الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی حلقہ بندیوں کی اشاعت کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے 266 حلقے ہوں گے جبکہ ملک بھر میں صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں کے593 حلقے ہوں گے۔ خواتین کی60 اور اقلیتوں کی 10مخصوص نشستوں کے ساتھ مجموعی طور پر قومی اسمبلی کا ایوان 336 ارکان پر مشتمل ہو گا اس سے قبل قومی اسمبلی کی کل 342 نشستیں تھیں جن میں چھ نشستیں کم ہو گئی ہیں۔ نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں ترتیب دینے کا عمل تقریباً چار ماہ تک جاری رہا‘ 27 ستمبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری ہوئی اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق اعتراضات کا ازالہ کیا گیا‘ تاہم خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی 6 نشستیں کم ہونے پر پی ٹی آئی‘ قوم پرست‘ مذہبی و سیاسی اور بذات خود قبائلی عوام کو شدید تحفظات ہیں جبکہ حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم کے خدشات کی بنا پر الیکشن کمیشن نے 4 دسمبر کو اس کا مؤقف سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ پختونخوا کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ2018ء میں ہونے والی 25ویں آئینی ترمیم کے مطابق سابق فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے بعد فاٹا کی 12 قومی اسمبلی کی نشستوں کو ختم کر کے خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں چھ نشستوں کا اضافہ کیا گیا اور یہ39 سے بڑھ کر45 کر دی گئی ہیں۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں 16 جنرل سیٹوں کا اضافہ کر کے99 سے 115 کر دی گئی ہیں‘ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں کا تعین پارلیمنٹ کا استحقاق ہے اور آئین کے مطابق مختص کی گئی سیٹوں کے مطابق الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں کی ہیں۔
حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت کے بعد انتخابات کا اہم مرحلہ عبور ہو گیا ہے کیونکہ اب آئندہ انتخابات نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہو سکیں گے‘ تاہم ووٹرز کی حتمی فہرستیں دسمبر کے اوائل میں آویزاں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔اسی طرح انتخابی شیڈول بھی جاری نہیں ہو سکا ۔ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات سے 54 روز پہلے انتخابی شیڈول جاری ہو گا‘ امکان ہے کہ دسمبر کے وسط میں انتخابی شیڈول کا اعلان ہو گا۔ انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے انتخابی شیڈول کی بہت اہمیت ہے کیونکہ جب تک انتخابی شیڈول کا اعلان نہیں ہو جاتا سیاسی جماعتوں کیلئے ٹکٹس کی تقسیم اور انتخابی سرگرمیوں کا عمل محدود رہے گا۔ انتخابی شیڈول کا جاری نہ ہونا اس امر کی بھی علامت ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کی تیاریاں مکمل نہیں۔ بقول جمعیت علما اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد کے کہ عام انتخابات کا اعلان ہوا ہے شیڈول کا نہیں‘ جب تک شیڈول کا اعلان نہیں ہوتا ملکی سیاست پر دھند چھائی رہے گی۔
ایسی صورتحال انتخابات کے التوا کی افواہوں کو تقویت دیتی ہے کیونکہ اس سے قبل بھی مختلف حیلوں بہانوں کو الیکشن التوا میں بطور جواز پیش کیا گیا۔ سیاسی جماعتیں اور قومی ادارے اگرچہ الیکشن میں تاخیر کے معاملے پر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے اعتبار سے 90 روز کی قید کے مطابق الیکشن اپنی مقررہ مدت پر نہیں ہو سکے۔ عام انتخابات 2018ء کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی کی آئینی مدت 12 اور 13 اگست کی رات 12 بجے تک مکمل ہونی تھی‘ تاہم اتحادی حکومت نے باہمی مشاورت سے دو روز قبل ہی 10 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی‘ اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ اگر اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے تو 60 روز میں الیکشن کرانا ضروری ہیں جبکہ تحلیل کی صورت میں 90 روز میں الیکشن کرانے کی صورت میں سیاسی جماعتوں کو انتخابی تیاریوں کیلئے وقت مل جائے گا۔ قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی اور نگران سیٹ اپ بھی قائم ہو گیا مگر الیکشن کی تاریخ سامنے نہ آسکی‘ نگران حکومت کا واضح مؤقف تھا کہ اس کے پاس الیکشن کی تاریخ دینے کا مینڈیٹ نہیں ‘ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کی مشاورت سے 8 فروری 2024ء عام انتخابات کی تاریخ دے تو دی مگر الیکشن میں التوا کے حوالے سے افواہیں اپنی جگہ موجود ہیں۔
نو مئی کے پرتشدد واقعات کی تان بالآخر چیئرمین پی ٹی آئی کے مائنس پر آکر ٹوٹی ہے‘ انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگیوں پر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو دوبارہ پارٹی الیکشن کرانے کا حکم صادر کیا‘ اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی مختلف مقدمات میں زیر حراست ہیں اس لئے انہوں نے پارٹی چیئرمین کے عہدے کیلئے بیرسٹر گوہر علی خان کو نامزد کیا ‘ اس فیصلے پر پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات سامنے آئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک جو کہا جا رہا تھا کہ عمران خان کو پارٹی چیئرمین کے عہدے سے ہٹانا آسان نہیں‘ اب عملی طور پر یہ ممکن ہو گیا ہے۔ بیرسٹر گوہر علی خان پارٹی چیئرمین منتخب ہونے کے بعد پی ٹی آئی کو بحران سے کیسے نکالیں گے اور کیا سابق چیئرمین کا شیدائی ورکر بیرسٹر گوہر علی خان پر اعتماد کرے گا؟ البتہ یہ واضح ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان کیلئے پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھرنے سے بچانا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ بعض معاصر کالم نگار چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمتی رویہ اپنانے کی آواز بلند کر رہے ہیں کہ سیاسی انتقام کی جو روایت دہائیوں سے جاری ہے اسے ختم ہونا چاہئے‘ آگے بڑھنے کیلئے مفاہت کی اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں مگر کیا یہ درست نہیں کہ مفاہمت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ خود ہیں جو اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ اب بھی بیٹھنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں‘ ہم انہی سطور میں پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ جس فریق کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے دست مفاہمت بھی وہی بڑھاتا ہے یہی دنیا کا دستور ہے‘ یہ انفرادی معاملہ نہیں ہے کہ فریق مخالف کو لچک کا درس دیا جائے۔ سیاسی معاملات بیانیے سے متعلق ہوتے ہیں‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص اپنی انا کے ساتھ کھڑا رہے اور فریق مخالف اپنی سیاست کو دفن کر لے‘ چیئرمین پی ٹی آئی بھی تو بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں‘ البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ کچھ مصالحت پسند حلقے مداخلت کریں اور اقتدار کے تمام شراکت داروں کو پاکستان کے مفاد میں آگے بڑھنے پر قائل کریں۔
مسلم لیگ ن اپنی سیاسی مہم میں میاں نواز شریف کو اگلا وزیر اعظم قرار دے رہی ہے‘ دیگر جماعتوں میں بھی کافی حد تک یہ تاثر پایا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم اور دیگر علاقائی سیاسی جماعتیں اسی سوچ کے تحت مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کر رہی ہیں لیکن دوسری طرف میاں نواز شریف کو قانونی مسائل کا سامنا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اگرچہ ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں نواز شریف کو بری کر دیا ہے لیکن العزیزیہ ریفرنس کیس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے جس کی 7 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نواز شریف کی تمام مقدمات میں بریت ضروری ہے‘ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر نواز شریف پر قائم مقدمات طوالت اختیار کرتے ہیں تو مسلم لیگ ن کیلئے نواز شریف کے بغیر الیکشن میں جانا بڑا چیلنج ہو گا‘ ایسی صورتحال میں مسلم لیگ ن الیکشن میں التوا کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔وہ حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نگران حکومت اور مقتدرہ کی معاشی بحالی کیلئے کوششیں الیکشن ملتوی کرانے کی اہم وجہ ہیں اگر یہ کوششیں کارگر ثابت ہوتی ہیں اور اگلے چند روز میں خلیجی ممالک سے بڑی سرمایہ کاری آتی ہے تو پھر الیکشن ملتوی ہونے کا جواز مل جائے گا۔ الیکشن ملتوی ہونے کے حوالے سے تمام تر باتیں افواہوں اور مفروضوں پر مبنی ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ معاشی بحالی کی بنیاد پر الیکشن کو ملتوی کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی عدالت عظمیٰ اس کے طرح کے عذر کو قبول کرے گی۔ معیشت سمیت پاکستان کو جتنے بھی چیلنجز کا سامنا ہے اس کا مستقل حل جمہوریت کے تسلسل اور سیاسی استحکام میں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved