پاکستان میں آج کل اچھی خبریں آنے کا سلسلہ جاری ہے؛ البتہ سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ اچھے وقت میں برے وقت بارے زیادہ فکر کی جائے تا کہ مستقبل میں پریشانی کا سامنا کم سے کم ہو۔ وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا‘ اسے بدلنا ہی ہوتا ہے۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ آپ اچھے وقت میں بھی کیڑے نکالتے رہتے ہیں‘ برے وقت میں تو آپ دو دھاری تلوار چلاتے ہیں‘ کبھی خوش بھی ہو لینے دیا کریں۔ میں کہتا ہوں کہ اچھے وقت میں برے وقت کی منصوبہ بندی کرنے میں بھی ایک خوشی اور اطمینان پنہاں ہے‘ آپ اس اپروچ کے ذریعے خوشی تلاش کریں‘ زیادہ فائدہ ہو گا۔
آج کل اچھی خبروں میں سٹاک ایکسچینج سرفہرست ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں بینچ مارک کے ایس ای100 انڈیکس 919 پوائنٹس اضافے کے بعد تاریخ میں پہلی بار 60 ہزار کی نفسیاتی حد بھی عبور کر گیا ہے۔ 100 انڈیکس 1.54 فیصد اضافے کے بعد 60 ہزار 730 پوائنٹس پر پہنچ گیاہے۔ اس کی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت دوسری قسط وصول ہونے کی توقعات، انتخابات کی تاریخ کا اعلان اور بیرونی ممالک کی سرمایہ کاری جیسی مثبت خبریں ہیں۔متحدہ عرب امارات کی جانب سے 25 ارب ڈالرز کے معاہدوں کی خبروں نے سٹاک ایکسچینج میں نئی روح پھونک دی ہے۔متحدہ عرب امارات 18 لاکھ پاکستانیوں کا گھر بھی ہے جو دونوں برادر ممالک کی ترقی، خوشحالی اور اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جلد دیگر ممالک کی جانب سے بھی سرمایہ کاری کی اچھی خبریں آ سکتی ہیں۔ 100 انڈیکس صرف 5 ماہ میں 50 فیصد اضافے سے 40 ہزار سے 60 ہزار پوائنٹس تک پہنچ گیا۔ یہ2004ء کے بعد سے 50 فیصد بڑھنے کی تیز رفتار سپیڈ ہے۔جب ویلیوایشن ناقابلِ یقین حد تک کم ہو تو ایسی بحالی حیران کن نہیں ہوتی۔ 24 نومبر کو 100 انڈیکس 59 ہزار کی نفسیاتی حد عبور کرنے کے بعد 187 پوائنٹس اضافے کے ساتھ بند ہوا تھا۔ قبل ازیں 3 نومبر کو صدرِ مملکت اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہونے کے بعد پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ساڑھے 6 سال بعد انڈیکس 53 ہزار پوائنٹس کی حد عبور کر گیا تھا۔ بینکنگ سیکٹر میں زیادہ دلچسپی دیکھی گئی کیونکہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔بینکس اچھے ڈیونڈز کی پیشکش کر رہے ہیں اور ان کی ویلیوایشن بھی متاثرکن ہے، روایتی طور پر یہ سیکٹر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پسندیدہ رہا ہے، ممکن ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار دوبارہ بینکنگ سیکٹر کے حصص خریدیں۔سٹاک ایکسچینج اب بہتر ہو رہی ہے اور ڈالر کی قدر بھی تقریباً مستحکم ہے۔
یہ معیشت کے لیے مثبت اشاریے ہیں لیکن پاکستان کے بڑا مسئلہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہے۔ پاکستان کو رواں مالی سال میں تقریباً 25 ارب ڈالر کے قرض ادا کرنا ہیں اور اگلے سال بھی لگ بھگ 28 ارب ڈالر تک کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ان قرضوں کی بروقت ادائیگی ایک بڑا چیلنج ہے۔پاکستان کے ذمے بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ملک کے معاشی منتظمین کے لیے ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہا ہے۔ پاکستان کو دو طرفہ اور کثیر جہتی ڈونرز کے ساتھ باہمی مشاورت کے ذریعے قرضوں کی تنظیمِ نو کی ضرورت ہے تاکہ انہیں پائیدار بنایا جا سکے۔ دوسری صورت میں حکومت کو اپنی آمدن کے ذرائع کئی گنا بڑھانا ہوں گے۔نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اس حوالے سے متعدد بار بتا چکی ہیں کہ معاشی حالت بدستور خراب ہے اور سب سے زیادہ تشویش کی بات ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کا حجم ہے۔ان کا مؤقف ہے کہ ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی معیشت کا حجم اس قدر نہیں کہ وہ ان قرضوں کی ادائیگی برداشت کر سکے۔نگراں وفاقی وزیرِ خزانہ نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک حالیہ تقریب سے خطاب میں اس بات کو دہرایا ہے کہ ملک کے آدھے سے زیادہ قرضوں کو فوری طور پر ری سٹرکچر نہیں کیا جا سکتا۔ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کا بڑا حصہ یعنی 44 فیصد کثیر جہتی ایجنسیوں جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک کا ہے اور اس قرض کی دوبارہ پروفائلنگ نہیں کی جا سکتی۔اسی طرح پاکستان کے ذمے کمرشل قرضہ بیرونی قرضوں کا 14 فیصد ہے اور اس کی دوبارہ پروفائلنگ بھی کافی مشکل ہے کیونکہ اس میں سٹیک ہولڈرز کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔
قرض ادائیگیوں کی صلاحیت معاشی صورتِ حال کا اندازہ لگانے میں ایک اہم عنصر سمجھی جاتی ہے۔جی ڈی پی کی نسبت قرضوں کا زیادہ تناسب ڈیفالٹ کے خدشات کو بڑھاتا ہے۔ اس تناسب کے بڑھنے سے سالانہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرض ادائیگیوں کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے جس سے پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پروگراموں سمیت دیگر اخراجات کے لیے رقم بہت کم رہ جاتی ہے۔پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں کا کل حجم رواں سال جون میں جی ڈی پی کے تناسب سے 68 فیصد سے زائد ہو چکا ہے۔ اس بارے میں قانون یہ ہے کہ یہ حجم 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے مگر گزشتہ پانچ برسوں سے یہ قانون کی طے کردہ حدود سے زیادہ رہا ہے۔سٹیٹ بینک کا تازہ ترین فسکل رسک اسٹیٹمنٹ اس کی بنیادی وجہ مسلسل مالی خسارے پر محیط بجٹس کو قرار دیتا ہے جو 2010ء سے جی ڈی پی کا اوسطاً 6 فیصد رہا ہے۔ اس وجہ سے بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ نہ صرف خسارے پر محیط بجٹ کے باعث ملکی قرض میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ شرحِ سود میں اضافہ اور دیگر کرنسیوں سے روپے کی شرحِ مبادلہ میں اضافے جیسے عوامل کی بنا پر بھی یہ بڑھ سکتا ہے ۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ کُل قومی قرضوں کا 41 فیصد ہے اور جاری کھاتوں کا خسارہ زیادہ ہونے، زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہونے اور شرحِ مبادلہ کمزور ہونے کی بنا پر حکومت کی مالی پوزیشن کمزور ہوجاتی ہے۔ ایسے میں بڑی بیرونی ادائیگیوں کے نتیجے میں لیکویڈیٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور شرحِ مبادلہ مزید غیر مستحکم ہوجاتی ہے۔ان حالات میں قرضوں کی ری شیڈولنگ سے کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ رواں سال دو مواقع پر چین نے قرضوں کو ری شیڈول کیا، چینی بینک سے 60 کروڑ ڈالر کا مزید قرضہ بھی ری شیڈول کرانے کے لیے بات چیت کا عمل جاری ہے جو اس سال کے آخر میں ادا کرنا ہے۔کورونا کی وبا کے دوران بھی ڈیبٹ سسپنشن انیشی ایٹو کے تحت 19 ممالک کے تقریباً 1.7 ارب ڈالر قرضے ری شیڈول ہوئے تھے۔ اب بھی ری شیڈولنگ کے سوا دوسرا راستہ نکالنا مشکل ہے؛تاہم اس حوالے سے ایک راستہ ضرور موجود ہے جو کٹھن اور دشوار ہونے کے ساتھ طویل اور صبر آزما بھی ہے۔اندرونی قرضہ‘ جو کل قرضوں کے حجم کا لگ بھگ60 فیصد ہے‘ کو کم کرنے کے لیے حکومت کو ٹیکس آمدن بڑھانا ہو گی اور ٹیکس اصلاحات کے بغیر اس میں اضافے کا کوئی امکان نہیں۔ شہریوں کو ٹیکس دینے پر قائل کرنے کیلئے حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی اور اس کیلئے غیر ضروری اخراجات گھٹا کر عوامی فلاح و بہبود پر پیسے خرچ کرنا ہوں گے۔
دوسری اہم چیز شرحِ سود میں کمی ہے۔ شرحِ سود ہی کسی ملک میں کاروبار کرنے کو ممکن بناتی ہے۔ شرحِ سود کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی کیا صورتِ حال ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی صورت میں آئی ایم ایف کی ہدایات پر شرحِ سود بڑھانا ضروری ہو جاتا ہے۔اس کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجوہات غیر دستاویزی معیشت اور رسد میں کمی ہیں جن کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے جبکہ طلب میں اضافے سے منسلک وجوہات محدود ہیں۔آج کل ملکی اقتصادی اداروں میں آئی ایم ایف نے ضرورت سے زیادہ مداخلت شروع کر دی ہے۔ ایف بی آر پر تو جیسے اسی کا قبضہ ہے؛ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ مفت کی کنسلٹنسی ہے، اسی وجہ سے ایف بی آر کی آمدن بڑھ رہی ہے۔ جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی مسائل کا شکار ہو سکتی ہے تو وہ چیک اینڈ بیلنس بڑھا دیتے ہیں۔ امید ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی رہنمائی میں قرضوں کی ادائیگی یا ری شیڈولنگ کا کوئی راستہ نکال لے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved