ہم زندگی بھر سوچتے رہتے ہیں کہ کن باتوں میں ہمارے لیے نفع ہے اور کن میں خسارہ۔ یہ الجھن بے جا نہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اپنا اچھا بُرا اچھی طرح سمجھ لے تاکہ کسی بھی اعتبار سے خسارے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم سب ہر حال میں خسارے سے بچنا چاہتے ہیں۔ ہر طرح کی صورتِ حال میں ہماری خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، خسارے سے بچا جائے اور نفع کا گراف بلند کیا جائے۔
نفع بڑھانا اور خسارہ گھٹانا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہمیں اچھی طرح معلوم ہو کہ کن معاملات میں ہمارے لیے صرف نفع چھپا ہے اور کن میں صرف خسارہ۔ عام طور پر ہم سُود و زیاں کے معاملات کو صرف زر کے پیمانے سے ماپ اور تول رہے ہوتے ہیں۔ یہ پیمانہ چونکہ بہت زیادہ مستعمل ہے اِس لیے اِس کی طرف جھکاؤ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ زر ہاتھ سے گیا تو نقصان اور زر ہاتھ آیا تو فائدہ۔ سُود و زیاں کا یہ معیار چونکہ زمانے کا مقرر کردہ ہے اِس لیے سبھی اِس کے اپنانے میں کچھ خاص الجھن محسوس نہیں کرتے۔ حد یہ ہے کہ معقول حد تک دانش کے حامل افراد بھی کبھی کبھی اِس طرف لڑھک جاتے ہیں۔
کبھی آپ نے حقیقی خسارے کے بارے میں پوری سنجیدگی سے سوچا ہے؟ حقیقی خسارے کا تصور ہر انسان کے نزدیک مختلف ہے۔ جو مذہب کی طرف واضح جھکاؤ رکھتا ہو اُس کے لیے خسارہ یہ ہے کہ ایمان سلامت نہ رہے، دنیا داری حواس پر طاری ہوجائے۔ مال و دولتِ دنیا اور رشتۂ و پیوند کو سب کچھ سمجھنے والے کے نزدیک حقیقی خسارہ یہ ہے کہ انسان کے پاس خوش حال زندگی بسر کرنے کے لیے مطلوب مادّی وسائل معقول یا کافی تناسب سے نہ ہوں۔ ضیاع و زیاں کا عمومی بنیادی تصور یہی تو ہے کہ انسان تہی دست ہو، آسائشوں کو ترسے۔ جو علم و فن سے شغف رکھتے ہیں اُن کے نزدیک حقیقی خسارہ یہ ہے کہ انسان عقلِ خام کا حامل ہو اور مذاقِ لطیف سے محروم۔ انتہائی نفیس طبیعت کے حامل ہر فرد کے نزدیک حقیقی خسارہ صرف یہ ہے کہ انسان پست ذہنیت کے ساتھ جیے اور مذاقِ سلیم پروان چڑھانے کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہو۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں روئے ارض پر جو زندگی عطا کی گئی ہے وہ وقت کے سوا کچھ نہیں۔ ہم سبھی کو اِس دنیا میں ایک خاص وقت تک رہنا ہے۔ جب ہماری سانسوں کا شمار مکمل ہوچُکتا ہے تب ہمیں رختِ سفر باندھ کر روانگی ڈالنا پڑتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی خسارہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وقت کا ضیاع روکا نہ جاسکے۔
ہم سب کو اس دنیا میں ایک خاص مدت کے لیے قیام کی اجازت دی گئی ہے۔ قدرت نے ہر انسان کے لیے دنیا میں قیام طے کر رکھا ہے۔ میعاد ختم ہونے پر مزید ایک پل بھی ٹھہرا نہیں جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے لیے سب سے بڑی دولت صرف اور صرف وقت ہے۔ ہمیں جتنی بھی فکر کرنی ہے، جتنا بھی پریشان ہونا ہے صرف وقت ہی کے لیے ہونا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے! ہمیں احساس ہو یا نہ ہو‘ ہماری تمام پریشانیوں کی جڑ میں وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ یہی اصل زیاں ہے۔ انسان زندگی بھر محنت کرتا ہے، اپنی قابلیت، مہارت اور سکت کی بنیاد پر بہت کماتا ہے اور خرچ بھی کرتا ہے۔ جو کچھ خرچ کردیا جاتا ہے اُس کے بدلے مزید بہت کچھ آ جاتا ہے۔ دولت چاہے جتنی بھی لٹائی جائے، اُس کے دوبارہ حصول کا امکان برقرار رہتا ہے۔ انسان لاکھوں، کروڑوں روپے ضائع کرنے کے بعد بھی اِتنی ہی دولت پھر کمانے یا حاصل کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے، منصوبہ سازی کرسکتا ہے۔ انسان کسی بھی چیز سے محروم ہونے کے بعد اُسے دوبارہ حاصل یا بحال کرسکتا ہے۔ صحت کے معاملے میں بھی‘ ایک خاص حد تک‘ ایسا ہوسکتا ہے۔ لے دے کر صرف وقت ہے جس کا گراف بلند نہیں کیا جاسکتا۔ ہر انسان کو روئے ارض پر جینے کے لیے جتنا بھی وقت عطا کیا گیا ہے اُس میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ کوئی کتنا ہی زور لگالے‘ قدرت کی طرف سے عطا کردہ میعادِ ہستی میں واقع ہونے والی کمی روک سکتا ہے نہ ہی اس میں اضافہ کرسکتا ہے۔ انسان کے پاس جو چیز کم ہوتی ہے اُس کے حوالے سے وہ حساس ہوتا ہے اور ہونا ہی چاہیے۔ لوگ دولت کے استعمال میں بھی تھوڑی بہت احتیاط ضرور برتتے ہیں۔ بہت سوں کو آپ دیکھیں گے کہ صحت کی خرابی سے بچنے سے بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ وہ کھانے پینے کا بہت خیال رکھتے ہیں اور ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بھی گریز کرتے ہیں جن سے بیمار یا زخمی ہونے کا خطرہ لاحق ہو۔ انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ صحت کو عمر کی ایک خاص حد تک بحال کیا جاسکتا ہے۔ ڈھلتی ہوئی عمر تک تو انسان بحالیٔ صحت کے مشن میں کامیاب رہتا ہے تاہم بڑھاپے میں وہ اس حوالے سے صرف خسارے کا شکار ہو رہتا ہے۔ وقت کا معاملہ تو اِس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے بلکہ ذہن کے لیے کوئی پیچیدگی اگر ہے تو صرف وقت ہی کے حوالے سے ہے۔ انسان کے تمام معاملات گھوم پھر کر وقت کی دہلیز تک پہنچتے ہیں۔
کسی بھی انسان کو اگر واقعی محتاط رہنے کا شوق ہے اور اپنے سُود و زیاں کی بہت زیادہ فکر لاحق ہے تو یہ سب کچھ وقت کے تناظر میں ہونا چاہیے۔ وقت ہی وہ دولت ہے جو ہاتھ سے جاتی رہتی ہے اور پلٹنے کا نام تک نہیں لیتی ۔ ایسے میں کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ وقت کے معاملے میں لاپروائی کا مرتکب ہو اور اپنے لیے حقیقی خسارے کی بنیاد رکھتا جائے مگر ہم جانتے ہیں انسان سب سے زیادہ لاپروائی وقت ہی کے معاملے میں برتنے کا شوقین دکھائی دیتا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ انسان وقت کے معاملے میں کماحقہٗ سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لیتا۔ وہ وقت کو اس قابل سمجھتا ہی نہیں کہ اُس کے بارے میں سنجیدہ ہوا جائے۔ عمومی سطح پر وقت یوں ضائع کیا جاتا ہے گویا قدرت کی طرف سے عطا کیا جانے والا وقت لامحدود ہو یا اپنے حصے کے وقت کی بیٹری کو ری چارج کیا جاسکتا ہو۔ انسان ہوش سنبھالنے سے مرتے دم تک وقت کو ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھتا رہتا ہے مگر پھر بھی اُس کا ضیاع روکنے کے معاملے میں واقعی سنجیدگی نہیں اپناتا۔ دنیا کا ہر معاملہ انسان کو سمجھا رہا ہوتا ہے کہ اور تو سبھی کچھ ضائع کیا جاسکتا ہے کیونکہ بحالی ممکن ہے مگر وقت کے معاملے میں ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوتا ہے۔ کیا واقعی ہمارے ہاں وقت کو سب کچھ سمجھنے کی ذہنیت پنپ سکی ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ وقت کی اہمیت کو کماحقہٗ سمجھنا یا محسوس کرنا ایسا معاملہ ہے کہ انسان کو حواس میں رہنے نہیں دیتا۔ جو وقت کی اصلیت اور اہمیت کو سمجھ لیتا ہے پھر ویسا نہیں رہتا جیسا وہ تب تک رہتا آیا ہوتا ہے۔ ہماری زندگی لمحہ لمحہ ختم ہوتی رہتی ہے۔ یہ عمل رُکے بغیر جاری رہتا ہے۔ ہم بالعموم اِس طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے۔
دانش اگر ہے تو صرف یہ کہ انسان وقت کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہو، اپنے ایک ایک پل کو کسی نہ کسی بہتری اور بھلائی کے لیے بروئے کار لائے تاکہ زندگی بامقصد گزرے۔ ہمیں مرتے دم تک وقت کے ممکنہ بہترین استعمال کے لیے کوشاں رہنا ہوتا ہے۔ دنیا میں قیام صرف ایک بار ہے۔ یہاں سے گئے تو پھر یہ دنیا ہاتھ نہیں آنے والی۔ اور یہ بھی مت بھولیے کہ یہاں ہم جو وقت گزار رہے ہیں اُس کا حساب بھی دینا ہے۔ جن کے دل میں آخرت کی جواب دہی کا احساس ہمہ وقت توانا رہتا ہے وہ وقت کا ضیاع روکنے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دانش اِس سے زیادہ کچھ نہیں کہ انسان اپنے حصے کے وقت کو ممکنہ بہترین طریق سے بروئے کار لاکر دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی منزل کو بھی آسان بنائے۔
بچوں کو سکول کے زمانے ہی سے وقت کی اہمیت کے بارے میں بتانا چاہیے۔ وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ اُن میں وقت سے بطریقِ احسن استفادہ کرنے کی ذہنیت بھی پروان چڑھانی چاہیے۔ جن بچوں کو وقت کے بارے میں ڈھنگ سے بہت کچھ بتایا گیا ہوتا ہے وہ بڑے ہوکر اپنی پسند کے شعبے میں بھی کامیاب رہتے ہیں اور سماجی تعلقات کی سطح پر بھی ناکام نہیں رہتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved