آئے دن وزیراعظم بدلنے‘ جیل بھیجنے اور
ملک بدری سے ملک کیسے چلے گا:نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''آئے دن وزیراعظم بدلنے،جیل بھیجنے اور ملک بدری سے ملک کیسے چلے گا‘‘ اگرچہ ملک بدری کا سوال اپنے آپ سے بھی کرنا چاہیے جبکہ دوسرا سوال بھی سیاست دانوں کو خود سے ہی کرنا چاہئے کہ وزیراعظم ہر بار کرپشن وغیرہ جیسے الزامات پر بدلا جاتا رہا اور جہاں تک جیل بھیجنے کا تعلق ہے تو یہ کام بھی عدالتوں کے حکم پر کیا جاتا ہے جو اگر کسی کیس میں سزا سناتی ہیں تو جیل ہی جانا پڑتا ہے کیونکہ قانون یہی ہے اور قانون میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ کروڑوں عوام کا نمائندہ خواہ کچھ بھی کرتا پھرے۔ نواز شریف نے کہا کہ ''مجھے نکال کر اسے لائے جسے گالی کے سوا کچھ نہیں آتا‘‘ جبکہ اس کے بغیر بھی سب کچھ کیا جاسکتا ہے بلکہ جو کام ہماری شناخت اور پہچان ہے‘ یعنی تعمیر و ترقی‘ وہ گالی کے بغیر زیادہ خوش اسلوبی سے کیا جاسکتا ہے اور ہم نے یہ ثابت بھی کرکے دکھا دیا اور کسی کو ایک بھی گالی نہیں دی کیونکہ گالیاں دینے سے کام میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے اور اصل کام بیچ میں ہی رہ جاتا ہے اور حکومت سنبھالنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہنستا بستا ملک اجاڑ دیا‘‘ اگرچہ ملک اس وجہ سے اجڑا کہ سارا پیسہ ہی ملک سے باہر بھیج دیا گیا تھا اور اب اس کے واپس لائے بغیر ملک اصلی حالت میں واپس نہیں آ سکتا کیونکہ پیسہ بہتی ندی کے پانی کی طرح ہوتا ہے جو ایک بار چلا جائے تو واپس نہیں آ سکتا۔
سونا، جاگنا
٭گہری نیند سونے کے لیے گھوڑے بیچنا پڑتے ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو خرید کر بیچے جاتے ہیں۔ ٭اگر ویسے آنکھ نہ کھلتی ہو تو ایک ڈرائونا خواب دیکھیں اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں۔٭ ایک کلرک دیر تک سویا کرتا اور دفتر میں اسے جھاڑیں پڑتیں۔ وہ اس غرض سے ایک ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے اسے گولیاں لکھ کر دیں کہ رات کو سوتے وقت ایک کھا لیا کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور جب اس کی آنکھ کھلی تو دفتر جانے میں کافی وقت تھا۔ وہ آرام سے تیار ہو کر دفتر پہنچا اور سپرنٹنڈنٹ سے بولا: سر آج تو میں وقت پر آیا ہوں۔ سپرنٹنڈنٹ بولا: آج تو وقت پر آئے ہو لیکن کل سارا دن کہاں تھے؟ ٭سوتے ہوئے چلنا یعنی نیند میں چلنا ایک دوسری مصروفیت ہے اس لیے سوتے وقت دروازے وغیرہ کھلے چھوڑ دیں تا کہ ٹکرانے سے بچ سکیں۔٭ دو آدمیوں کے بارے میں مشہور ہے جو اپنی اپنی ملحقہ چھت پر سویا کرتے۔ ایک نیند میں کوئی بات کرتا اور دوسرا نیند میں ہی اس کا جواب دیتا۔ ٭سوتے جاگتے کا قصہ یہ ہے کہ آدمی سو بھی رہا ہو اور جاگ بھی۔٭ ایک طریقہ جھنجھوڑ کر جگانا بھی ہے۔ ٭نیند میں خراٹے لینا ایک اضافی مشغلہ ہے۔ ٭قسمت سو رہی ہو تو اسے اوپر والا ہی جگا سکتا ہے یا لاٹری۔ یہ شادیٔ مرگ کا باعث بھی بن سکتی ہے، اس لیے اس کا ٹکٹ خرید کر ضائع کر دینا چاہیے۔ بچہ سو نہ رہا ہو تو اسے لوری سنائی جاتی ہے۔ کسی زمانے میں چھوٹی عمر کے بچوں کوافیون بھی کھلائی جاتی تھی۔ ایک دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر سونا بھی ہوتا ہے۔ ٭کچی نیند سے جاگ جانا صحت کے لیے مفید نہیں ہوتا اس لیے نیند کو اچھی طرح سے پکا لینا چاہیے۔ یہ پکی پکائی بھی مل سکتی ہے۔
رونا‘ دھونا
اگرچہ رونا الگ اور دھونا علیحدہ علیحدہ چاہیے تا کہ دونوں کام یکسوئی سے ہو سکیں؛ تاہم دونوں کام اکٹھے کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ساتھ منہ بھی مفت میں دھل جاتا ہے۔ ٭ٹسوے بہانا رونے کی ایک سہولت ہے۔٭ مگر مچھ کے آنسو بہانے کے لیے ایک مگر مچھ کا انتظام کرنا ضروری ہے۔ ٭ایک شخص نے اپنے ایک دوست سے بیوی کو خوش رکھنے کا طریقہ پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کے حُسن کی تعریف کر دو اور بس۔ وہ گھر گیا تو اس کی بیوی آٹا گوندھ رہی تھی۔ وہ بولا: بہت خوبصورت لگ رہی ہو! اس نے حیران ہو کر منہ اوپر اٹھایا اور بولی: کیا کہا؟ تو اس نے کہا کہ بالکل حُور معلوم ہو رہی ہو۔ یہ سن کر بیوی نے رونا شروع کر دیا تو وہ بولا: عجیب بات ہے، میں نے تمہاری تعریف کی ہے اور تم رونے لگ گئی ہو۔ تو وہ بولی: روئوں نہ تو اور کیا کروں؟ بڑی لڑکی نے ڈنر سیٹ توڑ دیا ہے، چھوٹی نے انگلی مشین میں دے کر زخمی کر لی ہے، اوپر سے آپ نشہ کر کے آ گئے ہیں!
اور‘ اب افضال نویدکی یہ غزل:
صیاد کے نشانے سے مجبور ہی رہے
جتنے ہوئے قریب ہرن دُور ہی رہے
ہر لمحے میں کھلے تھے دریچے ہزار ہا
جو جاگنے سے رہ گئے مقہور ہی رہے
ہر زاویے سے تیری نظر دیکھتی رہی
کر کے گریز بھی تیرے منظور ہی رہے
جا شکر کی بنی رہی اکرامِ خاص سے
پابندِ دہر ہو کے بھی مشکور ہی رہے
معلوم تھا درختوں نے سینے سے اُگنا تھا
جب تک نہ بن ہَرا ہوا مامور ہی رہے
قاصد نے جیسے کلیوں کا سندیسہ دے دیا
لانے کو شہد سائلِ زنبور ہی رہے
اندر کشید لگ گئی چھوڑا جو بادہ کو
نشے سے اپنے شام و سحر چُور ہی رہے
ایک ایک اینٹ ڈھنگ سے رکھی منڈیر پر
ہم مہر کے طلوع کو مزدور ہی رہے
ہر ذی نفس کو جینے کا اسرار دے دیا
ہر دم طلسمِ زیست سے مسحور ہی رہے
پلٹے تو جیسے بن بھی پلٹنے میں آ گیا
نوخیزیٔ دو رویہ سے بھرپور ہی رہے
جیسے جگہ بنا لی تلذز نے مستقل
ہونٹوں پہ اُس کے خوشۂ انگور ہی رہے
لوگوں سے کچھ زیادہ پرندوں کے غول تھے
یعنی نویدؔ ہر جگہ مشہور ہی رہے
آج کا مطلع
دریا دور نہیں اور پیاسا رہ سکتا ہوں
اس سے ملے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved