تحریک انصاف کے جو رہنما اور کارکن آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی جدوجہد جاری رکھنے پر زور دیتے ہیں اور جو ووٹ کی طاقت کے ذریعے اپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں‘انہیں ایک بڑی کامیابی اُس وقت نصیب ہوئی جب اُنکے مقید سربراہ (عمران خان) نے اپنی جگہ بیرسٹر گوہر علی خان کو چیئرمین نامزد کر دیا اور اجازت دے دی کہ اُن کی پارٹی انہیں باقاعدہ منتخب کر لے۔غالب امکان ہے کہ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے‘گوہر علی صاحب تحریک انصاف کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہو چکے ہوں گے یا یوں کہیے کہ اس کا اعلان کر دیا گیا ہو گا۔ اس سلیکشن پر اعتراض کرنے والے بھی میدان میں آ چکے ہیں اور عین ممکن ہے وہ الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے ڈھونگ ثابت کرنے کی کوشش کریں‘اور یوں وہ مثبت نتائج حاصل نہ کیے جا سکیں جو گوہر علی صاحب کے انتخاب سے حاصل کرنا مقصود ہیں لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں جن سے بعد میں نبٹا جا سکتا ہے‘آج کی بات یہی ہے کہ عمران خان نے چیئرمین کے منصب سے دستبرداری قبول کر لی ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انتخابات کے حوالے سے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ اُسے ازسرِ نو ان کا اہتمام کرنا ہے اور اُس کی تفصیل کمیشن کی خدمت میں تحریری طور پر ارسال کرنی ہے‘بصورت دیگر تحریک کے ساتھ ایک رجسٹرڈ پارٹی کا سا سلوک نہیں ہو گا اور اُسے انتخاب میں حصہ لینے کے لیے بلے کا نشان حاصل نہیں رہے گا۔تحریک کے اندر ایسے پُرجوش حضرات موجود تھے جن کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیا جائے اور کسی بھی قیمت پر عمران خان چیئرمین شپ سے دستبردار نہ ہوں لیکن اس کے مقابلے میں ایک رائے یہ تھی کہ فیصلہ عدالت میں تو چیلنج کیا جائے لیکن انٹرا پارٹی انتخابات(20 دن کے اندر) بھی کرا لیے جائیں اور عمران خان کیونکہ توشہ خانہ کیس میں نااہل قرار پا چکے ہیں‘اس لیے چیئرمین کے طور پر اُن کا نام بھی پیش نہ کیا جائے۔ وقت چونکہ کم ہے اس لیے عدالتوں پر انحصار کرنے کے بجائے ایسی حکمت عملی بھی اپنائی جائے جو حریفوں کی چالیں ناکام بنا دے۔عمران خان نے اپنا وزن اسی رائے کے حق میں ڈال دیا اور اپنی جگہ بیرسٹر گوہر علی خان کو دینے کا حکم جاری کر دیا۔
عمران خان کے بعد تحریک انصاف کے سب سے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی ہیں‘وہ سینئر وائس چیئرمین ہیں۔جب تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے تو اسی شرط پر کہ اُن کے اور خان صاحب کے درمیان کوئی تیسرا نہیں ہو گا۔جاوید ہاشمی تحریک میں شامل ہوئے تو انہیں صدر بنا دیا گیا۔ وائس چیئرمین اور صدر کے حامیوں میں رسہ کشی جاری رہتی تھی‘ جلسوں میں جاوید ہاشمی کے نعرے لگتے تھے تو ان کا پلہ بھاری نظر آتا تھا‘پارٹی اجلاسوں میں خان کے دائیں ہاتھ شاہ محمود قریشی جگہ بنا لیتے تھے‘ سو اُن کو سینئر مانا جاتا تھا۔جب جاوید ہاشمی تحریک انصاف کو خیر باد کہہ گئے تو پھر شاہ محمود قریشی‘ایوان سے میدان تک نمبر دو قرار پائے۔خان صاحب کا جانشین انہی کو سمجھا اور مانا جاتا تھا۔عام خیال تھا کہ خان صاحب جب بھی ادھر اُدھر ہوں گے‘ان کا خلا شاہ صاحب فوراً پُر کر دیں گے۔ عمران خان کی سیاست کے تیور بتلاتے تھے کہ ان کے ساتھ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘اس لیے شاہ محمود قریشی اپنے آپ کو ہمہ وقت تیار رکھتے تھے لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ چیئرمین اور وائس چیئرمین بیک وقت گرفتار ہو گئے‘ دونوں یکساں سلوک کے مستحق ٹھہرے‘ دونوں حوالہ ٔ زنداں ہو گئے۔چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو انہیں صدر بنا دیا گیا۔جاوید ہاشمی کی رخصتی کے بعد سے یہ منصب خالی تھا‘اسے پُر کرنے کی ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہوئی تھی۔چودھری پرویز الٰہی ہاتھ لگے تو اُنہیں اس خالی جگہ پر بٹھا دیا گیا۔ یوں جانشینوں کی فہرست میں ان کا نام بھی نمایاں ہو گیا‘لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ چودھری پرویز الٰہی کو بھی اپنے چیئرمین کی ہمسائیگی نصیب ہو گئی‘وہ بھی ان کے ساتھ والی کوٹھڑی میں جا براجے سو تحریک انصاف چودھری پرویز الٰہی کی چودھراہٹ سے بھی محروم ہو گئی۔
فیصلے کی گھڑی آئی تو خان صاحب نے ادھر اُدھر دیکھ کر ہاتھ گوہر علی خان کے سر پر رکھ دیا۔بیرسٹر صاحب کا پرانا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے‘2008ء میں اُس کی ٹکٹ پر اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لے کر ہار بھی چکے ہیں۔بیرسٹر اعتزاز احسن کے چیمبر میں بھی حصہ دار رہے ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے تحریک انصاف کے ہو چکے۔عمران خان کو ان کی قانونی خدمات راس آ گئیں اور اُنہیں ان کی رفاقت‘سو اپنا قائم مقام اُن کو بنا دیا۔بیرسٹر علی ظفر نے جب خان صاحب سے ملاقات کے بعد اس فیصلے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ بندوبست عارضی ہے۔اصلی چیئرمین تو عمران خان ہیں اور وہی رہیں گے۔جب قانونی رکاوٹیں دور ہو جائیں گی تو وہ پھر یہ منصب سنبھال لیں گے‘ اسی لیے کسی قد آور شخصیت کو چیئرمین نہیں بنایا گیا۔گویا خانہ پُری کر لی گئی ہے۔ حریفانِ سیاست نے پھبتی کسی کہ ایک اور عثمان بزدار تلاش کر لیا گیا ہے۔
کہنے والے جو بھی کہیں اور سمجھنے والے جو بھی سمجھیں‘صاف اور سیدھی بات یہی ہے کہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔سیاسی جماعتیں چھاپہ مار گروہوں کی طرح کام نہیں کر سکتیں‘ نہ ہی گوریلا جنگیں لڑ سکتی ہیں۔ اُنہیں اپنی جدوجہد قانون کے دائرے میں رہ کر کرنا ہوتی ہے۔ پُرامن ذرائع سے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔برصغیر پاک و ہند کی روایت بھی یہی ہے کہ یہاں تو جنگ ِ آزادی بھی سیاسی رہنمائوں اور جماعتوں نے پُرامن رہ کر لڑی ہے اور قانون کے دائرے میں جدوجہد جاری رکھی ہے۔ پاکستان ایک دستوری ریاست ہے‘ اس کا باقاعدہ تحریری دستور موجود ہے‘ جس میں حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کا طریقہ بھی لکھا ہوا ہے‘ جو سیاسی جماعتیں حصولِ اقتدار کے لیے کوشاں ہوتی ہیں‘اُنہیں اسی طریقے پر عمل کر کے کامیابی مل سکتی ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لینے والے قانون کو یہ حق دے دیتے ہیں کہ اُنہیں کیفر کردار تک پہنچائے۔ پاکستانی سیاست کے حصہ داران نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں لیکن انہوں نے قانون کے اندر رہ کر ہی جدوجہد کی ہے‘ بڑے بڑے آمروں کو چلتا کیا ہے۔(سابق) وزیراعظم نواز شریف کی مثال سامنے ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں اُنہیں جس طرح شکست سے دوچار کیا گیا‘اب اس پر بچہ بچہ گواہی دے رہا ہے۔انہیں بار بار قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا‘اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑے‘لیکن سیاسی جدوجہد ہی کے ذریعے وہ ڈوب کر ابھرے۔پیپلزپارٹی کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں اُس نے بھی کامیابی سیاسی جدوجہد ہی کے ذریعے حاصل کی‘تحریک انصاف کے منہ زور عناصر اگر بے لگام نہ ہوتے‘ دفاعی اداروں سے ٹکر نہ لیتے‘ دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی سیاست جاری رکھتے تو آج ہمارا سیاسی منظر بالکل مختلف ہوتا۔ اس راستے پر چل کر ہی سیاسی جماعتیں پھل پھول سکتی ہیں۔تحریک انصاف اپنے ساتھ اُسی وقت انصاف کر سکے گی‘ جب وہ کرکٹ کے میدان میں صرف کرکٹ کھیلے گی۔
خان صاحب الحمد للہ صحت مند اور توانا ہیں‘وہ اپنے مقدمات بھگت کر واپس آ سکتے ہیں اور تحریک انصاف کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں لیکن اس وقت انہوں نے جو اقدام کیا ہے‘ وہ ان کیلئے بھی بہتر ہے اور اُن کی تحریک کے لیے بھی۔ تحریک انصاف اپنا وجود برقرار رکھ لے تو یہی کارنامہ ہو گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved