شعبہ کوئی بھی ہو‘ جسے بھرپور کامیابی یقینی بنانی ہو اُسے دو باتیں لازمی طور پر طے کرنا پڑیں گی۔ ایک طرف تو سیکھنے کا عمل جاری رکھنا پڑے گا اور دوسری طرف مشق و مشقت سے فرار کی ذہنیت کو ترک کرنا پڑے گا۔ عمومی سطح پر لوگ اِن دو معاملات میں سے کسی ایک میں غلطی کر بیٹھتے ہیں یعنی یا تو تن آسانی کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر خوش فہمی کا۔ خوش فہمی یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ سیکھ لیا ہے بس وہی کافی ہے اور تن آسانی یہ ہے کہ مزید بہت کچھ سیکھنا لازم سہی؛ تاہم سیکھے کون‘ اور بھی بہت سی ترجیحات ہیں۔ جب انسان عملی زندگی میں یعنی معاشی جدوجہد کے لیے اپنائے جانے والے شعبے سے ہٹ کر کسی بھی چیز کو ترجیح دیتا ہے تب خرابیوں کو زندگی میں در آنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے میں بیشتر افراد غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ عمومی زندگی اور عملی زندگی کا فرق سمجھنے کا شعور کسی بھی انسان میں بہت سے عوامل مل کر پیدا کرتے ہیں۔ بچپن سے غیر محسوس تربیت کی جائے تو انسان بڑی عمر میں اس حوالے سے کم ہی غلطی کرتا ہے۔ کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے انسان کو بہت کچھ سوچنا اور کرنا ہی پڑتا ہے۔ فی زمانہ کسی بھی شعبے میں مثالی یا قابلِ ذکر نوعیت کی کامیابی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ دو چار دن کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ زندگی بھر کے تعلّم اور مشقّت کی بات ہے یعنی سیکھنا بھی بہت ہے اور اُس کی بنیاد پر مشق بھی بہت کرنی ہے۔
کیا محض سیکھنا کافی نہیں؟ یا محض مشق و مشقّت سے دال نہیں گل سکتی؟ حقیقت یہی ہے کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اس حوالے سے بچوں کو بہت کچھ بتایا جانا چاہیے تاکہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں تو ذہن میں کوئی بھی ایسی الجھن پیدا نہ ہو جو تمام یا بہت سے معاملات بگاڑنے کا باعث بنے۔ آپ نے جتنے بھی کامیاب افراد دیکھے ہیں اُن کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوگا کہ کامیابی کا حصول محض مشکل ہے جبکہ اُس کا برقرار رکھنا مشکل تر۔ کسی بھی شعبے میں مثالی نوعیت کی کامیابی انسان کے لیے کئی اعتبار سے چیلنج ہوتی ہے۔ یہ چیلنج قدم قدم پر قربانی مانگتا ہے۔ کامیابی کی راہ پر وہی گامزن رہ سکتا ہے جو قربانیاں دینے کے لیے تیار رہے۔
مختلف علوم و فنون کے ماہرین کے شب و روز کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہ مسلسل دیکھتے رہتے ہیں اور جو کچھ سیکھتے ہیں اُس کی مشق بھی خوب کرتے ہیں۔ سیکھنے کے لیے انگریزی میں لفظ learning استعمال ہوتا ہے جبکہ لفظ training مشق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی بھی فن کو سکھانے والے اداروں کے لیے بھی یہی لفظ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ انگریزی داں طبقہ جانتا ہے کہ یہ لفظ سیکھتے ہوئے کو دُہراتے رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یعنی اگر کوئی ٹیم میچ سے قبل مشق کر رہی ہو تو انگریزی میں کہا جائے گا کہ وہ ٹریننگ کر رہی ہے۔ سیکھنے اور مشق کرنے میں بہت فرق ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اپنے شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا بھی لازم ہے اور جو کچھ سیکھا جائے اُسے دُہراتے رہنا بھی ناگزیر ہے کیونکہ نہ دُہرانے کی صورت میں ہم بھول سکتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ہماری کارکردگی کا گراف گِر سکتا ہے۔
مشق ایسا عمل ہے جو انسان کو اپنے فن میں کامل کرتا ہے۔ کامیاب افراد کے شب و روز کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی زندگی میں اُن کے فن کے سِوا کچھ نہیں ہوتا۔ کامیاب وہی افراد ہوتے ہیں جو اپنے فن کو زندگی کے ہر پہلو پر محیط کرلیتے ہیں۔ اس معاملے میں نمایاں ترین مثال محمد رفیع مرحوم کی ہے۔ محمد رفیع برصغیر کے سب سے بڑے گلوکار تھے۔ اُنہوں نے فن کی پوری ورائٹی پیش کی۔ اُن کے تمام ہم عصر اُن کی صلاحیتوں کا لوہا مانتے اور اُن کی عظمت تسلیم کرتے تھے۔ محمد رفیع اپنے فن میں مکمل طور پر ڈوبے ہوئے تھے۔ اُن کے انٹرویوز کی دو تین آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگز ملتی ہیں۔ اُن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ بہت کم بولتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ اُنہیں روانی سے بولنے میں الجھن محسوس ہوتی تھی۔ وہ خاموش طبیعت کے آدمی تھے اور صرف فن پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ اُنہوں نے جو کچھ بھی سیکھا اُس کی مشق زندگی بھر جاری رکھی۔ وہ چونکہ انتہائی درجے کے پروفیشنل تھے اِس لیے ہر موسیقار کی تمام ہدایات پر سختی سے عمل کرتے تھے اور مطلوب نتائج دینے میں کسی بھی نوع کی غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑتے تھے۔ یہی معاملہ آنجہانی لتا منگیشکر کا بھی تھا۔ اُنہوں نے بھی زندگی بھر اپنے فن سے بڑھ کر کسی بھی چیز‘ کسی بھی بات کو اہمیت نہیں دی۔ وہ مشق (ریاض) کے معاملے میں انتہائی اُصول پسند تھیں۔ علی الصباح بیدار ہوکر وہ ریاض کرتی تھیں اور دن چڑھنے پر ریکارڈنگ کے لیے پہنچتی تھیں تو پوری طرح تیار ہوتی تھیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ موسیقار نے جو نتائج چاہے ہوں وہ اُنہوں نے نہ دیے ہوں۔ وہ جب مائیکروفون کے سامنے کھڑی ہوتی تھیں تو اپنے آپ کو اپنی اسائنمنٹ میں کھپا دیتی تھیں۔
کرکٹرز بھی وہی کامیاب رہتے ہیں جو دن رات اپنے کھیل کے بارے میں سوچتے ہیں اور باقاعدگی سے نیٹ پریکٹس کرتے ہیں۔ بیٹرز درجنوں باؤلرز کا سامنا کرتے ہیں تاکہ باؤلنگ کی ورائٹیز سے اچھی طرح واقف ہوسکیں۔ اِسی طور باؤلرز خوب باؤلنگ کرکے اپنی لائن اور لینتھ دونوں پر کنٹرول مضبوط بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ مشق میدان میں اُن کے لیے انتہائی معاون ثابت ہوتی ہے۔ بیٹرز اگر زیادہ نیٹ پریکٹس کریں تو اُن کا ہاتھ سیٹ ہو جاتا ہے اور گیند کی لائن اور لینتھ کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں گیند‘ بقول شخصے‘ فٹبال دکھائی دینے لگتی ہے۔
کسی بھی انسان کو اپنے شعبے میں ایسی مسلسل مشق یقینی بنانی چاہیے کہ چھوٹی سی گیند بھی فٹبال جیسی دکھائی دے۔ ایسی کیفیت میں کام کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایسا عام طور پر ہوتا نہیں۔ لوگ اپنے شعبے میں مثالی نوعیت کی کامیابی چاہتے تو ہیں مگر اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتے یعنی اپنے آپ کو اپنے فن میں کھپاتے نہیں۔ بعض کا یہ معاملہ ہے کہ اگر اچھی خاصی محنتِ شاقّہ کے نتیجے میں خاصی نمایاں کامیابی یقینی بنا بھی لیں تو پھر اُسے برقرار رکھنے پر متوجہ نہیں ہوتے اور کامیابی کے نشے میں چُور ہوکر بھول جاتے ہیں کہ اُسے برقرار رکھنے کے لیے مزید محنت بھی کرنی ہے اور حقیقی محنت تو کامیابی ملنے ہی پر شروع ہوتی ہے۔
آج نئی نسل کو یہ سمجھانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ اب ہر شعبہ دونوں اعتبار سے غیر معمولی محنت مانگتا ہے۔ ایک طرف تو کامیابی یقینی بنانے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے اور پھر اُسے برقرار رکھنے پر بھی دن رات ایک کرنا پڑتے ہیں۔ فن کی دنیا اب انسان کو نچوڑ لیتی ہے۔ میدان کھیل کا ہو یا علم کا، بات ہنر کی ہو یا کاروبار کی‘ ہر معاملے میں اپنے آپ کو نچوڑنے ہی پر انسان کو کچھ خاص مل پاتا ہے۔ ہر دور میں انسان کے لیے مثالی کامیابی یقینی بنانا دشوار تھا؛ تاہم اب معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ مسابقت شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ ہر شعبے میں تحقیق اور جدت کا بازار گرم ہے۔ جب کسی بھی شعبے میں کروڑوں افراد دن رات محنت کریں گے تو مسابقت کا بڑھنا ناگزیر ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز ہر کام کو پیچیدہ تر بناتی جارہی ہیں۔ علم و فن کے میدان میں الجھنیں زیادہ ہیں کیونکہ مسلسل سیکھنا بھی پڑتا ہے اور مشق کے ذریعے تیزی بھی بڑھانا پڑتی ہے۔
بچے سکول کے زمانے سے تعلّم و مشق کا ربط سیکھتے ہیں۔ کلاس روم میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اُسی کی بنیاد پر ہوم ورک دیا جاتا ہے۔ یوں وہ اپنا آموختہ مستحکم کرتے جاتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے بچوں کی تربیت اچھی کی گئی ہو تو عملی زندگی میں وہ کسی بھی پیچیدگی کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ عملی زندگی انسان سے متواتر اور بھرپور مشق کا تقاضا کرتی رہتی ہے۔ بچوں کو یہ تقاضا سمجھنے کے قابل بنانا والدین اور اساتذہ کا مشترکہ فرض ہے۔ اس معاملے میں تن آسانی کی گنجائش صفر کے مساوی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved