تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-11-2023

اس وقت سے بچیں!

انگریزی زبان کے معروف ادیب جارج اورویل (George Orwell)نے کہا تھا کہ کسی قوم کو برباد کرنے کا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ اس سے اس کی تاریخ کا شعور چھین لو کیونکہ مستقبل کو وہی کنٹرول کرتا ہے جس کے پاس ماضی کا کنٹرول ہو گا۔ ماضی کے روشن ابواب پر مشتمل اسلامی تاریخ کو پاکستان کی نوجوان نسل کے ذہن نشین کرانے کیلئے پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں‘ لاک ڈائون کے دنوں میں ایک ایسی کتاب کو فروغ دیا گیا جس کا تعلق مسلمانوں کی گم گشتہ تاریخ سے ہے۔ دنیا بھر کی طرح جب پاکستان میں بھی کورونا کی جان لیوا وبا میں سافٹ لاک ڈائون کیا جا رہا تھا تو اس وقت عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم پاکستان کی نئی نسل کو فارغ بیٹھنے کے بجائے اسلامی تاریخ پڑھنے کی جانب راغب کیا۔ اسی دوران تاریخ پر بنے ایک ترک ڈرامے کو بھی اردو ڈبنگ کے ساتھ سرکاری ٹی وی پر نشر کیا گیا۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے مسلم مخالف قوتوں کو ناراض کر لیا گیا لیکن اپنا نام مسلم تاریخ کے نگہبانوں میں ضرور شامل کرا لیا۔ اگر کسی کو یاد نہیں تو بتا دوں کہ یہ کتاب ''Lost Islamic History‘‘ تھی اور اس کے مصنف کا نام فراس الخطیب ہے۔
سیاسی مخالفین کو جب عمران خان کے خلاف کوئی بات نہیں ملتی تو وہ ایک بات کو شدومد سے اٹھاتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے آج کی نوجوان نسل کا اخلاق بگاڑ دیا ہے، اس نسل کو تہذیب نہیں سکھائی بلکہ خان کے حامیوں کو طرح طرح کے نام دیتے ہوئے مخالفین الزام دھرتے ہیں کہ یہ غیر اخلاقی قسم کی زبان استعمال کرنا شروع ہو گئے ہیں جس سے معاشرے میں اخلاق اور تہذیب کا زوال آیا ہے۔ میرے قصبے کے ایک دوست کہتے ہیں کہ خان کی سیاست تو ٹھیک ہے لیکن وہ سیاسی مخالفین کے بارے میں جس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں‘ وہ اچھی نہیں ہوتی انہیں چاہئے کہ الفاظ کا چنائو درست کریں۔ آج وقت نے اس طرح پینترا بدلا ہے کہ وہ کتابیں جو کل تک کی چھپ کر بیچی، خریدی اور پڑھی جاتی تھیں‘ آج ان تحریروں سے بھی سو ہاتھ آگے کی کتابوں کی اس طرح تشہیر کی جا رہی ہے کہ جیسے ان کتابوں کو درسی کتب میں شامل کر کے انہیں بچوں کا نصاب بنانا مقصود ہو۔
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر برساتے ہوئے کسی کو رتی بھر بھی خیال نہیں آ رہا کہ اگر آج آپ کا نشانہ ستم رسیدہ اور پابجولاں ہے اور وہ اب تک صبر سے کام لے رہا ہے تو انتظار کیجئے‘ وقت کبھی یکساں نہیں رہتا۔ یہ بازی اور گیم کسی بھی وقت پلٹ سکتی ہے مگر باقی رہے گا تو سب کا ادا کردہ کردار اور ان کے بیانات۔ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے انہیں تو اتنا فرق نہیں پڑتا مگر انسان کا اپنا کردار ضرور کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ اس کے معیارات کیا ہیں۔ کون انسان ہے جو آج یہ دعویٰ کرے کہ وہ ہر طرح کے گناہوں اور عیبوں سے پاک ہے؟ جب یہ مان لیا کہ انسان خطا کا پتلا ہے تو پھر اس کی عیب جوئی کے ڈھنڈورے پیٹ کر کس کو خوش کیا جا رہا ہے؟آج کل دنیا میں ہر کوئی دوسرے کا گواہ ہے‘ نجانے میرے دل کے اندر کتنے راز ہیں ‘ممکن ہے کہ انتہائی اہم شخصیات کی ناشائستہ حرکتوں کا شاہد ہوں‘ جنہیں آج تک کسی سے بیان کرنا منا سب نہیں سمجھا ۔اگر میرے جیسے بندے خاموش ہیں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی دوسرا بندہ آپ کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوڑ دے۔ خدا کا خوف کیجئے قوم کوفحش میٹریل سے دور رکھیے۔ ورنہ کل کلاں گھر گھر کی کہانیاں باہر آئیں گی۔چیئرمین پی ٹی آئی نے نہ جانے کتنی دفعہ اقرار کیا کہ وہ ایک گناہگار انسان ہیں اور یہ اقرار دل میں نہیں‘ کسی مسجد یا عبادت گاہ میں چپکے سے بیٹھ کر نہیں بلکہ سب کے سامنے کیااور جب وہ لوگوں کو گواہ بنا کر سر جھکا کر ان گناہوں کو تسلیم کر چکے تو پھر ان باتوں کو دہرانے سے کیا حاصل؟ سب کو یاد ہو گا کہ پانچ‘ سات برس ہوئے مرکز کے ایک وزیر داخلہ اور چیئرمین پی ٹی آئی کی مخالف سیا سی جماعت کے سربراہ نے جب خان کے کردار کو نشانہ بنایا تو اُس وقت بھی کھلے عام ایک جلسے میں کہا تھا کہ یہ دونوں بھی حلف دیں کہ انہوں نے بد کاریاں نہیں کیں‘ اس پر سب کو چپ لگ گئی ۔ دنیا کا وہ کون سا نشہ ہے جس کا الزام نہیں لگایا گیا اور یہ الزامات کسی عام ورکر کی جانب سے نہیں بلکہ کئی بڑے سیاسی لیڈروں نے اپنے بیانات میں لگائے ‘ لیکن آج چار ماہ ہونے کو ہیں اور جیل کے سیل میں بند ہونے کے با وجود ایک ایک منٹ کی وڈیو ریکارڈ ہو رہی ہے جس نے یہ تمام الزامات جھٹلا کر رکھ دیا ہے۔ ہدایت کار اور فلم ساز کے علا وہ رائٹر اور کوریو گرافر جس طرح چاہتے ہیں اداکاروں سے اداکاری کرواتے ہیں‘ ان سے ایسے ایسے کام لیتے ہیں جن کا عام زندگی میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا‘ لیکن چونکہ اپنا یہ فن دکھانے کیلئے انہیں ان کی منہ مانگی ادائیگیاں کی جاچکی ہوتی ہے ا س لئے انہیں جس قسم کا لباس وہ چاہتے ہیں‘ پہنا دیتے ہیں اور جوڈائیلاگ وہ لکھ کر ان کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں اس کی زبان سے اد اکرا دیے جاتے ہیں ۔
یہ صرف ربِ کائنات کی با برکت ذات ہی ہے جو ہمارے کرتوت چھپا کر رکھتی ہے‘ اگر وہ ذات انسانوں کی باتیں‘ حرکات اور ان کے گناہ سب کے سامنے رکھنا شروع کر دے تو ماں باپ کا اولاد سے اور بہن بھائیوں کا بہن بھائیوں سے پردہ ہی نہ رہے اور نہ ہی یہ رشتے قائم رہ سکیں۔ سیاسی مخالفین کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا‘ بیگم نصرت بھٹو کی کردار کشی کے لیے جلسوں جلوسوں اور اشتہارات کے علا وہ پریس کانفرنسوں میں ایسی ایسی زبان استعمال کی جاتی رہی کہ وہ کاغذ بھی شرما گئے جن پر وہ اخلاق باختہ جملے لکھوائے جاتے تھے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی خواتین کو بدنام اور رسوا کرنے کے لیے ہر وہ کوشش کی گئی اور ایسے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے کہ جن کے بارے میں سوچ کر ‘ دیکھ‘ پڑھ اور سن کر آج بھی گھن آتی ہے۔ قران پاک میں ارشادِباری تعالیٰ ہے '' جب تمہارے سب اعمال جو تم دنیا میں کرتے رہے ہو‘ ایک ایک کر کے کھول کر رکھ دیے جائیں گے اور تمہیں بتایا جائے گا کہ یہ ہے وہ قیامت کا دن‘ یہ ہے وہ یومِ حساب جس سے تم انکار کرتے رہے اور انسان کہے گاکہ اسے اﷲ! میں بھول گیا تھا‘ مجھے خبر نہ ہو سکی بس ایک دفعہ مجھے دنیا میں واپس بھیج دیجئے لیکن اس وقت اس کی کوئی بات نہیں سنی جائے گی‘‘۔
کون گناہگار ہے اور کون نیک وپارسا‘ اس کا فیصلہ میں نے یا آپ نے نہیں کرنا‘ یہ فیصلہ روزِ محشر کے مالک کے پاس ہے لیکن وہ شخص جو کروڑوں روپے ٹھکراتے ہوئے اس لیے بھارت میں انڈیا ٹو ڈے کے عالمی سیمینار میں شرکت کرنے سے انکار کر دیتا ہے کہ وہاں محبوبِ خدا‘ نبی آخری زمان محمد مصطفیﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والا سلمان رشدی ملعون شرکت کر رہا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس ملعون شخص کا چہرہ بھی دیکھے‘ باعثِ عزت تو وہ ہے۔اپنی ذاتی اور سیا سی لڑائیوں کو سیا ست تک محدود رکھئے ورنہ یاد رکھئے کہ قدرت کل کو ہر گھر کی کہانی کتابوں اور کاغذوں پر منتقل کرا سکتی ہے۔ اور یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہر گھر کی ایک کہانی ہوتی ہے‘ ہر گھر اور ہر فرد کے راز ہوتے ہیں جن کو رب کریم نے کمال مہربانی سے انسانوں کی رزیل سوچ سے چھپا کر بھاری پردوں میں چھپا رکھا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved