اصل عربی لفظ ’’قُربان‘‘ ہے جس کے معنی ہیں :اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لئے عبادت کی نیت سے اس کی بارگاہ میں کوئی جانی یا مالی نذر اور صدقہ پیش کرنا ، اس لفظ کو ہم نے اردو میں بدل کر ’’قربانی‘‘ بنا دیا ، جیسے عربی کے لفظ ’’حَاجّ‘‘ کو ہم نے اردو میں ’’حاجی‘‘ بنا دیا۔ بطورِ خاص دس تا بارہ ذوالحجہ (یعنی عیدالاضحی کے دنوں میں)مسلمان حضرات ابراہیم واسماعیل وسیدنا محمد رّسول اللہ علیھم الصلوٰۃ والسلام کی سنت کے طور پر جانور کی جو قربانی پیش کرتے ہیں، اسے قرآن وحدیث کی اصطلاح میں ’’نُسُک، اُضْحِیہ اور ضَحِیَّہ‘‘کہا جاتاہے۔ ہردور میں اہلِ دانش یہ کہتے رہے ہیں کہ تین دنوں میں اتنی بڑی تعداد میں قربانی کے جانور وںکا ذبح کیاجانا غیردانش مندانہ‘ غیراقتصادی عمل اور وسائل کا ضیاع ہے، ایک مشورہ یہ بھی دیا جاتاہے کہ قربانی پر خرچ ہونے والے پیسے کو انسانی فلاح کے کاموں پر خرچ کردیا جائے۔ یہ سوچ عَقَلیّت(Intellectuality)پر مبنی ہے، جو ہر چیز کو مادّی نفع ونقصان کے معیار پر جانچتی ہے اور اسی پر کسی چیز کے رَدّوقبول کا فیصلہ صادر کرتی ہے ، جبکہ قربانی ایک اَمرِ تعبُّدی ہے اور اس کا مَدار معبودِ مطلق اﷲ عزّوجلّ کی طرف سے عطا کی ہوئی اُس ہدایت پر ہے، جو اس کے رسولِ مکرم ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: :’’ قربانی کے دنوں میں بنی آدم کا کوئی بھی نیک عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (عبادت کی نیت سے حلال جانورکا)خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے دن قربانی کا یہ جانوراپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں سمیت(یعنی پورے وجود کے ساتھ)حاضر ہوگا اور (قربانی کے جانورکا) خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کے درجے کو پا لیتاہے، (سو اے اہلِ ایمان!) خوش دلی سے قربانی کیا کرو،(سنن ترمذی :1493) ‘‘۔تاہم اگر محض مادّی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قربانی کے جانور کا گوشت اور کھال رُل رہی ہو اور کوئی اس کا طلب گار نہ ہو،بعض مقامات پر تو قربانی کی کھال بھی طاقت کے بَل پر حاصل کرنے کا رواج ہے ، یہاں تک کہ قربانی کے جانوروں کی چربی، اوجھڑیاں ، آنتیں ، سری ، اور مختلف اجزاء مختلف لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ جو لوگ قربانی نہیں کرتے انہوں نے قربانی کے مساوی رقم نکال کر کسی فلاحی ادارے کو دے دی ہو۔ قرآن مجید میں بھی اسی روحِ قربانی کو بیان کیاگیا ہے:(۱)’’اُن (قربانی کے جانوروں) کے خون اور ان کے گوشت اﷲ کے پاس ہرگز نہیں پہنچتے ، لیکن تمہارا تقویٰ اس کے پاس پہنچتاہے (جو اِس فعلِ قربانی کے پیچھے کار فرما ہوتاہے)،(الحج:37)‘‘۔ (۲)(اے رسول!) کہہ دیجئے ، بے شک میری نماز، میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اسی( پیغام توحیدکوپہنچانے ) کا حکم دیا گیا ہے اورمیں (خلق کے اعتبار سے) سب سے پہلا مسلمان ہوں ، (انعام:162-163)‘‘۔ قربانی کا مقصد گوشت پوست کا حصول نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ ماضی کی امتیں جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی نذر یا صدقہ یا قربانی پیش کرتیں، تو اسے کھلے میدان میں رکھ دیا جاتااور آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا ڈالتی اور یہ اُس کی قبولیت کی دلیل ہوتی، چنانچہ قرآن مجیدمیں یہود کے رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کا ذکر ان کلمات میں ارشاد ہوا:’’ جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں تاوقتیکہ وہ ہمارے سامنے (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) ایسی قربانی پیش کرے ، جسے (آسمانی) آگ کھا جائے ، (اے رسول !) کہہ دیجئے کہ مجھ سے پہلے تمہارے پاس کئی رسول روشن نشانیاں لے کر آئے اور (خاص طور پر) یہ نشانی بھی جس کا تم نے (مجھ سے) مطالبہ کیا ہے، تو اگر تم (اس مطالبے میں) سچے ہو تو تم نے ان رسولوں کو کیوں شہید کیا؟،(آل عمران:183)‘‘۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایک جانب تو اُن کے اس مطالبے کو محض ہٹ دھرمی اور حجّت بازی سے تعبیر فرمایا اور ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی بیان کیا کہ ماضی میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو نذر یا صدقہ یا قربانی پیش کی جاتی تھی ، آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا ڈالتی اور یہ اُس کی قبولیت کی دلیل ہوتی تھی ۔ قربانی کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ ، چنانچہ سورۂ مائدہ آیت نمبر:27میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی جانب سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنے اور ایک کی قربانی کے قبول ہونے اور دوسرے کی قربانی کے رد ہونے کا ذکر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ قبولیت کی علامت یہی تھی کہ آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا ڈالتی، اس طرح نتیجہ فوری نکل جاتا اور جس کی قربانی رد ہوتی وہ سرِ عام رسوا ہوجاتا۔ حدیث پاک میں ہے کہ ماضی کی امتوں کے لئے مالِ غنیمت سے فائدہ اٹھانا بھی حلال نہیں تھااور غنیمت کے مال کو بھی کھلے میدان میں رکھ دیا جاتااور آسمان سے آگ نازل ہوتی اور اسے جلا دیتی، یہ اس امر کی نشاندہی ہوتی کہ وہ مال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوگیا،(صحیح مسلم:4050)۔امام مسلم نے اس حدیث کے باب کا عنوان یہ قائم کیا ہے:’’اس امت کے لئے مالِ غنیمت کا خاص طور پر حلال ہونا‘‘۔اﷲتعالیٰ کا اس امت پر خصوصی کرم ہے کہ غنیمت اور قربانی کے اموال سے فائدہ اٹھانا اس کے لئے حلال کردیا اور پردہ پوشی فرما کر سرعام رسوا ہونے سے بچا لیا، ورنہ کون جانتا ہے کہ کسی کی پانچ ہزار روپے کی قربانی قبول ہوجاتی ہواور پچیس لاکھ روپے والے کی رد ہوجاتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیگر انبیائِ کرام پر اپنی فضیلت کی جو چھ وجوہ بیان فرمائیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ:’’میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کردیا گیا، جوکسی بھی نبی (کی امت) کے لئے مجھ سے پہلے حلال نہیں تھا،(صحیح مسلم:1166)‘‘۔ اگرچہ فقہی اعتبار سے قربانی کا جانور جتنا قیمتی ہوگا ،اُسی کے مطابق اجر بھی عطا ہوگا۔ لیکن آج کل قربانی میں نام ونمود کا عنصر سِرایت کرگیا ہے اور قربانی کے انتہائی قیمتی جانوروں کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر ہوتی ہے اور اس سے بعض لوگ اپنی شان وشوکت کا اظہار کرتے ہیں، یہ شِعار روحِ قربانی اور جذبۂ عبادت کے منافی ہے ۔ لہٰذا اعتدال سے کام لینا چاہئے ،کیونکہ آج کل غربت اور امارت کا تفاوت بڑھتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشی اعتبار سے ہمارے معاشرے نچلے طبقات میں مایوسی کے جذبات فروغ پارہے ہیں۔ اگر ہمارے ریاستی اور حکومتی نظام نے اس پر توجہ نہ دی تو کوئی بھی مہم جو عوام میں اشتعال پیدا کرکے نفرت کے جذبات کو ابھار سکتاہے، جبکہ ہم پہلے ہی داخلی اعتبار سے عدمِ استحکام، فساد وتخریب ، قتل وغارت اور دہشت گردی کا شکار ہیں، علامہ اقبال نے کہا تھا ؎ الحذر! اے چیرہ دستاں الحذر! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں ہمارا قومی مزاج یہ ہے کہ صورتِ عبادت کو تو اختیار کرلیتے ہیں، لیکن روحِ عبادت اور حقیقتِ عبادت سے کوسوں دور رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری عبادات کے روحانی ، سیاسی اور سماجی اثرات معاشرے میں رونما نہیں ہوتے۔ ہم نماز کے فضائل بیان کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ نماز نظم وضبط سکھاتی ہے ، لیکن آج ہم ایک منظم قوم کے بجائے منتشر ہجوم میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ افراد کے مابین ، افراد اور حکومت کے مابین حقوق وفرائض کا جو متوازن اور ذمّے دارانہ نظام ہونا چاہئے ، وہ ہم میں مفقود ہے، حتیٰ کہ تخریب وفساد کے ماحول سے نکلنے کے لئے بھی ہم یک سُونہیں ہیں ۔ ہماری حکومتی پالیسیاں حکمت وبصیرت اور تدبیر سے عاری نظر آتی ہیں ، ہم داخلی اورخارجی خطرات کاجرأت واستقامت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بجائے خوف کے عالم میں ہنگامی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں اور کوئی بھی خوفزدہ قوم کسی بھی داخلی یا خارجی محاذ پر فتح یاب اور سرخ رُو نہیں ہوسکتی۔ حالات ہم سے مختلف سطحوں پر قربانیوں اور ایثار کا تقاضا کرتے ہیں ، لیکن ہم نوشتۂ دیوار پڑھنے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے ہیں ۔ہم اقتدار سے باہر ہوں تو ہماری سوچ کا انداز کچھ اور ہوتاہے اور اقتدار کے’’ بیتُ الجِنّ ‘‘میں داخل ہوجائیں تو سوچ کے انداز بدل جاتے ہیں، پھر ہم حقائق وواقعات کو اقتدار کی عینک پہن کر دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور حالت یہ ہوجاتی ہے کہ ع تھا جو ناخوب‘ بتدریج وہی خوب ہُوا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved