معاملات کو اللہ پر چھوڑا تھا
اسی نے سرخرو کیا: نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''معاملات کو اللہ پر چھوڑا تھا‘ اسی نے سرخرو کیا‘‘جبکہ سارے کام قدرت کی مہربانی سے ہی آسان ہو رہے ہیں اور اس کی منشا کے بغیر ایک پتا تک نہیں ہل سکتا اور اس لیے سرخروئی بھی حاصل ہوئی۔ نیز کھوسہ صاحب کا بھی میں شکر گزار ہوں جنہوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ مجھے کلین چٹ مل جائے گا‘ اس لیے ان سے درخواست گزار ہوں کہ دیگر مقدمات کے حوالے سے بھی ایسی پیش گوئی کر دیں جبکہ وہ بھی جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ قدرت کی مرضی سے کہہ رہے ہیں اور ہم آئندہ بھی جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کیلئے بھی قدرت کے حکم اور اجازت کے منتظر ہیں۔ آپ اگلے روز ایون فیلڈ مقدمہ میں بریت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دسمبر کا گیس بل آئے گا تو لوگ
چلائیں گے: مفتاح اسماعیل
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ''دسمبر کا گیس بل آئے گا تو لوگ چلائیں گے‘‘ اور اس میں انہیں مشکل بھی پیش نہیں آئے گی کیونکہ آئے روز قیمتیں بڑھنے سے انہیں اس کی عادت پڑ چکی ہے جس سے گلے کی ورزش بھی ہو جاتی ہے بلکہ اگر چند روز کسی شے کی قیمت میں اضافے کے بغیر گزر جائیں تو وہ پریشان ہونے لگتے ہیں اور ان کے گلے آئوٹ آف پریکٹس ہو جاتے ہیں، اس لیے چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کے وقفے کو زیادہ طول نہیں دینا چاہئے کیونکہ عوام کی صحت کا خیال رکھنا حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے اور فلاحِ عامہ پر یقین رکھنے والی حکومتیں اس فرض سے کوتاہی کی مرتکب نہیں ہوا کرتیں کیونکہ ؎
جان ہے تو جہان ہے
آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
(ن) لیگ اپنے منشور میں نیب ختم
کرنے پر غور کر رہی ہے: عرفان صدیقی
مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما و سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ اپنے منشور میں نیب ختم کرنے پر غور کر رہی ہے‘‘ تاکہ عدالتوں کا قیمتی وقت بچ سکے کیونکہ کسی مقدمہ میں اگر سزا ہی نہیں ہوتی تو خواہ مخوا سب کا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے، جبکہ پہلے ہی عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ لاکھوں کیسز سماعت کے منتظر ہیں، اسکے ساتھ ہی یہ بھی تجویز کیا جائے گا کہ تفتیشی ٹیموں کو انعام و اکرام سے نوازا جائے جن کی شبانہ روز کی محنت اور کوشش سے مقدمات منطقی انجام کو نہیں پہنچتے اور درمیان میں ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ایک عرصے تک شرفا کی پکڑ دھکڑ جاری رہتی ہیں بلکہ مقدمات میں بری ہونے والوں کو باقاعدہ ہرجانہ ادا کیے جانے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
سائیڈ ایفیکٹ
ایک صاحب ویکسین کا ٹیکا لگوا کر گھر پہنچے تو ڈاکٹر کو فون کر کے کہا: ڈاکٹر صاحب ! فوراً ایمبولینس بھجوائیے!
ڈاکٹر کے وجہ پوچھنے پر موصوف بولے: ڈاکٹر صاحب انجکشن لگوانے کے بعد میری بینائی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ بہت دھندلا نظر آ رہا ہے۔
''اصل میں بات یہ ہے کہ آپ ہماری نرس کی عینک لگا کر چلے گئے ہیں‘ براہِ کرم وہ بھجوا دیں اور اپنی منگوا لیں‘‘۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
ترجیح
شوہر نے سٹپٹاتے ہوئے کہا: اب اس گھر میں مَیں رہوں گا یا مرغیاں۔ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف چل پڑا تو بیوی بولی:
''آخر اتنی تیز بارش میں آپ کہاں جائیں گے؟‘‘۔
انتظار
ایک صاحب بالائی منزل پر رہتے تھے، رات کو دیر سے گھر آتے اور سونے سے پہلے ایک ایک کر کے اپنے دونوں جوتے اتار کر زور زور سے فرش پر مار کر جھاڑتے۔ ایک دن نچلی منزل کے رہائشیوں نے ان سے اس بات کا شکوہ کیا کہ وہ ان کے آنے تک جاگتے رہتے ہیں اور جوتے اتارنے کی آواز آنے کے بعد سوتے ہیں‘ جس پر انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
اگلے روز واپس آ کر انہوں نے حسبِ معمول جوتا اتار کر زور سے فرش پر مارا تو انہیں یاد آیا کہ انہوں نے تو ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا؛ چنانچہ انہوں نے دوسرا جوتا اتار کر آرام سے نیچے رکھ دیا۔ صبح وہ نیچے اترے تو سب لوگوں کی آنکھیں سوجی ہوئی اور چہرے لٹکے ہوئے تھے‘ انہوں نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولے:
ہم رات سے اب تک آپ کے دوسرے جوتے کا انتظار کر رہے ہیں!
اور‘ اب آخر میں علی ارمان کی نظم:
ایاک نعبد وایاک نسعتین
ہماری بے بسی وہ غار ہے
جس کے دہانے پر پڑا پتھر نہیں ہِلتا
ہمیں تو اپنی جتنی نیکیاں بھی یاد تھیں گِنوا چکے
اب کیا کریں؟
اب تو ہمارے لب
مقدّس آیتوں کا وِرد کرتے کرتے پتھر ہو چلے ہیں
اور زباں پر آبلے پڑنے لگے ہیں ناامیدی کے
لہو میں موت کی خواہش کے نشے کی
گرہیں پڑنے لگی ہیں
اس اندھیری غار میں ہلکا سا روزن تھا
اسے بھی اب کسی بندوق کی نالی سے
بھر دینے کی کوشش ہو رہی ہے
کوئی رستہ نہیں ملتا
نگاہوں اور پاؤں کو
رہائی کا کوئی رستہ نہیں ملتا
ہوا اس بے بسی کے غار کے اندر
ہماری بے بہا اُلجھی ہوئی سانسوں سے باسی ہو چکی ہے
بہت گہری اداسی ہو چکی ہے
دعائیں تھک چکی ہیں
اور ہمارے زرد جسموں میں
ہماری آتمائیں تھک چکی ہیں
آج کا مقطع
ڈرتا ہوں پھر کہیں سے نکالیں نہ سر ظفرؔ
میں اس کو اپنے ساتھ ڈبونے کے باوجود
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved