لبنان کے معروف مفکر و مصنف خلیل جبران نے لکھا ہے کہ جو پتھر بہت مضبوط ہوتا ہے اُس کے مقدر میں بنیاد کا حصہ بننا لکھا ہوتا ہے۔ یعنی ع
اُس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
بنیاد میں پڑ کر عرصۂ دراز تک عمارت کا بوجھ اٹھاتے رہنے سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ پتھر صرف مضبوط نہ ہو بلکہ اُس میں تھوڑی بہت چمک دمک یعنی دلکشی و دلآویزی بھی ہو۔ مضبوطی اور دلکشی کا اتصال ہوجائے تو پتھر کو ہیرا بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خلیل جبران کا بیان کردہ تصور اب کرکٹ میں بھی در آیا ہے۔ کرکٹ کے عالمی کپ میں آئی سی سی کے ایسوسی ایٹ ارکان کو دیکھ کر کبھی خوشی ہوتی ہے اور کبھی غم۔ خوشی اِس بات کی کہ کرکٹ فروغ پارہی ہے اور غم اِس بات کا بڑی ٹیمیں اِن چھوٹی اور کمزور ٹیموں کے خلاف رنز کے پہاڑ کھڑے کرکے اور ریکارڈز پر ریکارڈز بناکر وارم اپ کرتی آئی ہیں۔ گویا ع
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
عمومی بات یہ ہے کہ ورلڈ کپ جیسے ہائی پروفائل ایونٹ میں بھی بڑی ٹیمیں جب آپس میں شکست سے دوچار ہوتی ہیں تو تھوڑی بہت عزت پانے کے لیے چھوٹی ٹیموں کو ہراکر فخر سے سینہ پھلاتی ہیں۔ شکست کا جوڑا بنانے والی ٹیمیں کمزور ٹیموں کو چِت کرکے کامیابی کا سفر شروع کرتی ہیں۔ گویا چھوٹی ٹیمیں morale-booster کا کردار بہت عمدگی سے ادا کرتی ہیں۔ مگر خیر‘ اب معاملہ محض یکطرفہ نہیں رہا۔ بڑی ٹیمیں جن ٹیموں کو ہراکر لہو گرم رکھنے کا اہتمام کیا کرتی تھیں اب وہ بھی اپنا لہو گرمانے پر تُل گئی ہیں! اِس بار افغانستان نے کچھ ایسا ہی کر دکھایا ہے۔ عالمی کرکٹ میں انٹری دیے افغانستان کو زیادہ دن نہیں ہوئے مگر اُس نے کئی بڑی ٹیموں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ افغان کرکٹرز کھیل کو بہت تیزی سے سمجھ گئے ہیں۔ ورلڈ کپ کے منتظمین کوشش کرتے رہے ہیں کہ صرف بڑی ٹیمیں کوارٹر فائنل یا سیمی فائنل میں پہنچیں۔ افغانستان نے اس بار سیمی فائنل میں جگہ بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ اُس نے دفاعی چیمپئن انگلینڈ کو بھی پچھاڑا۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہ تھی! پاکستان کو ہرانے کے بعد افغانستان نے آسٹریلیا کو بھی ٹف ٹائم دیا۔ اگر میکسویل کا کیچ مجیب نے ڈراپ نہ کیا ہوتا تو شاید میچ کا نتیجہ مختلف ہوتا۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسی ٹیمیں اب افغانستان کی ٹیم کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہیں۔ افغانستان کے پاس سپنرز بھی اچھے ہیں۔ راشد خان اور محمد نبی کے بعد اب افغانستان کی ٹیم کو نور احمد اور مجیب جیسے معیاری سپنرز کی خدمات بھی میسر ہیں۔ ورلڈ کپ کی تاریخ میں کمزور ٹیمیں زیادہ خطرناک انداز سے کچھ کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہیں۔ ابتدائی پانچ ورلڈ کپ تو ایسے رہے کہ بڑی ٹیمیں ہی چھائی رہیں اور چھوٹی ٹیموں کے لیے کچھ زیادہ کر دکھانے کی گنجائش پیدا ہی نہ ہوسکی۔ البتہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کمزور سمجھی جانے والی ٹیم غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے اور شائقین یہ تماشا دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ٹیم (جو خاصی کمزور تھی) 2007ء کے ورلڈ کپ میں دوسرے مرحلے تک پہنچی تھی جبکہ پاکستان اور بھارت جیسی مضبوط ٹیمیں پہلے مرحلے کے تین میچ کھیل کر گھر لَوٹ آئی تھیں! یہ کوئی معمولی بات نہ تھی مگر چونکہ پورا ٹورنامنٹ ہی لو پروفائل تھا اور پاکستانی ٹیم کے کوچ باب وولمر کی موت نے اُداسی کی فضا پیدا کردی تھی اس لیے پاکستان اور بھارت جیسی ٹیموں کی شرمناک کارکردگی کا کسی نے زیادہ نوٹس نہیں لیا۔
اس بار افغانستان نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی کارکردگی مایوس کن رہی اور دونوں ٹیمیں اپنے شائقین کو بالکل خوش نہ کر پائیں تاہم دفاعی چیمپئن انگلینڈ کا جو حشر ہوا ہے وہ کرکٹ کھیلنے والے دیگر ممالک کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ بڑی ٹیموں کے ارکان سوچیں کہ محض نام سے کچھ نہیں ہوتا۔ ''پدرم سلطان بُود‘‘ کے نعرے کی مستی میں گم رہنے کے بجائے اُنہیں سوچنا ہوگا کہ اُن کی اپنی صلاحیت اور سکت کیا ہے۔ میدان میں جو دم خم دکھائے وہی کامیاب ہوتا ہے۔ سکندر اُسی کو مانا جائے گا جو جیت کر دِکھائے۔
انگلینڈ جیسی ٹیموں کے لیے یہ بہت سخت اور آزمائش کی گھڑی ہے۔ اِس بار تو ایسی ہزیمت ملی ہے کہ پوری ٹیم کی کلاس لی جائے گی۔ وہ زمانے ہوا ہوئے جب کسی چھوٹی ٹیم کو تھپڑ مارنے کے انداز سے ہرا دیا جاتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جہاں کسی بھی ٹیم کو ہلکا لیجیے وہ سَر پر سوار ہوجاتی ہے اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں بہت آسان میچ بھی ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ کسی بھی سمت جاسکتا ہے۔ رواں ورلڈ کپ میں ایسے کئی ''سوئنگنگ‘‘ میچ دکھائی دیے۔ چھوٹی ٹیم کو حلوہ سمجھ کر ڈکار جانے کی کوشش میں بڑی ٹیموں کے قدم ڈگمگا گئے۔ قصاب کی دکان پر آپ نے چھرے اور بُغدے کے ساتھ ساتھ ایک فولادی سلاخ بھی ضرور دیکھی ہوگی۔ یہ سلاخ چھرے اور بغدے کی دھار برقرار رکھنے کا کام کرتی ہے۔ قصاب گوشت کاٹنے اور ہڈی کے ٹکڑے کرنے سے قبل چھرے اور بغدے کو اِس فولادی سلاخ پر دو تین بار رگڑتا ہے۔ یہ گویا قصاب اور اُس کے اوزاروں کے لیے لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ یہی حال باکسرز کا ہے۔ وہ ریت کی بوریاں فضا میں معلق کرکے اُن پر گھونسے برساتے رہتے ہیں۔ اُن کی مشق یہی ہے کہ گھونسوں سے ریت کی بوری کو مارتے رہیں اور زورِ بازو میں اِضافہ کرتے رہیں۔ آئی سی سی کے ایسوسی ایٹ ارکان کو بڑی ٹیمیں چھرے اور بُغدے کی دھار تیز کرنے والی فولادی سلاخ اور زورِ بازو بڑھانے والی ریت کی بوری کی حیثیت سے استعمال کرتی آئی ہیں۔ مگر تا کجا؟ کبھی کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ گھونسے زور سے مار بیٹھیے تو ریت کی بوری دور جاتی ہے اور مارنے والے کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے اور بوری واپس آکر مشق کرنے والے ہی سے ٹکرا جاتی ہے! اب کچھ ایسا ہی ہوتا جارہا ہے۔ ریت کی بوریوں نے پلٹ کر باکسرز سے ٹکرانا شروع کردیا ہے! چھروں اور بغدوں کی دھار برقرار رکھنے کا فریضہ انجام دینے والی فولادی سلاخوں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے اور وہ خود بھی چھروں اور بغدوں کا کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہیں! اِس بار افغانستان کی ٹیم نے ثابت کیا ہے کہ وہ اب سلاخ نہیں، چھرا یا بغدا ہے اور یہ کہ اُسے ریت کی بوری سمجھ کر گھونسے برساتے وقت احتیاط برتی جائے کیونکہ وہ واپس آکر پوری طرح طاقت سے ٹکرا بھی سکتی ہے!
کرکٹ کی دنیا میں جو فقید المثال تیزی در آئی ہے اُس نے چھوٹی ٹیموں میں بھی کئی ماسٹر بلاسٹرز پیدا کردیے ہیں۔ کھیل کا مجموعی ماحول اور مزاج ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ سب تیزی سے رنز سکور کرنے کی ذہنیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ کمزور دکھائی دینے والی ٹیموں میں بھی دھواں دھار بیٹنگ کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ زمبابوے کی ٹیم میں برینڈن ٹیلر، آئر لینڈ کی ٹیم میں اوبرائن برادرز، ای سی جوائس، سٹرلنگ اور ولسن اور سکاٹ لینڈ کی ٹیم میں کیل کوٹزر اور بیرنگٹنن جیسے ماسٹر بلاسٹرز سامنے آئے تھے۔ افغانستان کی ٹیم میں اصغر استانکزئی، جاوید احمدی اور شہزاد کے بعد اب ابراہیم زردان اور دیگر ماسٹر بلاسٹرز سامنے آئے ہیں۔ یہ تمام ہٹرز کسی بھی باؤلر سے خیریت دریافت کر سکتے ہیں! وقت آگیا ہے کہ کسی کو ہلکا نہ کیا جائے اور سنجیدہ ہوکر کھیلا جائے۔ اِس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے کہ پہلی ایک صدی کے دوران محض چند ریاستوں تک محدود رہنے والا کھیل اب دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ کرکٹ کی مقبولیت کی راہ سب سے بڑی دیوار یہ حقیقت رہی ہے کہ دیگر کھیلوں کے مقابلے میں اِس میں وقت زیادہ لگتا ہے۔ بیس اوورز کا میچ بھی اچھا خاصا وقت لیتا ہے۔ پھر بھی دنیا بھر کی اقوام اِس کھیل کی نفاست، دلکشی اور منصوبہ سازی کے کردار کی قائل ہوتی جارہی ہیں۔ کرکٹ کی اصل خوبصورتی انفرادی کارکردگی اور ریکارڈز کے ٹوٹنے اور بننے میں مضمر ہے۔ کسی اور کھیل میں یہ بات ہے ہی نہیں۔ وقت کی اہمیت کو غیر معمولی اہمیت دینے والی اقوام بھی اب کرکٹ کو اہمیت دیتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہی اِس کھیل کی سب سے بڑی خصوصیت اور کامیابی ہے۔ کھیل کی مقبولیت میں اضافے سے اِس کی دلکشی مزید بڑھے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved