ہر طرف تبدیلیوں کے اَبر چھائے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ایسے میں علاقائی صورتِ حال کا بدلنا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز ہے نہ تشویشناک۔ جنوبی ایشیا میں معاشی الجھنیں بھی ہیں اور سٹریٹیجک مشکلات بھی۔ ایک طرف خطے کے ممالک کے بنیادی مسائل ہیں اور دوسری طرف بڑی طاقتوں کی کھینچا تانی۔ چین پنپ چکا ہے، بھارت پنپنے کے مختلف مراحل طے کر رہا ہے۔ ایسے میں خطے کے چھوٹے ممالک کے لیے بیلینسنگ ایکٹ انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ مختلف خطوں کے درمیان اشتراکِ عمل بھی بڑھ رہا ہے۔ خلیجی ریاستوں ہی کو لیجیے جو اب اپنی خارجہ پالیسی بھی بدل رہی ہیں اور معاشی ترجیحات میں بھی تبدیلی کی راہ پر گامزن ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے اپنے خطے سے ہٹ کر بھی سوچنا شروع کیا ہے جبکہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی حیرت انگیز حد تک تبدیل ہوچکی ہے۔ سعودی عرب معاشی معاملات کو غیر معمولی اہمیت دے رہا ہے۔ بیرونِ ملک سرمایہ کاری بھی میں سعودی باشندے کسی سے پیچھے نہیں۔ امریکہ اور یورپ کے بعد اب انہوں نے جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی سرمایہ کاری تیز کردی ہے۔ ایک بڑی اور گیم چینجر قسم کی تبدیلی یہ ہے کہ سعودی سرمایہ کار بھارت میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ بھارتی قیادت بیرونی سرمایہ کاروں کو موافق ماحول فراہم کر رہی ہے۔ حال ہی میں نئی دہلی میں منعقدہ G20 سربراہ اجلاس نے بھارت کا اکنامک پروفائل بہتر بنایا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے معاشی تعلقات بہتر بنانے پر گفت و شنید بھی کی۔ اِس کے نتیجے میں انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور (IMEC) کی راہ ہموار ہوئی۔ یہ منصوبہ بھارت کو مشرقِ وسطیٰ اور یورپ سے جوڑے گا۔ لطیفہ یہ ہے کہ اِس سے پاکستان کو دور رکھا گیا ہے جبکہ معاشی اور سٹریٹیجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس منصوبے سے الگ رکھ کر کامیابی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
بھارت کا علاقائی معیشت میں کردار کے لیے کھل کر سامنے آنا اور سعودیہ و خلیجی ریاستوں سے روابط بڑھانا پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے معاشی تعلقات بھی بہت اچھے رہے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ اُن کی بھیجی ہوئی رقوم یعنی ترسیلاتِ زر سے پاکستانی معاشرے کو معاشی الجھنیں دور کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملتی ہے۔ خلیجی ریاستوں میں پاکستان کو بھارتی، بنگلہ دیشی، سری لنکن، فلپائنی اور تھائی باشندوں سے غیر معمولی مسابقت کا سامنا ہے۔ ایسے میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستانی خزانے میں رکھوائے گئے تین ارب ڈالر کی میعاد میں ایک سال کی توسیع کردی ہے۔ معاشی تعلقات بہتر بنانے اور اُنہیں وسعت دینے کے لیے ہمیں سعودی قیادت سے کھل کر بات کرنا ہوگی، اُسے اعتماد میں لینا ہوگا تاکہ نئے چیلنجز کا ڈٹ کر سامنا کیا جاسکے۔ ریاض کا نئی دہلی کی طرف جھکنا اسلام آباد کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ اسلام آباد کے فیصلہ سازوں کو اس نازک موڑ پر بہت سوچ سمجھ کر سب کچھ طے کرنا ہے۔ پاکستان کو بہت بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے مگر اِس کی راہ ہموار نہیں ہو رہی۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان داخلی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ معاشی بحران نے ملک کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ کاروباری ادارے پریشان ہیں۔ صنعتکار الجھن کا شکار ہیں کہ کس طور اداروں کو چلاتے رہیں۔ چھوٹے، بڑے اور درمیانے‘ ہر طرح کے تاجر سمجھ نہیں پارہے کہ کاروباری ماحول کو بہتر کیونکر بنایا جائے۔ تنخواہ دار طبقہ چونکہ اپنی محنت کا پھل نہیں پارہا اِس لیے اُس میں بہتر کارکردگی کی لگن پائی ہی نہیں جاتی۔ نئی نسل بھی پریشان ہے کہ عملی زندگی کا آغاز کس طور کرے، ایسا کیا کرے جس سے بہتر زندگی کی راہ ہموار ہو۔ یہ سب کچھ ختم ہو تو بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے کچھ پُرکشش ماحول پیدا ہو۔ کوئی بھی بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری پر اُسی وقت آمادہ ہوسکتا ہے جب اُسے بہتر بنیادی ڈھانچا ملے، سیاسی استحکام نظر آرہا ہو اور سلامتی کا مسئلہ بھی درپیش نہ ہو۔ ہمارے ہاں بنیادی ڈھانچا جیسا کچھ ہے سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ برس بارشوں کے نتیجے میں ریل کا رابطہ منقطع ہو جانے سے پورے ملک میں کاروباری برادری مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ ایسی حالت میں کوئی بھی بیرونی سرمایہ کار ہمارے ہاں سرمایہ کیوں لگائے گا؟ بیرونی سرمایہ کاروں کو ایسا ماحول درکار ہوتا ہے جس میں اُنہیں کام شروع کرنے میں الجھن کا سامنا نہ ہو اور کام جاری رکھنا بھی آسان ہو۔ ہمارے ہاں بیورو کریٹک الجھنیں اضافی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے پُرکشش مواقع کم ہیں اور سُرخ فیتے کی لعنت بھی دم نہیں توڑ رہی۔ ایسے میں بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی فطری امر ہے۔
بھارت دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو بہترین ماحول فراہم کر رہا ہے۔ وہ ایک بڑی منڈی ہے۔ منڈی کی وسعت کا فائدہ اٹھاکر وہ اپنے آپ کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کو کمزور کر رہا ہے۔ تمام علاقائی ممالک کے لیے معاشی امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ایک اچھا آپشن یہی ہے کہ چین کی طرف جھکاؤ رکھا جائے۔ امریکہ اور یورپ کو ہم سے کتنی ''ہمدردی‘‘ ہے یہ تو ساری دنیا جانتی ہے۔ ایسے میں ہم چین کی طرف نہ جھکیں تو اور کیا کریں؟ چین بھی متذبذب ہے۔ چینی سرمایہ کاری والے منصوبوں پر حملوں نے ماحول خراب کیا۔ چینی باشندوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ایسے میں چینی قیادت بھی چاہتی ہے کہ پاکستان میں سلامتی کا مسئلہ احسن طریقے سے حل ہو۔ نئے چینی منصوبوں کا معاملہ تو کھٹائی میں پڑا ہی ہے، موجودہ منصوبوں کی توسیع مشکل دکھائی دے رہی۔ اِس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اِس موڑ پر فیصلہ سازوں کو تمام معاملات کا انتہائی سنجیدگی اور باریک بینی سے جائزہ لینا ہے۔ بھارت نے پورے خطے کو اپنی مٹھی میں لینے کا عمل شروع کردیا ہے۔ وہ بڑی منڈی ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہاں تعلیم و تربیت کا سیٹ اپ اچھا ہے اور بیرونِ ملک کام کرنے والے بھارتی باشندوں کی اکثریت سر جھکاکر کام کرنے کی عادی ہے۔ امریکہ، یورپ اور خلیجِ فارس کے خطوں میں بھارتی محنت کشوں اور نالج ورکرز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وہ کم اجرت بھی قبول کرلیتے ہیں اور کام بھی پوری دیانت اور جاں فشانی سے کرتے ہیں۔ افرادی قوت تیار کرنے کی بھارتی حکمتِ عملی بہت کارگر رہی ہے۔ مختلف شعبوں اور سطحوں کے 70 لاکھ سے زائد بھارتی مزدور، کاریگر اور نالج ورکرز دنیا بھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اِن سب کی بھیجی ہوئی رقوم سے قومی خزانہ مستحکم رہتا ہے۔ اعلیٰ معیار کی افرادی قوت تیار کرنے پر ہمیں بھی متوجہ ہونا ہے۔
پاکستان میں ایسے باصلاحیت نوجوانوں کی کمی نہیں جو تھوڑی سی تربیت پاکر دنیا بھر میں کہیں بھی اپنے آپ کو بخوبی منواسکتے ہیں۔ اچھا فنشنگ ٹچ لگ جائے تو ہماری نئی نسل قومی خزانے کو مستحکم کرنے کا اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ملک کم و بیش ڈیڑھ سال سے معاشی بحران کی زد میں ہے۔ یہ خصوصی کیفیت ہے۔ عمومی معاشی مشکلات تو برقرار ہی رہتی ہیں۔ ایسے میں قومی سطح پر بھرپور ترقی کا صرف خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ اہلِ سیاست سمیت کوئی بھی سٹیک ہولڈر اپنے حصے کا کام کرنے کے موڈ میں نہیں۔ سب چاہتے ہیں کہ پکی پکائی ہانڈی مل جائے تو مل کر چٹ کی جائے۔ ہانڈی پکانے کی زحمت گوارا کرنے والے خال خال ہیں۔ معیشت کی بحالی کے لیے قومی سطح پر جامع حکمتِ عملی ترتیب دینا لازم ہے۔ صوبائی حکومتوں کو بھی آن بورڈ لینا ہوگا۔ کلیدی کردار وفاق کو ادا کرنا ہے۔ سٹیک ہولڈرز کو اس مرحلے پر چھوٹے موٹے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے مل کر کام کرنا ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے پُرکشش ماحول پیدا کرنا ممکن ہوسکے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ایسے میں غلطی کی گنجائش برائے نام ہے۔ہمیں کھیل میں اپنی پوزیشن بحال کرنی ہے تاکہ کچھ نیا اور زیادہ کرسکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved