نہ تو میں کسی قلم کی تحریر ہوں اور نہ ہی میں کوئی مشیر ہوں‘ جو دل کو لگے اس کے قریب ہوں‘ بس یہ سمجھ لیجئے کہ زہر ہلاہل کا رقیب ہوں۔ شاعر سے انتہائی معذرت کے ساتھ میں نے یہاں وہ سب لکھنے کی کوشش کی ہے جو ان دنوں دیکھنے اور سننے میں آرہا ہے۔ آج کل جو حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں ان سے تو یہی لگ رہا ہے کہ بہت جلد ''گلیاں ہو جان گیاں سنجیاں تے وچ کلا مرزا یار پھرے گا‘‘ یعنی وہی ووٹر ہوں گے اور وہی الیکشن افسر۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی انتخابات کے حوالے سے سوال کرے تو ایسے لوگوں کو سرے سے ہی نظر انداز کر دینا چاہیے جنہیں سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔ کیا وہ یہ دیکھ نہیں پا رہے کہ ایک ایک کرکے تمام سواریاں شاندار اور آرام دہ گاڑیوں میں سوار ہو چکی ہیں۔ ان گاڑیوں کو راستے میں لُٹ جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں اور نہ سواریوں کو کرایہ دینا پڑے گا۔ جو چند ایک ابھی تک ان گاڑیوں میں سوار نہیں ہوئے‘ان کو بھی چناب‘ راوی یا جہلم کے کسی پل سے ساتھ بٹھا لیا جائے گا اور اس کے بعد وہ ہاکی اور فٹ بال کے پول گول کیپر سے خالی دیکھ کر جتنے چاہے گول کرتے جائیں‘ کیونکہ وہاں نہ تو کوئی ریفری اور نہ ہی گول کیپر ہوگا۔
الیکشن کون جیتے گا‘ اس سوال پر استحکامِ پاکستان پارٹی کے ایک ترجمان قہقہہ لگا کر بولے کہ آپ ابھی تک الیکشن پر ہی اٹکے ہوئے ہیں‘ ہم تو اب یہ فیصلے کر رہے ہیں کہ مرکز اور صوبے میں وزیر کس کس کو بنایا جائے۔ جہاں تک آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ انتخابات کون جیتے گا تو ہمارا یہ جواب سنبھال کر رکھ لیں کہ انتخابات میں وہی جیتے گا جو ان میں حصہ لے گا۔ یہ جواب سن کر میں نے ان کی طرف حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ جس پر کہنے لگے: اس کا مطلب یہی ہے کہ انتخابات میں وہی جیتے گا جو ان میں حصہ لے گا اور جو طاقتور ہو گا۔ قوتِ سماعت کم ہونے کی وجہ سے بات سمجھ نہ آئی تو میں نے مزید استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان انتخابات میں جیت اُسی کی ہو گی جس کے پاس عوام کے ووٹوں کی طاقت ہو گی؟ جس پر وہ قدرے اُکتائے ہوئے لہجے میں تیز آواز سے کہنے لگے کہ آپ کو میری بات سمجھ کیوں نہیں آتی‘ میں کہہ رہا ہوں کہ جو انتخابات میں حصہ لے گا‘ وہی جیتے گا۔ جب ہماری سوال و جواب کی یہ بحث طول پکڑ گئی تو پاس کھڑے ہوئے کچھ اور لوگ بھی ہمارے پاس آ گئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ مجھے تو لگتا ہے (ن) لیگ یہ انتخابات جیت جائے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ ان انتخابات میں امیدوار ہیں؟ وہ بولے نہیں۔ ان سے پوچھا کیا انتخابی مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے‘ کاغذاتِ نامزدگی کی تاریخ دے دی گئی ہے‘ کیا نواز شریف صاحب کی نا اہلی ختم ہو گئی ہے؟ جس پر وہ مسکراتے ہوئے بولے گو کہ اس وقت تک ہمارا کوئی انتخابی اتحاد نہیں ہوا اور نہ ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ مکمل ہوئی ہے لیکن اس پر کام جاری ہے۔ اب معاملہ بس پچیس‘ تیس نشستوں کا رہ گیا ہے ‘ جیسے ہی پنچایت کے بزرگ ان سے متعلق فیصلہ کر لیں گے‘ انتخابی عمل کی طرف جانے کے لیے کاغذاتِ نا مزدگی جمع کرانے کی تاریخ کا اعلان بھی ہو جائے گا۔ پاس کھڑے ہوئے ایک صاحب بولے کہ جو لیڈران انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے رہے وہ جیتیں گے کیسے؟ جس پر سبھی حیرت زدہ انداز میں انہیں گھورنے لگے۔دوسری طرف کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ 1980ء یا 90ء کی دہائی نہیں ہے کہ جب سب کچھ بہت آسانی سے ہو جاتا تھا‘ اب صورتحال مختلف ہے۔ اب نہ صرف عوام زیادہ باشعور ہو چکے ہیں بلکہ ذرائع ابلاغ بھی جدید ہو چکے ہیں۔ ادھر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے‘ اُدھر پوری دنیا میں اس کی خبر پھیل جاتی ہے۔
اس محفل میں موجود ایک پُر جوش اور نوجوان صحافی کہنے لگا کہ میڈیا میں ایک سیاستدان کے خلاف جو انٹرویوز اور بیانات چل رہے ہیں اور جس کی کئی اقساط ابھی باقی ہیں‘ کیا ان انٹرویوز اور بیانات کے بعد بھی کوئی اس سیاستدان کو ووٹ دے گا؟ یاد نہیں کہ 1996ء میں جب بی بی شہید کی حکومت ختم کی گئی تو اُس کے بعد ہونے والے انتخابات کے کیا نتائج نکلے تھے؟ کسی کے پاس بھی اس نوجوان صحافی کی اس دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نے اس نوجوان سے پوچھا کہ آپ نے ''جوناتھن ‘‘ کا نام سنا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں! اور جب میں نے انہیں بتایا کہ 1988ء میں جب مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور پنجاب میں میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے تو کہا جاتا ہے کہ اتفاق فاؤنڈری کے لیے سکریپ سے لدا ایک بحری جہاز کراچی بندرگاہ کی طرف آرہا تھا جسے آصف زرداری کے حکم پر کراچی پورٹ ٹرسٹ اتھارٹی کے حاکم نے بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ جس کے بعد ''انجمنِ محبانِ پاکستان‘‘ نامی ایک انجمن کی طرف سے روزانہ اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوتا تھا جس میں بتایا جاتا تھا کہ جوناتھن جہازکو سمندر میں رُکے آج اتنے دن ہو گئے ہیں اور اتفاق فاؤنڈری کو اتنے کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے۔ جوناتھن کو روکے جانے کا یہ اشتہار ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ تک مختلف اخبارات کے صفحۂ اول پر چھپتا رہا۔ کیا آج ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی یہ بتا سکتا ہے کہ 1989-90ء میں یہ اشتہارات دینے والی ''انجمنِ محبانِ پاکستان‘‘ اب کد ھر گئی اور وہ سکریپ سے لدا ہوا جوناتھن کہاں گیا تھا؟ کیا کوئی ایک شخص بھی ایسا ہے جو اس جوناتھن نامی جہاز کو آج کہیں سے ڈھونڈ کر لائے؟ جو یہ بتا سکے کہ انجمنِ محبانِ پاکستان کی طرف سے دیے گئے ان اشتہارات کی ادائیگی کہاں سے کی گئی ؟
اگر الیکشن کی بات کریں تو پنجاب میں اس وقت مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہے لیکن استحکام پاکستان پارٹی بھی سیٹیں نکالنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ سندھ میں (ن) لیگ اور جی ڈی اے کے اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کا پاکستان تحریک انصاف سے مقابلہ ہو گا جبکہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور باقی سب جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کی حتمی فہرستیں جاری کردی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق قومی اسمبلی کی کل جنرل نشستیں 266 ہیں‘ 10 سیٹیں غیر مسلموں کے لیے جب کہ 60 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں‘ اس طرح ایوان کی مجموعی نشستوں کی تعداد 336 بنتی ہے۔قومی اسمبلی میں بلوچستان کی کل 20 نشستیں ہیں جن میں 16 جنرل اور چار خواتین کی مخصوص نشستیں شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 45 جنرل نشستیں اور خواتین کی 10 مخصوص نشستیں ہیں۔ سندھ میں قومی اسمبلی کی کل 75 نشستیں ہیں جن میں سے 61 جنرل اور 14 خواتین کے لیے مخصوص ہیں جبکہ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں 141 جنرل نشستیں ہیں جن میں سے 32 خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔وفاقی دارالحکومت میں قومی اسمبلی کی تین جنرل نشستیں ہیں جن میں خواتین کے لیے کوئی مخصوص نشست نہیں ہے۔اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ الیکشن کیسا ہوگا اور اس میں کونسی جماعت سرخرو ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved