : کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں ، جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہو جائے۔ (مفہوم) جناب قمر زماں کے لیے وہ وقت آن پہنچا۔ آسان ہے ، تحریکِ انصاف ، جماعتِ اسلامی اور قاف لیگ کی طرح مسترد کر دینا آسان ہے ۔ دورِ جاہلیت کے عرب خطیب نے ایران کے حاکم سے کہا تھا : بادشاہ! حسنِ ظن ایک بھنور ہے اور بدگمانی ایک بچائو۔ سامنے کا نکتہ یہ ہے کہ میاں محمد نوا ز شریف ، سیّد خورشید شاہ اور ان کے آقائے ولی نعمت ’’سیّد‘‘ آصف علی زرداری ایک ایسے شخص پر کیسے متفق ہو سکتے ہیں جسے ان پر فیصلہ کرنا ہے۔ میاں صاحب کے تین ذاتی، شریف خاندان کے آٹھ ، سیّد خورشید شاہ کا ایک اور ایشیائی نیلسن منڈیلا کے مقدمات ،قطار اندر قطار: ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں اصول یہ ہے کہ اوّل منصب کی ذمہ داریوں کو سمجھا جاتاہے ، پھر اس کے مطابق موزوں مردِ کار کی تلاش۔ سوچنے سمجھنے والے ہر آدمی نے سوال کیا کہ اگرعادل اور سچّے کو لگانا تھا تو جسٹس اعجاز چوہدری کو کیوں نہ لگایا؟ اجلے ہی نہیں ، زاہد۔ کیسی کیسی کڑی ابتلا سے سر اٹھا کر گزرگئے ۔ جسٹس بھگوان داس، ایک آدھ بار پھسلے بھی مگر ایک آدھ بار ہی ۔ جناب قمر زماں میں خوبی کیا ہے ؟ استنبول کے حالیہ دورے کے بعد کھوجی رئوف کلاسرا نے بیان کیا کہ قمر زماں شائستہ آدمی ہیں ۔ گھل مل جاتے ہیں ۔ اخبار نویسوں کے ساتھ لطف سے پیش آئے ، جب خرّم دستگیر سمیت سبھی کی گردنیں لوہے کی تھیں ۔ اتنی سی بات پہ مگر رائے نہیں دی جا سکتی۔ سینیٹر طارق چوہدری نے تعریف کی لیکن پھر یہ کہا: معتوب کبھی نہ ہوئے ۔ اس پر بلال الرشید بولے: لو بھئی، وہ بھی کوئی اچھا سمجھدار افسر ہے کہ کبھی او ایس ڈی نہیں بنا۔ بریگیڈئیر ترمذی نے اپنی کتابProfiles in intelligence میں ایک الزام عائد کیا ہے۔ الزامات لگانے والے الزام تو لگاتے ہیں مگر ثبوت؟ بریگیڈئیر ترمذی سے نیاز مندی رہی مگر ان کی کتاب کو چھوا تک نہیں ۔ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ان کے گھر میں ایک وائرلیس سیٹ رکھا رہتا، جس پر امریکی سفارت خانے کو وہ خبریں دیا کرتے ۔ اب جو لوگ سیّد صاحب کو جانتے ہیں ، انہیں او ربہت سے اعتراضات ہو سکتے اور بہت سے درست ہیں ۔ دو باتیں مگر مسلّمہ ہیں ۔ اوّل یہ کہ خوف اس شخص کی کھال میں داخل نہ ہوتا تھا ، ثانیاً دیانت تو رہی ایک طرف، رازداری سے آمدن کا ایک بڑا حصہ خیرات کر دیا کرتے ۔ سیّد صاحب کی ریاضت رائگاں رہی کہ ان کا فلسفہ تاریخ کے میزان میں ناقص نکلا مگر کارندہ بننے کا سوال ہی کیا ؟ بالکل برعکس،فیصلہ کرلیں تو سن کر نہ دیتے تھے۔ آخری ملاقات کے بعد بھٹو نے بھنّا کر کہا : خود کو پوپ سمجھتے ہیں۔ بریگیڈئیر چونکہ ساقط الاعتبار ہیں‘ باقی الزامات کا بھی کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ اس بات میں البتہ وزن ہے کہ مقرر انہی نے کیا، جن کا احتساب مطلوب ہے ۔ اس کے برعکس عمران خان‘ ڈاکٹر شعیب سڈل کو صوبے میں یہ منصب سونپنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اگر پارٹی کے جرائم پیشہ اس بار بھی غالب نہ آگئے تو انشاء اللہ صوبہ سرحد میں سب کے لیے ایک ترازو ہو گی اور ایک طرح کے باٹ ۔ احتساب قہرمانوں کا ہوگا، عامیوں کا نہیں ۔ وہ بھی سلیقہ مندی کے ساتھ۔ اچھا محتسب وہ نہیں ہوتا جو سینکڑوں ،ہزاروں کو لٹکا دے بلکہ وہ جو قانون کا خوف قائم کر ے ۔ زندگی کے امکانات امید اور خوف کے درمیان پنپتے ہیں، جس طرح شگوفے موسمِ بہار میں ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان ہے: بین الرّجاء والخوف۔ قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے کہ جب الجھ جائو تو اہلِ ذکر کے پاس جائو‘ صاحبانِ علم سے پوچھا کرو (مفہوم)۔ قمر زماں کے بارے میں پوچھا! کہا کہ بے حد حساس آدمی ہے، بہت ریاضت کیش اور بہت ضدّی۔ کبھی کبھار طبیعت پر شوکت و شکوہ اثرانداز ہو جاتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف اور قاف لیگ اپنے اندیشوں میں برحق ہیں ۔ شریف اور زرداری خاندان احتساب کی تاب کیسے لا سکتے ہیں ؟ سب جانتے ہیں کہ دولت ان کی ملک سے باہر ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ روپیہ انہوںنے کس طرح کمایا۔ میاں شہباز شریف کی بات ہی مان لیجئے کہ کبھی کرپشن کا ارتکاب نہیں کیا۔ سرکار میں رہ کر کاروبار کیا بجائے خود کرپشن نہیں؟ ایک حاکم تاجر کیسے ہو سکتاہے ۔ ایک کروڑ روپے نذرانے کی پیشکش کے باوجود غیاث الدین بلبن نے ہندو تاجر کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا تھا ۔ ادھر وزیراعظم ارب پتیوں کو گود میں اٹھائے پھرتے ہیں ۔ زرداری صاحب ان پہ سایہ کیے رکھتے ہیں کہ ’تتّی‘ ہوا نہ لگے ۔ اس کے باوجود یہ طالبِ علم قمر زماں کو مسترد نہیں کرتا‘ اس لیے کہ حکم اندیشے پر نہیں لگایا جاتا۔ آج تک موصوف کو کوئی ایسا منصب ہی نہ ملا جس میں آزادی حاصل ہو ۔ کبھی وہ امتحان میں ڈالے ہی نہ گئے ۔ سیّدنا دانیال علیہ السلام نے بل طشتنرکو اس کا خواب بتایا تھا اور تعبیر بھی :بادشاہ، دیوار پہ تونے لکھا ہوا دیکھا: ’’منی منی تقیل‘‘۔ اسے تولا گیا اور وہ کم نکلا ۔ قمر زماں کو تُلنے دیجئے ۔ ابھی فیصلہ ہوا جاتاہے کہ وہ کم تُلتے ہیں، پورے یا زیادہ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved