سموگ نے اس طرح لپیٹ میں لے رکھا ہے جیسے ایک سرمئی گدلا‘ ملگجا پلاسٹک کا غلاف آپ کے گرد لپیٹ دیا جائے۔ آپ ہاتھ پاؤں مارتے ہوں لیکن اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو۔ ان دنوں جوشؔ ملیح آبادی کے یہ شعر بہت یاد آتے رہے کہ یہی حسبِ حال ہیں:
بخارات و دود و دخان و غبار
ہوا پر مسلط‘ سروں پر سوار
بلا در بلا و بلا در بلا
رفیقو! رِندھا جا رہا ہے گلا
زمیں تیرگی تیرگی تیرگی
ارے روشنی! روشنی! روشنی!
لیکن اگر سموگ اور اس کی وجہ سے پھیلتی بیماریوں کو ایک طرف رکھ دیں تو سچ یہ ہے کہ یہ نسبتاً عافیت کے دن ہیں۔ بس کچھ دن۔ وہ عافیت کے دن جو گزشتہ کم از کم پانچ سات سال سے میسر نہیں آئے تھے۔ ایک تو اُترتی سردیوں کی دوپہروں اور شاموں میں شور اور ہنگامہ جو گرمیوں کے ساتھ ہی مسلط ہو جاتا ہے‘ بہت کم ہو چکا ہے۔ پنکھوں‘ ایئر کنڈیشنرز اور دیگر گھومتے پروں والا اعصاب شکن شور تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ گاڑیوں کے اندر بھی سکون ہے کہ ایئر کنڈیشنر چلانا نہیں پڑتا۔ ورنہ لاہور میں تو اب تقریباً سات آٹھ مہینے ایئر کنڈیشنر کی آواز برداشت کرنا مجبوری ہے۔ آج کل راتیں بھی پُرسکون ہیں۔ سڑکوں پر چیختی چنگھاڑتی ٹریفک کی آوازیں بھی کم ہو چکی ہیں۔ لوگ بھی گھروں سے کم کم نکل رہے ہیں اور آوارہ کتوں بلیوں کی آوازوں کو بھی کچھ قرار ہے۔ اس میں شہر کے مختلف علاقوں کا احوال اگرچہ الگ الگ ہے لیکن مجموعی طور پر راوی کافی چین لکھ رہا ہے۔
ان عافیت کے دنوں کا ایک رُخ کچھ اچھی خبریں بھی ہیں جنہیں ایک مدت سے دل ترس رہا تھا۔ سٹاک مارکیٹ نے کل ہی 61ہزار کی نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے اضافوں کے ساتھ یہ اضافہ ڈولتی بلکہ ڈوبتی معیشت کے لیے بہت بڑی خبر ہے۔ اور اس بات کی دلیل بھی کہ اگلے چند مہینوں کے لیے سرمایہ کار غیریقینی مستقبل نہیں دیکھ رہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے 180ملین ڈالر کی رقم پاکستان کے لیے منظور کی ہے جو پانی کی سپلائی اور کوڑے کرکٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہوگی۔ اسی طرح 250ملین ڈالر کی رقم پاور ٹرانسمیشن نظام کی بہتری کے لیے منظور کی گئی ہے۔ ڈالر کی پرواز جو بے مہار ہو چکی تھی‘ رک کر پہلے نیچے آئی اور اب 285سے 288کے بیچ اوپر نیچے سفر کر رہی ہے۔ وہ توقع کہ ڈالر 250روپے تک نیچے آجائے گا‘ ابھی پوری نہیں ہوئی لیکن کیا عجب کہ اگلے چند مہینے یہ کرشمہ بھی کر دکھائیں۔ لیکن کم از کم یہ ہوا ہے کہ کچھ ایسی اشیا کے نرخ نیچے آئے ہیں جنہوں نے ہوش اُڑا رکھے تھے۔ میرا تعلق نشر و اشاعت سے ہے اور اس کی ریڑھ کی ہڈی کاغذ ہے۔ ڈالر کی ہوش ربا پرواز نے کاغذ کو جس مہنگی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا‘ اس کا ذکر میں انہی کالموں میں کرتا رہا ہوں۔ اندازہ کیجیے کہ کتابی سائزکے 75گرام کے انڈونیشین کاغذ کی قیمت تیرہ ہزار روپے فی رِم سے بھی زیادہ ہو چکی تھی اور یہ مقامی ملوں کے لیے منافع کمانے کا ایک سنہرا موقع بن گیا تھا۔ انہوں نے بھی اسی گرامیج کے کاغذ کی قیمت لگ بھگ بارہ ہزار روپے کردی حالانکہ یہ معیار درآمدی کاغذ سے بدرجہا کم تھا۔ یہ تو بہتر ملوں کی بات ہے‘ جو بالکل تھکی ہوئی‘ چھوٹی ملیں ری سائیکل گودے یعنی پلپ سے کاغذ بنا رہی تھیں‘ انہوں نے ناجائز اضافوں کے ساتھ جو منافع کمایا وہ بھی ناقابلِ بیان ہے۔ اور ان تمام مقامی ملوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس تھا ہی نہیں۔ ان کے لیے جو چاہے کریں‘ جب چاہے کریں اور جتنا چاہے کریں ہی سرکاری پالیسی لگتی تھی۔ ان سب ملوں کو پتہ تھا کہ امپورٹڈ کاغذ ناقابلِ دسترس ہو چکا ہے اور اب انہی کا کاغذ خریدنا ایک مجبوری ہے۔ بڑے بڑے کارٹل اپنی من مانی کرتے رہے اور اس پہاڑ تلے وہ پستا آدمی رہا جس نے بالآخر وہ کاغذ استعمال کرنا تھا۔ یہ صورتحال ڈالر کی اڑان کے ساتھ ساتھ اوپر ہی اوپر جاتی رہی لیکن جب سے ڈالر کی پروز رُکی اور اندازہ ہوا کہ اب مزید اوپر نہیں جائے گا تو امپورٹڈ اور مقامی دونوں کاغذوں کی قیمتیں بھی نیچے آنے لگیں۔ اچھا خاصا فرق اب تک پڑ چکا ہے لیکن ابھی تک وہ قیمتیں بحال نہیں ہوئیں جو کم و بیش ایک سے ڈیڑھ سال پہلے تھیں۔ لیکن بہر حال امید بندھی ہے کہ مزید کمی ممکن ہو سکے گی۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ ہر شعبۂ زندگی میں یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ مارکیٹیں خالی ہیں اور ہر طرح کا کاروبار کرنے والے شکوہ کر رہے ہیں کہ خریدار نہیں ہے‘ تاہم اس صورتحال میں بھی سٹاک مارکیٹ اوپر جانے‘ معاشی صورتحال بہتر ہونے اور ڈالر کی قیمت مزید کم ہونے کی توقع سے کاروبارِ زندگی بھی بحال ہونے کی پوری توقع ہے۔ یہ بھی سن رہے ہیں کہ 2024ء میں مہنگائی خاصی حد تک کم ہونے کی توقع ہے۔ اگرچہ 2024ء بھی اب گھر کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن کیا یہ ہو بھی سکے گا۔ اور جب تک تریاق عراق سے آئے گا‘ مارگزیدہ زندہ بھی بچے گا یا نہیں۔
میں لیکن اگر ان دنوں کو عافیت کے دنوں میں شمار کر رہا ہوں تو اس کی اصل وجہ سیاسی ہنگاموں‘ سڑکوں پر سیاسی سرگرمیوں‘ جلسوں‘ جلوسوں پر ٹھنڈ پڑ جانا ہے۔ نہ کوئی ریلیاں نظر آتی ہیں جنہوں نے ایمبولنسوں کا راستہ روک رکھا ہو۔ نہ وہ دھرنے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا محال کر رکھا ہو۔ نہ کوئی سر عامِ مخالفوں کے لیے گالی گلوچ کرتا سنائی دیتا ہے۔ نہ کوئی گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ اے لوگو! اے اندھے بہرے بے عقل لوگو! میری بات سنو کہ میں ہی تم میں واحد دیکھتا‘ سنتا با شعور وجود ہوں۔ یہ سب اگر ہو بھی رہا ہے تو سوشل میڈیا پر یا پر نٹ میڈیا پر یا الیکٹرانک میڈیا پر۔ میں ایک مدت سے ٹی وی ٹاک شوز دیکھنا چھوڑ چکا ہوں۔ مجھے یہ ایک تماشے کے علاوہ کچھ نہیں لگتا۔ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کے راستے میں یہ شور ہنگامہ ہرگز نہیں۔ کبھی کبھی مجھے ان معاشروں اور ان ملکوں پر رشک آنے لگتا ہے جنہوں نے یا تو جمہوریت کے گدھے گھوڑے پالے ہی نہیں یا اگر پالے بھی تو انہیں ایک اصطبل میں رکھا جہاں ان کے رینکنے اور ہنہنانے کی آوازوں سے گھر کے سکون میں خلل نہ پڑے۔ یہ جو اترتی سردیوں کی خاموشی ہے‘ وہ سکون ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا۔ یہ بھی ہر سال ہمیں ملتا ہے لیکن اس سال جیسے یہ خاص تحفہ لے کر آیا ہو۔ اور وہ تحفہ سیاست سے اور سیاسی مسائل سے کچھ دن کی نجات ہے۔یہ سکون لیکن فروری تک ختم ہونے والا ہے۔ جیسے ہی انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا۔ یہ سب مصیبتیں اس بلی کی طرح گھر کے اندر گھومتی پھر رہی ہوں گی جسے گھر کا مالک بڑی محنت سے دور چھوڑ کر آیا تھا۔
ہم نے گزشتہ بیس‘ پچیس سال میں کیا کیا تماشے نہیں دیکھے۔ جلالِ بادشاہی بھی اور جمہوری تماشا بھی۔ ہر تماشا جب جاری تھا تو لگتا تھا کہ یہ ختم ہوگا ہی نہیں۔ لیکن جب ختم ہوا تو ایسے جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں کان لم یغنوا فیھا (جیسے یہ لوگ کبھی تھے ہی نہیں)۔ ہم نے سب دیکھا اور بھگتا۔ نہیں دیکھے تو عافیت کے دن۔ ایسا ہوگا تو نہیں اس لیے دعا مانگنا بھی عبث ہے لیکن اگلے سال نومبر میں پھر وہی تماشے دیکھنے کو ملیں گے جن میں برسر اقتدار اپنے کارنامے گنوا رہے ہوں گے‘ ان کے مخالفین انہیں نری کرپشن اور بد دیانتی قرار دے رہے ہوں گے۔ اس لیے اس نومبر کی آخری ساعتوں کا لطف لیجئے۔ اور ان کے دراز ہونے کی دعا کیجیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved