تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     29-11-2023

کچھ دانش کی کمی

ہم میں بہت خوبیاں ہوں گی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم زیرک لوگ نہیں۔ ہم سے مراد برصغیر کے مسلمان ہیں۔مسلمان سلطنتیں ہوئیں اورمسلم حکمرانی کا عروج مغلیہ بادشاہت کی صورت میں ہوا۔لیکن یہ بھی واضح ہے کہ صدیوں پر محیط حکمرانی کے باوجودہندوستان میں مسلمان اپنا کوئی مضبوط وجود نہ بناسکے۔مغل بادشاہت کے آخری عظیم بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات 1707ء میں ہوئی اور لگ بھگ تیس بتیس سال کے اندر مغلیہ بادشاہت اندر سے اتنی کھوکھلی ہوچکی تھی کہ نادرشاہ ایران سے حملہ آور ہوتے ہیں اور دہلی پر قا بض ہو جاتے ہیں۔دہلی میں قتلِ عام ہوتا ہے ‘ مغلیہ شہزادیاں ایرانی بادشاہ کے سامنے آتی ہیں اورجن پر نظرِ انتخاب پڑی وہ اُن کی ہوگئیں۔ہندوستان تب دنیا کا امیرترین ملک تھا اورنادرشاہ جتنی دولت سمیٹ سکتا تھا وہ اپنے ساتھ ایران لے گیا۔زوال کی یہ شروعات تھی اور اگلے پچاس سال میں مغلیہ دربارانگریزوں کے سامنے تقریباً سرنگوں ہوگیا۔آخری مغل بادشاہ تو انگریزوں کے وظیفہ خوار بن کے رہ گئے تھے۔
آپ تو کہیں گے یہ پرانی باتیں ہیں ‘ انہیں جانے دیجئے۔تواس صدی کی بات کر لیتے ہیں۔یہ جو ہم کہتے ہیں کہ بڑی قربانیوں کے بعد ہم نے یہ ملک حاصل کیا یہ حقائق سے روگردانی ہے۔برطانوی پارلیمنٹ کے وضع کردہ ایک قانون سے ہمارا ملک معرضِ وجود میں آیا۔ ہمارے پیشرو ؤں نے کوئی عسکری جدوجہد نہیں کی‘ پہاڑوں پر نہیں گئے‘ غلامی سے چھٹکارے کیلئے بندوقوں کا سہارا نہیں لیا۔مسلمان اشرافیہ بڑی پُرامن قسم کی تھی ‘ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ذہنیت اُس کی خاصی غلامانہ تھی۔التجا اور اپیلوں پر یقین رکھتے تھے۔ انگریزوں کے خلاف اُنہوں نے کوئی جدوجہد نہ کی۔ اُن کی فکر تو یہ تھی کہ ہم ہندو اکثریت کے نیچے کیسے جی پائیں گے۔ خودبزورشمشیر ہندوستان پر حکمرانی کرتے آئے تو وہ ٹھیک تھا۔ انگریزوں کی عطا کردہ جمہوریت کے تحت اکثریت کے غلبے سے ڈرنے لگے کیونکہ ہندوستان میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ انگریز کی حاکمیت ہمارے لئے قابلِ قبول تھی لیکن بالغ رائے دہی کے اصول سے سینوں میں گھبراہٹ پیدا ہونے لگی تھی۔ اسی لئے مسلمانانِ ہند کا مطالبہ تھا کہ ہمیں سیاسی ضمانتیں ملنی چاہئیں ‘ جداگانہ طرزِ انتخاب ہونا چاہئے جس سے ہمارا سیاسی تحفظ ہوسکے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن جب تقسیمِ ہند کا مطالبہ سامنے آیا تومسلمانانِ ہند یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ تقسیمِ ہند کا لازمی مطلب تقسیمِ پنجاب بھی ہوگا۔اور جب تقسیم کی چھری پنجاب کے دل کو چیرتی ہوئی گزری توہمیں سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ قتل و غارت تو بیشتر تب ہوئی تھی ‘ تقریباً ایک کروڑ پنجابی گھروں سے دربدر ہوئے اور اموات کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ ان واقعات کا پہلے سے ہم احاطہ نہ کرسکے۔ شاید اس لئے کہ دوراندیشی ہماری خوبیوں میں سے ایک نہیں ہے۔ پنجاب تو تقسیم ہوا اورکشمیر کابیشترحصہ بھی ہاتھ سے گیا۔اس کیلئے بھی ہم ذہنی طورپر تیار نہ تھے۔ نہ کشمیر کے قبضے کی کوئی حکمتِ عملی وضع کرسکے۔
چلیں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ پرانی باتیں ہیں‘ مردوں کو گڑھوں سے کیوں کھودا جائے ۔بجا ‘ جیسے بھی تھا ایک نئی مملکت معرضِ وجود میں آ چکی تھی ۔چیلنج یہ تھاکہ نئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے ۔لیکن یہ جو 76سالہ تاریخ ہے اس پر ہم کیا فخر کرسکتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ خان لیاقت علی خان چارسال تک وزیراعظم رہے۔ ہندوستان نے تو اپنا آئین بنا لیا‘ کیا چار سال کافی مدت نہ تھی کہ ہم بھی آئین سازی کرلیتے؟ آئین تو نہ بنا مقاصدِ مملکت بیان کرنے میں ہم مصروف رہے۔ مانا کہ ہندوستان کی مسلم اشرافیہ تابعدار ذہنیت رکھتی تھی لیکن اُن شروع کے سالوں میں کیا ضرورت تھی کہ ہم امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگ گئے؟ روس کے تب سربراہ جوزف سٹالن تھے اور وہ کوئی عام آدمی نہ تھے۔ اُن کی حکومت کی طرف سے دورے کی دعوت آئی‘ ہم نے قبول کرلی اورپھر روس جانے کی بجائے خان لیاقت علی خان واشنگٹن چلے گئے۔شروع میں لگتا تھا کہ ہم امریکہ کی دوستی حاصل کررہے ہیں‘ آج کے حالات دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم تابعداری کے راستے پر چل پڑے تھے۔
ان باتوں کو بھی چھوڑیئے‘ کچھ اجتماعی سوچ اور دانش مندی ہوتی تو1970ء کے انتخاب کے بعد جو بحران پیدا ہوا اُس پر ہم قابو پاسکتے تھے۔ کرنا بھی کیا تھا‘ انتخابات کے نتائج کو ماننا تھا۔ لیکن جیسے ہمارے بڑوں کیلئے 47ء سے پہلے ہندوستان میں جمہوری اصولوں کے تحت حکمرانی کا اصول ناقابلِ قبول تھا‘ 1970-71ء میں مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کی پارلیما نی اکثریت ناقابلِ قبول تھی۔اپنی اکثریت کے بل بوتے پر شیخ مجیب الرحمن وزیراعظم بن جاتے تو کیا ہوتا؟ لیکن نہیں‘ مقتدر طبقوں کو یہ ناقابلِ قبول تھا‘ اور ہمارے لیڈر ‘ جان سے پیارے ذوالفقارعلی بھٹو ‘کو یہ ناقابل ِقبول تھا۔تب کے حکمرانوں نے ملٹری آپریشن کرڈالا اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا اُنہیں گوارہ نہ تھا۔مشرقی پاکستان ہاتھ سے چلاگیا ‘وہاں ایک نیا ملک بن گیا ‘ لیکن کچھ سبق ہم نہ سیکھ سکے۔
1977ء میں بھٹو صاحب گھبرا نہ جاتے اورصاف الیکشن ہونے دیتے توقیاس یہی ہے کہ وہ الیکشن جیت جاتے۔ لیکن احتیاط کو وہ اس حد تک لے گئے کہ دھاندلی کا گمان ہونے لگا۔ خودبلامقابلہ منتخب ہو گئے‘ اُن کی دیکھا دیکھی چاروں چیف منسٹروں نے سوچا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں‘ اُنہوں نے بھی اپنے بلامقابلہ انتخاب کا اہتمام کیا‘ یعنی پرچیاں ڈلنے سے پہلے ہی انتخابات مشکوک ہو گئے۔ احتجاج اُٹھا توبھٹو صاحب بروقت فیصلے نہ کرسکے۔ بحران بڑھتا گیا‘ مذاکرات شروع ہوئے تواُن کو کھینچتے گئے۔ دورانِ مذاکرات مشرقِ وسطیٰ کے دورے پرچلے گئے۔ کئی اپوزیشن لیڈر بھٹو کے خون کے پیاسے تھے ‘ یہ بھٹو صاحب پر منحصر تھا کہ وہ بحران کو جلد ختم کریں لیکن اُنہوں نے ہروہ چیز کی جس سے شکوک بڑھتے گئے۔ اور پھر وہ ہوا جو ایسے موقعوں پر ہوتا ہے‘ اقتدار پر قبضہ اُنہوں نے کرلیا جو ایسا کرسکتے تھے۔
اور پھر جو آئے اُنہوں نے بھی قوم کو خوب مزہ چکھایا۔ چھاتی پر ہاتھ مارکر پہلے کہا کہ انتخابات نوے دن میں ہوں گے۔ نوے دن طول پکڑتے گئے توپھر کہا گیا کہ پہلے احتساب ضروری ہے۔ پھراچانک فرمان آیا کہ اسلامائزیشن ضروری ہے۔وہ نوے دن ساڑھے آٹھ سال پر محیط رہے۔بیچ میں تب کے جو سربراہ تھے جو بات بات پراسلام کا نام لیتے تھے وہ قوم کو افغانستان میں جہاد کرنے لے گئے۔ڈالر اور ریال آئے اور ایف سولہ طیارے ملے توہم نے سمجھا کہ دنیا میں ہم سے زیادہ سیانا کوئی نہیں۔جہاد کی تپش میں ہم اتنے آگے کو گئے کہ اپنا ملک برباد کرنے لگے۔افغانی آ گئے‘ کلاشنکوفوں سے ہم روشناس ہوئے‘ ہیروئن کا بھی ہم نے پہلی بارسنا۔ معاشرے میں اورٹی وی سکرین پر پارسائی کی باتیں کچھ زیادہ ہی ہونے لگیں۔ لبوں پر تو پارسائی آئی لیکن اندر سے ہم وہی تھے جو تھے ‘ اس تضاد کے نتیجے میں قومی مزاج پر منافقت کا رنگ مزید گہرا ہوتا گیا۔
مردِمومن کو بھی گئے ایک عرصہ بیت چکا ہے۔ پرانے قصو ں کو اگر بھلا بھی دیں تو آج کی صورتحال کیاتسلی بخش ہے؟ آج پھر ایک بحران میں قوم پھنسی ہوئی ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ یہ ملک آزادی کیلئے نہیں بحرانوں کیلئے پیدا ہوا تھا‘ ایک بحران تھمتا نہیں کہ دوسرا پیدا ہو جاتا ہے۔ آج بھی تصادم کی ایک صورتحال قوم پر مسلط ہے۔ آئین کے ساتھ پھر وہی ہورہا ہے جو پہلے بھی ہم کرتے رہے ہیں۔ قانون کی حکمرانی یہاں کیا ہونی ہے‘ وہی ہو رہا ہے جو مزاجِ یار میں آتا ہے۔ کہیں تو یہ صورتحال تبدیل ہو‘ ہمارے قومی مزاج میں کہیں سے تو کچھ دانائی آئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved