تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     10-10-2013

نیا ایران…؟

شہنشاہیت اور ملائیت کی دوا نتہاؤں میں ہچکولے کھاتی، ایران کی کشتی کیا اعتدال کے ساحل سے آ لگی ہے؟اقتدار کے افق پرحسن روحانی کا ظہور کیااس تبدیلی کی علامت ہے؟ اعتدال کی جھلک تو اب جناب خامنہ ای کے ارشادات میں بھی ہے۔میرا احساس ہے کہ یہ نمائشی ہے ۔اسے دوام نہیں۔مشرق وسطیٰ کی سیاست ایک تاریخی عمل کی تابع ہے۔یہ عمل اِس وقت کسی جو ہری تبدیلی کا پتا نہیں دے رہا۔تاہم تاریخ کے یہ کردار وقت کے جبر کا بھی شکار ہیں۔اس کی وجہ سے کہیں سستانے کو رک سکتے ہیں ،اپنا راستہ تبدیل نہیں کرسکتے۔تاریخ کا دھارا مو ڑنے کا موقع کبھی کبھی آتا ہے۔ اگر اسے گنوا دیا جائے تو پھر ممکن ہے کہ صدیوں ایسے کسی لمحے کا انتظار کر نا پڑے۔دوبارہ ایسی کسی ساعت کی آ مد تک،آپ اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے کہ وقت کے دھارے پر بہتے رہیں۔ حسن روحانی وہ شخصیت نہیں ہیں جو وقت کا دھارا تبدیل کر سکیں،آیت اللہ خمینیؒ البتہ تھے۔افسوس کہ 1979ء میں آنے والا یہ لمحہ گنوا دیا گیا۔ 1979ء میں جب ایران میں انقلاب آیا تو یہ دورِ جدید کی تاریخ کا سب سے اہم وا قعہ تھا‘ اہلِ اسلام کے لیے تو بطور ِ خاص۔ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست عربوں اور ایرانیوں کی آ ویزش سے عبارت ہے۔اس کا آ غاز اس وقت ہوا جب ایران کی عظیم الشان ریاست عربوں کے سامنے سرنگوں ہو ئی۔یہ اگرچہ اسلام کا غلبہ تھالیکن ایک نقطہ نظر کے تحت اسے عربوں کا غلبہ سمجھا گیا۔اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ایرانیوں میں وطن کی شناخت کم نہیں ہو نے پائی۔عربوں کے بارے میں بھی یہ رائے مو جود ہے کہ وہ عرب و عجم کی تقسیم سے اٹھ نہیں سکے۔ عہدِ رسالت سے جیسے جیسے دوری بڑھتی گئی،نسلی امتیازات نمایاں ہو نے لگے۔امویوں اور عباسیوں کی کشمکش کا تناظر بھی یہی تھا۔صفوی اقتدار سے پہلے ایران کی اکثریت مسلکی اعتبار سے سُنی تھی۔صفویوں نے شیعہ مسلک اختیار کیا اور یوں یہ ایران کی اکثریت کا مسلک ٹھہرا۔سیاسی تصادم نے اب ایک مذہبی صورت بھی اختیار کر لی اور یوں عالمِ عرب اور ایران کی تقسیم گہری ہو گئی۔ 1979ء میں جب ایران کا انقلاب آیاتو اسے عوام کی حد تک پورے عالمِ اسلام کی تائید میسر تھی۔خمینی صاحب کی جد وجہد کو دنیا نے حق بجانب سمجھا اور اس کی حمایت کی۔1960ء کی دہائی میں،پاکستان میںجماعت اسلامی کے ترجمان ماہنامے’’ترجمان القرآن‘‘ نے شہنشاہِ ایران کے خلاف اداریہ لکھا جس کی پاداش میں،اس رسالے پر پابندی لگا دی گئی۔’’ترجمان القرآن‘‘کی اَسی بیاسی سالہ تاریخ میں غالباًیہ واحد موقع ہے جب اس پر پابندی عائد کی گئی۔ جب انقلاب برپا ہوا تو ’لاشرقیہ لاغربیہ… اسلامیہ اسلامیہ‘ کانعرہ بلند ہوا۔یہ ایسا وقت تھا جب مذہب ایک غالب فکر تھااور اس کی بنیاد پر عرب و عجم کے فاصلے کم کیے جا سکتے تھے۔بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ایرانی انقلاب پر مسلکی رنگ غالب آتا گیا اور عرب کی بادشاہتوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ یہ انقلاب کسی جغرافی قید میں نہیں رہے گا۔ایرانی قیادت کی طرف سے بھی انقلاب کی منتقلی کی بات ہوئی تو اس سے کشیدگی بڑھنے لگی۔مشرقِ وسطیٰ میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی کی صدائے بازگشت ہے۔ اس صورت ِ حال کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔امریکا شہنشاہ ایران کا سرپرست تھا۔انقلابِ ایران کی قیادت کے ساتھ اس کا اختلاف فطری تھا۔امریکا اس کے لیے شیطانِ کبیر تھا۔امریکا نے ایران کو نیچا دکھانے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا سہارا لیا۔اس نے عراق کی پیٹھ ٹھونکی اورعرب بادشاہوں نے اپنی ساری طاقت صدام حسین کے سپرد کر دی۔ایرانی سخت جان ثابت ہوئے لیکن آٹھ سالہ جنگ نے ایران کو کمزور کر دیا۔ایک کمزور معیشت کے ساتھ اس نے مشرق ِ وسطیٰ کی سیاست کو بھی قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔حزب اللہ سے لے کر بحرین کی بغاوت تک،بہت سے واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کام وسائل کے بغیر تو نہیں ہو سکتا۔یہی کہانی باندازِ دیگر دہرائی جا رہی ہے۔امریکا اس خطے کی سیاست کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر ایران کے ساتھ محاذ آرا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اصل مسئلہ شام نہیں ایران ہے۔ایران کے لیے مو جود ہ تباہ حال معیشت کے ساتھ بہت مشکل ہے کہ اس محاذ آرائی کو طو ل دے سکے۔اسے اب معاشی اور سیاسی استحکام چاہیے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف ایرانی عوام کو مطمئن کیا جائے اور دوسری طرف عالمی قوتوں کی مخالفت میں کمی کی جائے۔ یہ کام احمدی نژاد نہیں حسن روحانی ہی کر سکتے ہیں۔ وہ قُم کے فارغ التحصیل ہیں اور اس کے ساتھ گلاسکو یونیورسٹی کی سند بھی رکھتے ہیں۔اعتدال ان کی شناخت ہے۔ خامنہ ای صاحب نے بھی ان کی تائید کر دی ہے۔ یوں اب دنیا ایران کا ایک نیا چہرہ دیکھ رہی ہے۔ایرانی صدر ’شیطانِ کبیر‘ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کر رہے ہیں۔ 1979ء کے انقلاب کے بعد ایرانی قیادت کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ مسلکی تنگ نائے سے باہر آتی اورعالمِ اسلام کے سوادِ اعظم کے ساتھ اپنا فاصلہ کم کرنے کی کوشش کر تی۔اس سے ممکن تھا کہ وہ تاریخی مخاصمت کم ہوتی جوایران اور عرب دنیا کے ساتھ جاری تھی۔یہ موقع گنوا دیا گیا۔بلکہ اب تو یوں محسوس ہو تا ہے کہ ایران کا انقلاب اس کو زندہ کرنے کا باعث بناہے۔اب یہ دشمنی اپنے عروج پر ہے اور امریکا بہت احمق ہوتا اگر اس سے فائدہ نہ اٹھا تا۔ہمیں معلوم ہے کہ وہ ایسا نہیں ہے ۔اس لیے امریکا کے سیاسی حلقوں میں ایران کے نئے چہرے کو شک کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔’ٹائم‘ کی تازہ اشاعت میں فرید زکریا کا مضمون اس سوچ کا اظہار کر رہا ہے۔ مجھے یہ محسوس ہو تا ہے کہ اس وقت ایران ایک چال چل رہا ہے اور جواباً امریکابھی۔عرب حکمران بھی ایران کو طاقت ور نہیں دیکھنا چاہتے۔یہ مفادات کی جنگ ہے اور اس میں وہی کامیاب ہو گا جو بہتر چال چل سکے گا۔ طاقت کے اس کھیل سے ہٹ کر، سوال یہ ہے کہ ایران کے لیے کیا بہتر ہے؟ ایک معتدل معاشرہ یا ساری دنیا سے بر سرِ جنگ ایک قوم؟تاریخی مخاصمت کی قید میں رہنے والا ایک ملک یا ایک مستقبل بین قوم؟اگر حسن روحانی ایران کو حقیقی معنوں میں ایک معتدل ملک بنا سکیں تو میرے خیال میں یہی ایران کے لیے بہتر راستہ ہے۔پچھلے تین عشروں میں ایران نے ایک انتہا پسندانہ موقف اختیار کیے رکھا جس کی اسے ایک قیمت دینا پڑی۔اگر ایرانی قیادت توسیعِ انقلاب و رسوخ کی خواہش پر قابو پاتے ہوئے اپنی ساری توانائی داخلی تعمیر پر لگا سکے اور امریکا ہی نہیں، عرب ملکوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات کی تجدید کر سکے تو اس سے ایران مضبوط ہوگا اور مشرقِ وسطیٰ میں سامراجی قوتوں کے اثرات بھی کم ہو ں گے۔ اگر روحانی صاحب ایرانی سماج کو نظری، مسلکی اور تہذیبی طور پرایک کھلا معاشرہ بنا سکیں تو اس سے ایران عالمی سیاست اور تہذیب کی صورت گری میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے مسلمان ملکوں میں جاری فرقہ وارانہ کشمکش میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہو گا، شاید ایران سے بھی زیادہ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved