بات سمجھنے کی ہے ‘ انتخابات کی وجہ سے گھبراہٹ کیوں طاری تھی؟ اس لئے کہ نتائج کے بارے میں ڈر تھا۔ اس صورتحال میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی‘ بیشتر عوام وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے۔سپریم کورٹ نے بیشک کہا ہو کہ انتخابات ضروری ہیں اور الیکشن کمیشن نے تاریخ بھی دے دی‘ لیکن نتائج تو سپریم کورٹ نے نہیں دینے‘ نتائج تو پرچیوں سے ملنے ہیں اور پرچیوں کا خوف نہ صرف ذہنوں پر طاری ہے بلکہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ آئین حکمران ہوتا پھر تو اور بات تھی لیکن اس وقت آئین کی حکمرانی کی حقیقت کسی افسانے سے زیادہ نہیں‘ لہٰذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دلوں کے دھڑکن کی یہی کیفیت رہی توانتخابات پرسوالیہ نشان پڑا رہے گا۔
پاکستان کیلئے یہ کوئی نیا پرابلم نہیں۔ ضیا الحق کے سامنے بھی یہی مسئلہ تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کا تختہ اُلٹ تو گیا تھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر انتخابات کا اعلان بھی ہو گیا تھا کہ نوے دن میں ضرور ہوں گے لیکن جو تختہ اُلٹا تھا اُسی کا ڈر تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں پھر سے قائم نہ ہو جائے۔سکرپٹ تو یہ تھا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعدبھٹو کی مقبولیت پہلے کی طرح نہ رہے گی‘ لیکن جلد ہی واضح ہو گیا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعدمقبولیت کا گراف اوپر جاچکا ہے۔بھٹو مخالف پارٹیاں ڈر گئیں اورجن کے ہاتھوں میں اقتدار تھا اُن کے دل بھی لرزنے لگے کہ عوام کے ہاتھوں ووٹ ڈالنے کا موقع آیا توپتا نہیں کون سا طوفان برپا ہو جائے گا۔ اسی لئے عذر پیش کئے جانے لگے‘ پہلے آوازیں اُٹھیں کہ احتساب ہونا چاہئے اور پھر کہا گیا کہ نفاذِ اسلام بھی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں کون کون سے مذاق نہیں ہوئے ‘ یہ بھی ایک ایسا ہی مذاق تھا۔
ضیاالحق کے نوے دن طول پکڑتے گئے اورپھر اعلان ہوا کہ انتخابات اکتوبر 1979ء میں ہوں گے۔بھٹو صاحب کا معاملہ نمٹادیا گیا تھا اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ سیاسی پارٹیوں میں یہ امید بندھی کہ کیونکہ بڑا مسئلہ راستے سے ہٹ چکا ہے اس لئے اب انتخابات ہو جائیں گے۔اُس وقت کے فیورٹ ایئرمارشل اصغرخان تھے۔حکومتی پذیرائی اُنہیں مل رہی تھی اورایران کے دورہ پر بھی اُنہیں بھیجا گیاجہاں اُن کی ملاقات شاہِ ایران سے ہوئی۔ ایئرمارشل کی جماعت تحریکِ استقلال اتنی پرُامید تھی کہ وزیروں اور کابینہ کا چناؤ کرنے بیٹھ گئی۔سیاسی پنچھی اُس میں شامل ہو رہے تھے ۔ عین جب ایئرمارشل صاحب کی امیدیں آسمان تک پہنچ چکی تھیں تو 1979ء والے انتخابات ملتوی کر دیے گئے ۔اس بنا پر کہ پہلے نفاذِ اسلام یا اسلامائزیشن ضروری ہے۔98‘99فیصد آبادی اس ملک کی ہم مسلمانوں کی ہے لیکن 47ء سے لے کرآج تک پتا نہیں کتنے تجربات ہوئے ہیں ہمیں مزید مسلمان کرنے کے۔ ایئرمارشل اپنے ایبٹ آباد والے گھر میں نظربند ہوگئے اوراُن کی نظربندی پانچ سال تک رہی۔نفاذِ اسلام کے ضمن میں راولپنڈی کے ایک بدبخت ہوٹل پر پولیس کا چھاپہ پڑا ‘ کچھ مردوخواتین وہاں سے گرفتار ہوئے۔ مردوں کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلا‘کوڑوں کی سزائیں سنائی گئیں اور پھر بدبختوں کو برسرِ عام کوڑے لگائے گئے۔ نفاذِ اسلام پتا نہیں ہوا یا نہیں لیکن دہشت ضرور پھیلی۔کوڑوں کے مناظر پاکستان ٹیلی ویژن کی سکرین پر دیکھے گئے تو لوگ سہم کے بیٹھ گئے۔کسی نے اُف نہ کی۔ اخبارات پر سنسرشپ کا نفاذ ہوگیااورایک وقت ایسا بھی آیا کہ اشاعت سے پہلے اخبارات کے صفحات بغرضِ معائنہ متعلقہ حکام کے سامنے لائے جاتے اورناپسندیدہ تحریروں کو صفحات سے نکال لیا جاتا۔
انتخابات ملتوی ہوئے تو بھٹو مخالف جماعتوں نے سکھ کا سانس لیا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں انتخابات کے تصور سے لرز رہی ہیں۔معتوب جماعت کے لیڈر اندر ہیں یا رُوپوش ہیں لیکن پھر بھی انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور امیدواروں کا چناؤ کسی نہ کسی طریقے سے طے ہورہا ہے۔عوام سہمے اوردبکے ہوئے ہیں لیکن ختم نہیں ہوئے۔موقعے کے انتظار میں ہیں ۔ انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتا ہے اور کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کا وقت آتا ہے توگہما گہمی ایک دم بڑھنے لگے گی اور اعتراضات کے بعد حتمی لسٹیں جب سامنے آئیں گی اور ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آئے گا تو پھر حالات اپنی رفتار پکڑیں گے۔پی ڈی ایم کی جماعتیں بالخصوص (ن) لیگ کو اُس وقت کا ڈر ہے۔ (ن) لیگ میں سمجھدار لوگوں کی کمی نہیں اور یہ لوگ جنہوں نے اپنی سیاسی زندگیوں میں بہت اُتارچڑھاؤ دیکھے ہیں اُن کو صحیح حالات کا بخوبی علم ہے۔ ان میں سے کسی کو یہ خوش فہمی نہیں کہ(ن) لیگ پنجاب میں میدان مار جائے گی۔ ہاں ‘ وہ یہ جانتے ہیں کہ یکطرفہ انتخابات کی صورت میں جب معتوب جماعت کے ہاتھ پاؤں بندھے رہیں اوراُس کے امیدواروں کو کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے میں مشکل درپیش ہو تب تو انہیں شاید اقتدار مل جائے لیکن پرچیاں ڈالنے کی ذرا بھی آزادی ہوئی توان لوگوں سے بہتر کون جانے کہ پٹ کے رہ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کا سماں بن ہی نہیں رہا۔ معتوب جماعت تو مجبوریوں کا شکار ہے لیکن (ن) لیگ کس مجبوری میں گرفتار ہے؟ وہ تو کھل کے میدان میں آسکتی ہے۔ لیکن پرنٹنگ پریس بیچارے بیکار پڑے ہیں۔ پوسٹر نہیں چھپ رہے ‘ بینر آویزاں نہیں ہو رہے۔ کہنے کو تو الیکشن کا موسم ہے لیکن دیکھا جائے تو شہروں اور دیہات میں الیکشن کے حوالے سے ہُو کا عالم ہے۔
اوپر سے ادھراُدھر سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ ملکی صورتحال میں کچھ استحکام پیدا ہوچکا ہے‘ معیشت بھی سنبھلنے لگی ہے‘ باہر سے انویسٹمنٹ نہ بھی آ رہی ہو لیکن اُس کا چرچا بہت ہو رہا ہے۔ ایسے میں فنکار لوگوں کی کمی نہ ہوگی جو حکمرانوں کے کانوں میں یہ کھسرپھسر کریں کہ حضور اب تو حالات ٹھیک ہونے جا رہے ہیں اورآپ کو الیکشنوں کی پڑی ہوئی ہے۔انتخابات ہوئے توپھر سے ملک میں افراتفری پھیلے گی اور جن شرپسند عناصر سے سختی سے نمٹا گیا ہے اُن کو پھر فری ہینڈ مل جائے گا۔لہٰذا انتخابات کا تصورذہن سے نکالیں ‘ حالات صحیح طور پر سنبھلیں گے تو انتخابات بھی ہو جائیں گے۔ یعنی سوچ وہی پنپ رہی ہے جو ضیا الحق کے زمانے میں کار فرما تھی۔
(ن) لیگی راہنماؤں کو یہ بھی پتا ہے کہ اپنے انتخابی حلقوں میں بھی اُنہیں خطرات کا سامنا رہے گا۔کیا نام ہے اُس کینسر سے نجات پانے والی مریضہ کا؟ وہ جو کھڑی ہو گئی میاں نوازشریف کے حلقے میں توقائدِانقلاب براستہ لندن کو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ وہ جو کچھ خواتین لاہور میں گرفتار ہیں ‘ نام اُن کا کیا لینا‘ اُن میں سے کوئی فائر برانڈ قسم کی خاتون محترمہ مریم کے مقابلے میں کھڑی ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟اور وہ جو واسکٹوں والی سرکار ہے‘ یعنی حمزہ شہباز‘ اُن کے خلاف کسی معتوب جیالے نے کاغذ داخل کر دیے تو واسکٹو ں کی گنتی اُلٹی پڑ جائے گی۔
جو واقفانِ حال سمجھے جاتے ہیں جو تھکتے نہیں(ن) لیگ کا ڈھول پیٹنے سے‘ اُن پر بھی لرزہ طاری ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوئی صورتحال نہیں بن رہی۔نگران ہوں یا کوئی اور‘ سب کیلئے یہ مخمصہ ہے ۔ نارمل حالات ہوتے تو اور بات تھی لیکن پاکستان میں تو جنگ کی سی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں اپنے حریف کو کون موقع فراہم کرے گا کہ ہم پر سیاسی سبقت حاصل کرلے؟ضیا الحق کو ڈر تھا کہ بھٹو دوبارہ اقتدار میں آئے تواُن سے حساب لیا جائے گا۔جب جنگ جیسے حالات ہوں اور آئین کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہو توایسی سوچ ہی غالب آ جاتی ہے۔لہٰذا خدا خیر کرے ‘ ملک مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved