پاکستان کا عدالتی نظام بے فیض ہے‘ ازکار رفتہ ہے‘ مفلوج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے عدالتی نظاموں کی درجہ بندی میں اسے 139ویں درجے میں دکھایا گیا ہے۔ یہ دو تین سال پہلے کا جائزہ ہے‘ ہمیں نہیں معلوم تازہ ترین درجہ بندی کیا ہے۔ پاکستان نے یہ نظام سابق استعماری حکومت برطانیہ سے ورثے میں پایا اور اسے گلے سے لگا رکھا ہے۔ ایک مثال سے اندازہ لگا لیجیے: گزشتہ عشرے میں ہم نے پاکستانی عدالتوں میں ''ازالۂ حیثیتِ عُرفی‘‘ کے کئی دعوے دائر ہوتے ہوئے دیکھے، لیکن کسی ایک دعوے کو بھی فیصلہ کُن مرحلے تک پہنچتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کے برعکس برطانیہ میں پاکستانی پس منظر رکھنے والے شہریوں نے برطانوی عدالتوں میں ''ازالۂ حیثیتِ عُرفی‘‘ کے دعوے دائر کیے اور دنیا نے اُنہیں فیصلہ کُن مرحلے تک پہنچتے ہوئے دیکھا۔ جھوٹا الزام لگانے والوں کو تاوان بھی دینا پڑا۔
آپ قانون کوئی بھی بنا لیں‘ جب تک ضابطۂ قانون حسبِ سابق ہے تو قانون بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہمارے ہاں ایک ضابطۂ فوجداری (Criminal Procedure Code) ہے اور ایک ضابطۂ دیوانی (Civil Procedure Code) ہے۔ انہیں ہم مخفف کر کے بالترتیب سی آر پی سی اور سی پی سی کہتے ہیں۔ یہ قانونی ضوابط دراصل سانپ سیڑھی کا کھیل ہیں اور کروڑوں روپے فیسیں لینے والے نامی گرامی وکلا کے ہاتھ میں اس کی ڈوریں ہوتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں: ایک مقدمہ چلتے چلتے ایسے مرحلے پر آتا ہے جب محسوس ہوتا ہے کہ چند دنوں میں فیصلہ آنے والا ہے کہ اچانک وہ ننانوے کے عدد پر سانپ کے منہ میں داخل ہو کر زیرو پر آ جاتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ منطق کی اصطلاح میں اسی کو ''تسلسل‘‘ یا ''دَور‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ ماتحت عدالتوں کو چلنے ہی نہیں دیتی۔ آئے دن سماعت موقوف کردی جاتی ہے،حکمِ امتناع جاری ہوجاتا ہے، ساری کارروائی کالعدم ہو جاتی ہے اور پھر نئے سرے سے شروع ہوتی ہے۔ اسی میں عمریں بیت جاتی ہیں اور لوگ تھک ہار کر عدالتوں کا رخ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مغرب میں عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کو ترجیح دیتی ہیں کہ فریقینِ مقدمہ عدالت سے باہر ہی اپنے معاملات طے کر لیں اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کو Arbitration یا ثالثی کہتے ہیں۔ ماہر وکلا کا کام لفظوں سے کھیلنا ہوتا ہے۔ ایسی ہی صورتِ حال کی بابت رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میں بشر ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو اور شاید تم میں سے ایک فریق دوسرے کے مقابلے میں حجت بازی میں زیادہ ماہر ہو اور میں اس کے دلائل سن کر اس کے حق میں فیصلہ دیدوں، تو میں نے اُس کے بھائی کے حق میں سے جس چیز کا اُس کے حق میں فیصلہ دیا ہے (اگر وہ درحقیقت اس کی نہیں ہے) تو وہ اُس چیز کو نہ لے، بلکہ (وہ سمجھ لے) کہ میں اُسے جہنم کی آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں‘‘۔ (بخاری: 7168)۔ رسول اللہﷺ کو تو اللہ تعالیٰ اشیا اور معاملات کی حقیقت پر مطلع فرماتا تھا‘ یہ بات آپﷺ نے تعلیمِ امت کے لیے ارشاد فرمائی کہ حجت بازی، مکر و فریب اور حیلے سے دوسرے کا حق لینا جائز نہیں ہے اور آخرت میں اس کی جواب دہی ہو گی۔ انہی قانونی ضوابط کا شاخسانہ ہے کہ ہمارا نظام فرسودہ ہے، جائدادوں پر ناجائز قبضے ہوتے ہیں اور انہیں قانون اور عدالت کی مدد سے چھڑانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ غالبؔ نے کہا ہے:
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کَن اسدؔ
سر گشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا
یہاں ''خمارِ رسوم و قیود‘‘ سے مراد آپ اپنے وطن عزیز کا ضابطۂ دیوانی اور ضابطۂ فوجداری لے سکتے ہیں۔ لیکن کبھی چرب زبانی اور حجت بازی الٹی پڑ جاتی ہے، اس کی بابت فارسی کا محاورہ ہے: ''عدُوّ شَرّے بر انگیزد کہ خیر مادراں باشد‘‘، یعنی ''دشمن شر برپا کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اُسی کے اندر سے ہمارے لیے خیر کی صورت مقدر فرما دیتا ہے‘‘۔ اس کی مثال پی ٹی آئی چیئرمین کا سائفر کیس ہے کہ اُن کے وکلا نے ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائرکی اور بعض قانونی نکات کا سہارا لے کرمقدمے کی ساری کارروائی کو کالعدم قرار دلوا دیا، اب یقینا از سرِ نو اس کا آغاز ہو گا۔ البتہ ہائیکورٹ نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے ٹرائل کے لیے جج کے تقرر اور کھلی سماعت کے تقاضے پورے کرنے پر جیل کے اندر سماعت کو بھی جائز قرار دیا۔ اس پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس سردار طارق مسعود نے پی ٹی آئی کے وکلا سے کہا: ''آپ لوگوں نے جس فنّی سقم کی بنیاد پر ہائیکورٹ سے ماتحت عدالت کی کارروائی کو کالعدم قرار دلوایا ہے، اس سے پراسیکیوشن ہی کو فائدہ ہوا، کیونکہ اگر آپ اس وقت یہ سوال نہ اٹھاتے تو اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے مرحلے پر اسے اپنے حق میں استعمال کر سکتے تھے، لیکن اب پراسیکیوشن نئے سرے سے انتہائی محتاط ہو کر اور پھونک پھونک کر قدم رکھے گا اور مقدمے کو قانونی ضوابط اور فنی پیچیدگیوں کے مطابق چلائے گا، پھر اس میں قابلِ گرفت چیزیں نہیں ملیں گی‘‘ ثاقب عظیم آبادی نے کہا ہے:
اے روشنیِ طبع، تو بر من بلا شدی
ذلّت نصیب ہوتی ہے، شہرت کبھی کبھی
مفہومی ترجمہ: ''شاعر اپنی غیر معمولی ذہانت کو مخاطَب کر کے کہتا ہے: تُو میرے لیے مصیبت بن گئی ہے، تیرے سبب مجھے شہرت تو کبھی کبھی ملتی ہے؛ البتہ میرے حصے میں ذلّت زیادہ آتی ہے‘‘۔ پس ذہانت بلاشبہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، لیکن موقع و محل کی مناسبت سے ذہانت کے استعمال کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے، الغرض ہم نے پی ٹی آئی کے نامی گرامی وکلا کو میرٹ پر مقدمہ لڑتے ہوئے کم دیکھا ہے، ان کی ترجیحات تاخیری حربے ہی رہے ہیں۔ عہدِ جاہلیت کا شاعر امرؤ القیس اپنے گھوڑے کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
مِکَرٍّ مِفَرٍّ مُقْبِلٍ مُدْبِرٍ مَعاً
کَجُلْمُوْدِ صَخْرٍ حَطّہُ السَّیْلُ مِنْ عَلٖ
تشریحی ترجمہ: ''میرا گھوڑا جنگ کے دوران موقع دیکھ کر آگے بڑھ کر حملہ کرتا ہے اور جنگی حکمت عملی کے تحت پیچھے بھی ہٹ جاتا ہے، یعنی وہ اتنا ذہین اور ہوشیار ہے کہ موقع کی مناسبت سے جنگی تدبیریں اختیار کرتا ہے، اُس کی مثال اُس بڑی چٹان کی سی ہے جسے سیلاب نے بلندی سے گرا دیا ہو‘‘۔ اس شعر میں امرؤ القیس کہنا چاہتا ہے: ''اُس کا گھوڑا اپنے شہسوار کے اشارے اور نیت کو سمجھتا ہے، وہ اپنی قوت اور ارادے کو مجتمع رکھتا ہے، حاضر دماغ رہتا ہے، جنگ کی ہولناکی سے وہ مخبوطُ الحواس نہیں ہوتا، وہ موقع کی مناسبت سے حکمتِ عملی اختیار کرتا ہے اور جب دشمن پر حملہ آور ہوتا ہے تو اُس کے حملے میں اتنی طاقت ہوتی ہے، جیسے تند و تیز سیلاب بھاری چٹان کو بلندی سے گرا دے اور جو چیز اُس کے نیچے آئے، اُسے ریزہ ریزہ کر دے، الغرض شاعر کے بقول: جنگی مہارت میں اس کا گھوڑا پتھر کی مضبوط چٹان کی طرح مستحکم ہوتا ہے‘‘۔ نوٹ: ہم نے امرؤ القیس کے شعر پر حرکات لگا دی ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا پر ایک وڈیو نظر سے گزری، اُس میں ایک صاحب اس شعرکو غلط سلط پڑھ رہے تھے اور اُن کا دعویٰ یہ تھا کہ اس شعر کو صحیح پڑھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، یہ انہی کا افتخار ہے۔
عربی کہاوت ہے: ''بدّو صحرا میں بکریاں چرا رہا تھا، اُسے اپنی خوراک کے لیے ایک بکری کو ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی، مگر چھری گم ہو گئی، اچانک بکری نے ریت میں کھر مارا اور نیچے سے چھری نکل آئی، پس بدو نے اللہ کا نام لے کر چھری اُس کی گردن پر چلادی، یعنی وہ خود اپنی موت کا سبب بن گئی، تو کبھی ضرورت سے زیادہ ہوشیاری اور چالاکی گلے پڑ جاتی ہے۔
اس سے ملتا جلتا واقعہ قرآنِ کریم میں مذکور ہے: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص قتل ہوا، اس کا بھتیجا مدّعی بن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور مطالبہ کیا کہ ہمارے قاتل کا پتا بتایا جائے، موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو‘‘ (البقرہ: 67)۔ اس پر بنی اسرائیل نے پیچیدگی پیدا کرنے کے لیے گائے کے تعیّن کی بابت کافی سوالات اٹھائے اور موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے رجوع کر کے ان کے ہر سوال کا جواب دیتے رہے، یہاں تک کہ وہ لاجواب ہوگئے اور کہا: ''اب آپ نے مکمل وضاحت کر دی ہے، سو انہوں نے گائے ذبح کر دی، حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے‘‘ (البقرہ: 71)۔ اس کے پس منظر کو قرآن نے ان کلمات میں بیان فرمایا: ''اور یاد کرو جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا، پھر تم اس کا الزام ایک دوسرے پر لگانے لگے اور جو تم چھپاتے تھے، اللہ نے اُسے ظاہرکرنا ہی تھا، پس ہم نے کہا: (ذبح شدہ) گائے کا ایک حصہ اس مقتول پر مارو، اللہ اسی طرح مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ تمہیں نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ جائو‘‘ (البقرہ: 72 تا 73)۔ الغرض ذبح شدہ گائے کا ایک حصہ مقتول کے جسم پر مارا تو وہ زندہ ہو گیا اور اس نے اپنے قاتل کا پتا بتا دیا۔ مفسرین نے لکھا ہے: قاتل اُس کا بھتیجا تھا اور جلد وراثت پانے کے شوق میں اُس نے اپنے چچا کو قتل کیا اور پھر مدّعی بن کر موسیٰ علیہ السلام کی عدالت میں جا پہنچا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُس کے جرم کو آشکار کر دیا۔ انہوں نے بھی اپنے جرم کو چھپانے کے لیے کمالِ ہوشیاری سے کام لیا تھا اورخود ہی قتل کر کے مدّعی بن بیٹھے اور آخرکار یہ ہوشیاری ان کے گلے پڑی، قاتل پکڑا گیا اور اس نے اپنے کیے کی سزا پائی۔
اپریل 2021ء میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا: ''فوج کو بدنام کرنے اور اس کی تضحیک کرنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے‘‘ چنانچہ ضابطۂ فوجداری میں ترمیم کر کے اس کی سزا دو سال قید اور پانچ لاکھ تک جرمانہ یا بیک وقت دونوں سزائیں دینے کا قانون منظور ہوا۔ اُس وقت کی اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی تھی، لیکن پی ٹی آئی نے اپنی اکثریت کے بل پر اسے منظور کر لیا اور آج وہ خود اس ایکٹ کی زد میں ہے۔ اب آپ کو وہ شعر جو ہم نے سطورِ بالا میں درج کیا ہے، سمجھ میں آ گیا ہو گا۔ کبھی آدمی دوسرے کے لیے گڑھا کھودتا ہے اور اللہ کی تقدیر سے آگے چل کروہ خود اس میں جا گرتا ہے، یہ بدنیتی کی سزا ہوتی ہے، لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے: ''ہم تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے‘‘۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved