یہ بات اب تک واضح نہیں ہو سکی کہ سینیٹ میں نگران وفاقی وزیر خزانہ نے بھاشا اور مہمند ڈیم کے لیے اکٹھے کیے گئے فنڈز کے متعلق جو پالیسی بیان دیا ہے اس کی تحریک انہیں کس نے دی؛ البتہ سینیٹ میں ڈیم فنڈز کی سچائی کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے انہیں بتانا پڑا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی اپیل پر پاکستان اور پاکستان کے باہر سے بھیجا گیا ایک ایک روپیہ نہ تو کسی نے کھایا ہے اور نہ ہی اس میں ایک روپے کی ہیرا پھیری کی گئی ہے بلکہ جمع کیا جانے والا یہ تمام فنڈ اس وقت بھی حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہے۔ نگران وزیر خزانہ نے بتایا کہ یہ تاثر دینا کہ بھاشا اور مہمند ڈیمز کے لیے اکٹھا کیا گیا پیسہ فنڈ جمع کرنے والے کہیں لے گئے ہیں‘ قطعاً غلط ہے۔ ان کے اس بیان نے اس بیانیے سے ہوا نکال دی ہے جو گزشتہ پانچ‘ چھ سالوں سے ہمہ وقت قوم کی سماعتوں میں انڈیلا جا رہا تھا۔ مخالفین کا ایک ٹولہ اٹھتے بیٹھتے یہ گردان کیا کرتا تھا کہ عمران خان اور ثاقب نثار نے مہمند اور بھاشا ڈیم کے اربوں روپے ہڑپ کر لیے ہیں مگر اب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ سب الزامات جھوٹ کے پلندے تھے۔ عمران خان اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک کی بقا کے لازمی سمجھے جانے والے اور آئندہ نصف صدی تک آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جن ڈیمز کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا تھا‘ اس کے لیے جمع کیا جانے والا ایک ایک روپیہ نہ صرف موجود و محفوظ ہے بلکہ وزیر خزانہ کے بیان کے مطابق‘ اس فنڈ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
مہمند ڈیم کی تعمیر کا ایک مرحلہ ہم سب نے چند روز پہلے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا جب چیئرمین واپڈا نے مہمند ڈیم کا دورہ کیا اور پروجیکٹ کی مختلف سائٹس پر تعمیراتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ یہ ڈیم 2026ء میں مکمل ہو گا اور اس سے 800 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی جبکہ زیرِکاشت ایک لاکھ 60 ہزار ایکڑ اراضی کے لیے اس ڈیم سے اضافی پانی دستیاب ہو سکے گا اور پشاور کو روزانہ 300 ملین گیلن پینے کا پانی بھی فراہم ہو گا۔ پروجیکٹ حکام کی جانب سے چیئرمین واپڈا کو ڈائیورژن ٹنلز، سپل وے، پروجیکٹ کالونی اور سڑکوں کی تعمیر سے متعلق بھی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ ڈیم کی تعمیر ٹائم لائن کے مطابق جاری ہے۔ واپڈا کی دستاویزات کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند میں دریائے سوات پر بنائے جانے والے مہمند ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر مئی 2019ء میں کام شروع ہوا تھا اور اس وقت ڈیم کے 12 مقامات پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ امسال اپریل میں وفاقی سیکرٹری اقتصادی امور اور سعودی ترقیاتی فنڈ کے چیف ایگزیکٹو نے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے جس کے تحت ترقیاتی فنڈ پاکستان کو مہمند ڈیم منصوبے کی تعمیر کے لیے 24 کروڑ ڈالر کا قرض دے گا۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ مہمند ڈیم پروجیکٹ آبی اور غذائی سلامتی کو تقویت دینے کے علاوہ خیبر پختونخوا میں لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔ واپڈا حکام کے مطابق مہمند ڈیم پروجیکٹ کو سعودی ترقیاتی فنڈ، اوپیک، اسلامی ترقیاتی بینک اور کویت فنڈ برائے عرب معاشی ترقی کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے ۔ اب تک سامنے آنے والے حقائق نے سابق چیف جسٹس کی یہ بات درست ثابت کر دی ہے کہ یہ ڈیمز ہمارے ملک کیلئے گیم چینجر ثابت ہوں گے۔ اگرچہ اس کیلئے ابھی کچھ مزید انتظار کرنا ہو گا لیکن اس انتظار کے بعد جو خوشیاں اور آسانیاں پاکستان کو ملنے کی امید ہے‘ اس کا اندازہ ماہرین ابھی سے کرنے لگے ہیں۔
نگران وزیر خزانہ نے سینیٹ کو ڈیم فنڈ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جس دن سے بھاشا ڈیم کے لیے فنڈز جمع ہونا شروع ہوئے‘ اس دن سے لے کر جولائی 2023ء تک ڈیم فنڈ میں ''بابا رحمت‘‘ کی اپیل پر 11 ارب 46 کروڑ 69 لاکھ روپے جمع کرائے گئے اور اس رقم کو سرمایہ کاری کیلئے بروئے کار لایا گیا اور ان پانچ سالوں میں اس پر اب تک 6 ارب 29 کروڑ 59 لاکھ روپے منافع کی صورت میں اضافی رقم جمع ہو چکی ہے، یعنی کُل ملا کر اس وقت ڈیم فنڈ میں 17 ارب 86 کروڑ روپے سے زائد رقم موجود ہے۔ نگران وزیر خزانہ کی پیش کردہ تفصیلات کے مطابق ڈیم فنڈ کے لیے سٹیٹ بینک میں کھولے جانے والے اس اکائونٹ سے تاحال ایک روپیہ بھی نہیں نکالا گیا اور یہ رقم اسی طرح حکومت پاکستان کے پاس موجود ہے۔ وزیر خزانہ کا سینیٹ میں جمع کرایا جانے والا یہ تحریری جواب مخالفین کے اس پروپیگنڈے کا جواب ہے جو گزشتہ پانچ سال سے مسلسل کیا جا رہا ہے ۔
یہ تو ابھی کل کی ہی بات ہے کہ جب ایک وفاقی وزیر نے ایک پریس کانفرنس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ ان کی پوری پریس کانفرنس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ عمران خان نے ڈیم فنڈ کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن کی اور لاکھوں ڈالر اپنے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر لیے۔ ایک وفاقی وزیر کی جانب سے ان الزامات کے بعد ایک باقاعدہ کمپین شروع ہو گئی مگر اصل کہانی اس کے بعد اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ سال اگست میں چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں سب سے پہلے تو ایک رکن نے یہ درفطنی چھوڑی کہ ڈیم فنڈ سے متعلق اشتہارات پر 14 ارب خرچ ہوئے جبکہ فنڈ میں کل 9 ارب اکٹھے ہوئے، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ ڈیم سے متعلق جو بھی اشتہاری مہمات چلیں وہ میڈیا نے رضا کارانہ طور پر چلائیں اور اس حوالے سے فیصلہ اسی وقت ہو گیا تھا جب سپریم کورٹ نے ڈیم فنڈ کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔ یہی نہیں ‘ ڈیم فنڈ کے مخالفین نے امسال اپریل میں ایک وکیل کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی جس میں یہی دعویٰ دہرایا گیا کہ اب تک ڈیموں کے اشتہارات پر 13 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اس پر سٹیٹ بینک کے ترجمان نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا اور ان تمام دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ کے لیے لوگوں سے چندہ اکٹھا کرنے کی اپیل کے لیے اشتہارات پر صرف 10 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ یہ ساری کمپین دراصل اس وقت چلی تھی جب جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تھا‘ اس وقت ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے یہ بیان دیا تھا کہ ڈیم فنڈ کے لیے میڈیا نے ''13 ارب کے مفت‘‘ اشتہارات چلائے جس کی بنیاد پر ایک ہوّا کھڑا کر دیا گیا۔ بہرکیف‘ گزشتہ سال اگست میں پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ ڈیم فنڈ سے متعلق انکوائری ہونی چاہیے‘بس پھر کیا تھا‘ کسی رکن نے سابق چیف جسٹس کو متنازع قرار دیا تو کسی نے ان کے سٹے آرڈرز پر سوالات اٹھا دیے۔ آخرکار رجسٹرار سپریم کورٹ اور سابق چیف جسٹس کو کمیٹی کے روبرو طلب کیا گیا جبکہ سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے وارنٹ گرفتاری جاری کر کے وزارتِ داخلہ اور ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ ان کو کسی بھی ایئرپورٹ سے بیرونِ ملک نہ جانے دیا جائے۔ آج نگران وفاقی وزیر خزانہ نے سینیٹ میں جواب جمع کرا کے ڈیم فنڈ کے سارے بیانیے میں سے ہوا نکال دی ہے۔ اس گواہی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر وہ جنہوں نے اس بنیاد پر جھوٹ کی دیوار قائم کرنے کی کوشش کی‘ کیا وہ اپنے بیانات پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگیں گے؟ یقینا اللہ الحق ہے اور حق سامنے آ کر ہی رہتا ہے مگر وہ لوگ جو اٹھتے بیٹھتے کھا گئے‘ ڈیم فنڈ کھا گئے کے الزمات لگاتے رہے ہیں‘ نگران وزیر خزانہ کے سینیٹ میں تحریری طور پر جمع کرائے گئے جواب کے بعد وہ اتنی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کریں گے کہ جن پر الزامات لگائے گئے ان سے زبانی معافی ہی مانگ لیں؟
گوگا دانشور کا کہنا ہے کہ حکومت میں بیٹھے افراد سے زیادہ کس کو علم ہو سکتا تھا کہ فنڈ کے پیسے خرچ ہوئے یا نہیں‘ انہیں سب معلوم تھا کہ سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ میں کوئی ہیرا پھیری ہو ہی نہیں سکتی‘ انہیں چونکہ سابق چیف جسٹس سے اپنے خلاف فیصلوں کا بدلہ لینا تھا لہٰذا اسی وجہ سے پانی میں مدھانی چلائی جاتی رہی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved