ندیم افضل چن کا خیال تھا کہ وہ اب عمران خان کے مشیر بن کر مزید نہیں رہ سکتے۔ خان کے کوئٹہ میں ہزارہ مظلوموں کی میتوں پر بیٹھے مظاہرین سے ملنے سے انکار نے ان کا دل توڑ دیا تھا۔ جس وقت ایک وزیراعظم کو ان مظلوم لوگوں سے ملنے جانا چاہئے تھا ‘ وہ وزیراعظم ڈٹ گیا تھا۔ رہی سہی کسر خان کے اس اصرار نے پوری کر دی کہ چن سمیت وہ سب بزدار کا دفاع کریں۔چن کو لگ رہا تھا کہ اب ان کا دانا پانی اس پارٹی میں ختم ہو رہا ہے۔ اس دوران جنرل باجوہ اور عمران خان کے تعلقات میں سرد مہری بھی آنا شروع ہو گئی تھی۔ چن کو مستقبل کا نقشہ سمجھ میں آنے لگا۔ یوں جب عمران خان نے کابینہ میں کہا کہ جس وزیر کو ان کی پالیسیوں سے اختلاف ہے وہ بے شک چھوڑ دے‘ سب چپ رہے لیکن ندیم افضل چن کو یوں لگا کہ وزیراعظم کا اشارہ ان کی طرف ہے‘ کیونکہ ایک دو روز قبل وہ ایک ٹاک شو میں کہہ چکے تھے کہ وزیراعظم عمران خان کو کوئٹہ جا کر مظلوموں کی داررسی کرنی چاہئے جو سڑکوں پر اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر بیٹھے تھے کہ جب تک وزیراعظم نہیں آئیں گے وہ اپنے پیاروں کو نہیں دفنائیں گے۔
اب ندیم افضل چن نے اپنے گھر سب کو بتا دیا کہ وہ عمران خان کی کابینہ سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ یہ بات کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہ تھی کہ وہ بیٹھے بٹھائے یوں حکومت چھوڑ دیں کہ اس سے نہ صرف اُن کی سیاست پر برا اثر پڑے گا بلکہ علاقے اور حلقے میں بھی ان کے ووٹ بینک کو پرابلم ہوگا۔ جیسے بھی تھا ابھی بھی پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور علاقے اور حلقے کے لوگ آپ سے اس لیے جڑتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ پاور میں ہیں‘ آپ ایم این اے، ایم پی اے یا وزیر ہیں۔ ان کے تھانے کچہری کے مسائل آپ حل کررہے ہیں یا ترقیاتی کام کرا رہے ہیں۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ابھی دو تین سال عمران خان حکومت کے باقی ہیں اورآپ ابھی سے وزارت چھوڑ رہے ہیں۔
ندیم افضل چن کو ایک اور مسئلہ بھی تھا کہ ان کا چھوٹا بھائی اُس وقت پی ٹی آئی کی سیٹ پر پنجاب اسمبلی میں ایم پی اے تھا۔ چن کے وزارت سے استعفے کا مطلب تھا کہ وہ کسی سٹیج پر شاید پارٹی چھوڑ دیں‘ اور اس کے لیے ان کا خاندان ابھی تیار نہ تھا کہ جب مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو وہ خود کو پاور سرکل سے دور کرلیں۔ ندیم افضل چن کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ دیکھ لیں اگر وہ الیکشن نہیں جیت سکے تو بھی عمران خان نے انہیں مشیر بنا کر وفاقی وزیر کے برابر کا درجہ دے دیا۔ پارٹی کے کتنے لوگ الیکشن ہارے اور کتنے لوگوں کو عمران خان نے اپنا مشیر بنا کر وزیر کا درجہ دیا؟ اگر انہیں بنایا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں اہمیت دی گئی بلکہ عمران خان نے تو انہیں اپنے سیاسی ترجمان کا بھی درجہ دیاتھا۔ لیکن ندیم افضل چن کو لگ رہا تھا کہ بہتر ہے وہ بھرا میلہ چھوڑ دیں۔ اس سے پہلے کہ عمران خان کسی دن ان کی مزاحمت یا ٹی وی چینلز پر ان کے کوئٹہ نہ جانے کے فیصلے پر تنقید کی وجہ سے خود ہی استعفیٰ مانگ لیں۔یوں ندیم افضل چن نے ایک دن استعفیٰ دے دیا۔ یہ خبر اُن کے قریبی دوستوں کے لیے بم شیل بن کر گری۔ سب کا خیال تھا کہ وہ بھی دیگر وزیروں کی طرح عمران خان کے دربار میں اپنی پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ اگرچہ جب عمران خان کو چن کے استعفیٰ کا علم ہوا تو وہ اسے قبول نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چند وزیروں نے کوشش کی کہ ندیم افضل چن اپنا استعفیٰ واپس لے لیں۔ بھلا ان باتوں پر بھی کوئی وزارت چھوڑتا ہے جن پر چن نے ردعمل دیا؟ وزیراعظم عمران خان نے بھی یہی کہا کہ انہوں نے جب یہ بات کابینہ میں کی تھی کہ جنہیں ان کے فیصلوں یا پالیسی سے اختلاف ہے وہ بے شک کابینہ چھوڑ دیں تو انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا تھا۔ خان نے کہا :اس نے ندیم افضل چن کا نام تھوڑی لیا تھا کہ انہیں لگا کہ ان کی بات ہورہی ہے۔
وزیروں نے بھی ندیم افضل چن کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن چن کے اندر پتہ نہیں ایسا کیا سمایا کہ وہ اپنے فیصلے پر ڈٹ گئے۔ انہوں نے ان وزیروں کو جواب دیا جو انہیں واپس کابینہ میں لانے کی کوشش کررہے تھے کہ مان لیا کہ انہوں نے ان کا نام نہیں لیا لیکن سب کو علم تھا کہ بات ان کی ہی ہورہی تھی کیونکہ وہ عمران خان کے بار بار کہنے کے باوجود عثمان بزدار کی خوشامد کرنے کو تیار نہ تھے اور کوئٹہ نہ جانے کے فیصلے پر بھی ناخوش تھے۔ اب اس کے بعد کابینہ میں ڈھیٹ بن کر بیٹھے رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔یوں ندیم افضل چن نے وزارت چھوڑ دی۔ ان کے پیپلز پارٹی سے پرانے رابطے قائم تھے۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی پنجاب میں امیدوار تلاش کررہی تھی جو اُن کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ یوں بلاول بھٹو جو پنجاب میں پارٹی کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش کررہے تھے ان تک اطلاع پہنچی تو فیصلہ ہوا کہ ندیم افضل چن کو واپس پارٹی میں لایا جائے۔ ندیم افضل چن کا عمران خان اور تحریک انصاف سے سیاسی رومانس اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔
اگرچہ ندیم افضل چن پیپلز پارٹی میں واپس پہنچ چکے تھے لیکن انہیں بھی علم تھا کہ ایک دفعہ آپ جس گھر کو چھوڑ جائیں وہاں دوبارہ وہ مقام پانا مشکل ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے یہ بڑی شرمندگی کی بات تھی کہ عمران خان نے ان کا اہم بندہ توڑ لیا۔ اب جب وہ بندہ واپس آیا تو فطری طور پر اُسے وہ جگہ اور اہمیت نہیں ملنی تھی جو عمران خان کو جوائن کرنے سے پہلے تھی۔ یقینا زرداری صاحب خوش نہیں تھے کیونکہ جب وزیراعظم عمران خان زرداری اور بلاول پر اخلاق سے گرے ہوئے حملے کرتے تھے تو ندیم افضل چن اُن کے وزیر تھے۔ لہٰذا زرداری کا ان سے فاصلہ ایک فطری عمل تھا۔ اس دوران ندیم افضل چن کو بھی یہ احساس تھا کہ پنجاب میں جب تک وہ سخت بیانہ نہیں بنائیں گے اپنا حلقہ جیتنا مشکل ہو جائے گا‘ لہٰذا انہوں نے پارٹی کے اندر اس گروپ کے ساتھ خود کو اٹیچ کیا جو سخت بیانیے پر یقین رکھتا تھا اور اس بیانیے کو اور کوئی نہیں بلاول ہی لیڈ کررہا تھا۔ ندیم افضل چن کو بلاول کی سیاسی حکمت عملی ٹھیک لگ رہی تھی جس سے پیپلز پارٹی کا جیالا دوبارہ ایکٹو ہو رہاتھا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کچھ سپیس نکل سکتی تھی۔ یوں ندیم افضل چن نے بھی ٹی وی شوز میں بلاول کے اس بیانیے کو پروان چڑھانا شروع کر دیا۔ اس دوران زرداری جو دبئی میں ڈیرے لگائے بیٹھے تھے انہیں لگا کہ بلاول بھٹو کو غلط لائن پر لگایا دیا گیا ہے۔ وہ نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور مقتدرہ پر سیدھے حملے کررہے تھے‘ جس سے ان کی پارٹی کو نقصان ہوگا۔ زرداری کو لگا کہ مرکز میں بلاول کے وزیراعظم بننے کی امید چھوڑیں بلاول کے اس بیانیے کے بعد کہیں الیکشن کے بعد ان کے ہاتھ سے سندھ بھی نہ جاتا رہے۔ ان کی پارٹی کو وہی دن نہ دیکھنے پڑیں جو کبھی جام صادق کو وزیراعلیٰ بنا کر پیپلزپارٹی کے ساتھ سندھ میں کیا گیا تھا۔
ندیم افضل چن اور بلاول اگر پنجاب میں ووٹ بینک کے لیے کوشش کر رہے تھے تو زرداری سندھ میں اگلی حکومت کی گارنٹی اور اگر دائو لگا تو خود الیکشن کے بعد عارف علوی کی جگہ صدر پاکستان کی سیٹ پر آنکھیں جمائے بیٹھے ہیں۔لہٰذا زرداری کا ندیم افضل چن کو یہ کہنا بنتا ہے کہ '' اُسے تو کچھ پتہ نہیں‘‘۔(ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved