تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     03-12-2023

نواز شریف کی بریت، مکافاتِ عمل

میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور مقدمات میں ان کو ریلیف ملتا دیکھ کربہت سے مبصرین اس کو مکافاتِ عمل کا نام دیتے ہیں۔ عمران خان جنہوں نے میاں نواز شریف سمیت اپنے بہت سے مخالفین پرمقدمے بنائے ‘وہ آج جیل میں ہیں اور مقدمات کا سامنا کررہے ہیں‘ جبکہ قانونی ماہرین کے مطابق نواز شریف کے خلاف بنائے گئے مقدمات ایسے تھے جنہوں نے ختم ہونا ہی تھا۔گو کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اس کو ڈیل کا شاخشانہ کہتے ہیں‘ حقیقت مگراس کے برعکس ہے۔آپ دیکھئے کہ میاں نواز شریف کو تو حال ہی میں عدالت نے ایون فیلڈ کیس سے بری کیا ہے‘لیکن اس سے پہلے مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر اس کیس سے بری ہوگئے تھے کیونکہ نیب ان پر الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔اس لیے قانونی ماہرین یہ دلیل دے رہے تھے کہ اس کیس میں نواز شریف کے بری ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں‘ اور پھر فیصلہ بھی ویسا ہی آیا۔ میاں نواز شریف پر جعلی کیسز ‘بنے اس کا خلاصہ مرحوم ارشدملک کی ویڈیو نے پیش کردیا تھا۔مریم نواز نے ایک نیوز کانفرنس میں العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں وہ مسلم لیگ (ن) کے ناصر بٹ اور دیگر افراد سے ملاقات کر رہے تھے۔ ویڈیو میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک کا کہنا تھا کہ ان پر کیس میں سزا سنانے کے لیے دباؤ تھا۔ویڈیو سامنے آنے کے بعد مذکورہ جج کو عہدے سے ہٹا دیا گیا لیکن انہوں نے اپنے ایک بیانِ حلفی میں الزام عائد کیا تھا کہ انہیں بلیک میل کیا گیا اور 16 سال پرانی ایک ویڈیو کی بنا پران کی نواز شریف سے جاتی امرا میں ملاقات کرائی گئی۔کہنے کامقصد یہ ہے کہ نواز شریف کو اقتدار اور سیاست سے باہر کرنے کے جو ہتھکنڈے اپنائے گئے وہ ایک ایک کرکے آشکار ہوتے چلے گئے۔نیب شروع سے ہی انتقامی کارروائی کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے ‘ نواز شریف کی بارے میں بھی اس کو بطورآلہ کار استعمال کیاگیا۔لیکن ہم نے دیکھا کے نیب نواز شریف کے کیسز پر اب ہاتھ کھڑے کر رہا ہے کیونکہ یہ بات سب کو پتہ ہے کہ ان کیسز کی عمارت کھوکھلی بنیادوں پر کھڑی کی گئی۔نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل بھی واپس لے لی ہے‘ جس کے بعد یہ امید بھی بڑھ گئی ہے کہ عنقریب نواز شریف کو اس کیس سے بھی رہائی مل جائے گی۔العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس سے ملتا جلتا دوسرا ریفرنس یہی فلیگ شپ انویسٹمنٹ تھا۔اس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ نواز شریف کے چھوٹے بیٹے حسن نواز نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ برطانیہ میں 2001ء میں قائم کی تھی۔نواز شریف نے مسلسل اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے کاروبار سے کسی قسم کاکوئی لین دین رکھا ‘لیکن نیب کا کہنا تھا کہ وہ اس کمپنی کے بورڈ کے چیئرمین رہے ہیں۔فلیگ شپ انویسٹمنٹ سمیت حسن نواز نے دس اور کمپنیاں قائم کی ہوئی تھیں جن کے پاس لندن کی چندمہنگی ترین پراپرٹیز تھیں‘ جن میں سے ایک ون ہائیڈ پارک پلیس شامل ہے‘ جس کی مالیت تقریباً پانچ کروڑ برطانوی پاؤنڈ لگائی گئی ہے۔نیب کو ریفرنس میں یہ معلوم کرنا تھا کہ حسن نواز کے پاس اس کمپنی کو قائم کرنے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اور نواز شریف کے اس میں کیا کردار ہے؟لیکن لگتا ہے کہ نیب اس ریفرنس کو بھی ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی۔
نیب کے حوالے سے بہت سے سیاستدان کہہ چکے کہ اس کو بندکردینا چاہیے۔نیب کی کارکردگی سوالیہ نشان رہی ہے۔ایک باخبر صحافی کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ آٹھ برس میں 50 بڑے کرپشن کیسز کی تحقیقات پر لگ بھگ چھ ارب روپے خرچ کئے‘ جبکہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق نیب نے مجموعی طور پران آٹھ سال میں 27 ارب روپے خرچ کیے‘ لیکن نیب کی دستاویزات کے مطابق ان میگا کرپشن کیسز میں ملوث ہائی پروفائل شخصیات پر قومی خزانے کو لگ بھگ 900 ارب روپے کامبینہ نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔ نیب کے نئے قانون کی روشنی میں چند بڑے کیسوں پر فیصلہ نیب کیخلاف بھی آچکا ہے۔2017ء سے آج نواز شریف کی بریت تک پاناما کیس تحقیقات پر سرکار کے لگ بھگ ایک ارب سے زائد کے اخراجات آئے ہیں۔ نیب‘ ایف آئی اے‘ مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں‘ غیرملکی فرم کی خدمات اور ایسٹ ریکوری یونٹ ان آٹھ سالوں میں نہ کسی بڑے کو سزادلوا سکے نہ ہی ایک پائی وصول ہوئی۔ہائی پروفائل کیسز میں نامزد 50 سے 80 فیصد ملزمان نے ضمانت حاصل کی۔ ان کے کیس ختم ہوگئے جبکہ پانچ فیصد بری ہوگئے۔ دوسری جانب نیب نے 55 فیصدبڑی مچھلیوں کے خلاف انکوائریاں بھی بند کردیں۔تحقیقات کے مطابق وزات قانون نے 24 احتساب عدالتوں کے69 ججز اورعملے کیلئے آٹھ سال میں 80 کروڑ روپے جاری کیے۔ ایسٹ ریکوری یونٹ اخراجات کی مد میں 17 کروڑروپے کھا چکاجبکہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نیب اورایسٹ ریکوری یونٹ ٹیموں نے 41 سے زائد غیر ملکی دورے کئے۔ایسٹ ریکوری یونٹ اور نیب کی ٹیموں نے بیس کروڑ روپے کے سرکاری خرچ پر امریکہ ‘برطانیہ‘ یواے ای ‘چین اور سوئٹزرلینڈ کے دورے کیے لیکن کامیابی نہیں ملی۔
بہرحال اب ایک طرف نواز شریف ناکامیوں سے کامیابی کی طرف سفر کر رہے ہیں تو دوسری جانب عمران خان کامیابیوں سے ناکامی کی طرف۔ان کی پارٹی نومئی واقعے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی ہے۔واضح نظرآرہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی انتخابات میں تو کہیں نظر نہیں آرہے۔ کوئی کرشمہ ہوجائے تو الگ بات ہے۔سائفر کیس میں ان کا جیل ٹرائل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور وفاقی حکومت نے اس کی منظوری دے دی ہے۔یعنی انہیں کسی قسم کا ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا۔بہت سے تجزیہ کار پیش گوئی کر رہے ہیں کہ بہت جلد عمران خان کو سائفر کیس میں سزا ہوسکتی ہے ۔ چار ہفتے میں یہ کام ہوسکتا ہے۔اور شاید اس بات کا ادراک عمران خان کوبھی ہوگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات میں اپنی انا کو مارا ہے اور اپنی جگہ بیرسٹر گوہر علی خان کوچیئرمین تحریک انصاف نامزد کیا جو کل ہونے والے انٹرا پارٹی انتخاب میں کامیاب ہوکر چیئرمین تحریک انصاف بن گئے ہیں۔لیکن بیرسٹر علی ظفر کے بقول یہ عارضی تعیناتی ہے۔اب صاف نظرآرہا ہے کہ تحریک انصاف میں صف بندی ہوچکی ہے۔لطیف کھوسہ صاحب نے بیرسٹر گوہر کی بطور چیئرمین تحریک انصاف تعیناتی کے اعلان سے کچھ دیر پہلے یہ بیان دیا تھاکہ عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن سے دستبرداری کا اعلان نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ پی ٹی آئی کے چیئرمین رہیں گے۔ اس کے بعدلطیف کھوسہ اور بشریٰ بی بی کی ایک آ ڈیو لیک ہوئی اور عمران خان کی بہنوں اوربشریٰ بی بی میں اختلافات سامنے آئے۔اب عمران خان کو نہ صرف اپنی سیاسی اور پارٹی کی بقا کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے بلکہ صف بندی کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔یہ تو طے تھا کہ عمران خان کی پارٹی ون مین شو ہے۔بہرحال کہنے والے کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کو بچا لیا ہے۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ عمران خان نے وکیل کو ہی کیوں چنا تو اس کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تحریک انصاف کے رہنماان دنوں زیر عتاب ہیں‘ ایسے میں ایک وکیل کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں بچتا ۔ وکلا پرآسانی سے ہاتھ بھی نہیں ڈالا جاسکتا‘اسی مائنڈ سیٹ کو لے کر بیرسٹر گوہر کو چیئرمین تحریک انصاف بنایا گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت انتخابات میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ عوام میں کس قدر جگہ بناسکتی ہے۔ کیا سپوٹرز نئے چیئرمین پی ٹی آئی کو قبو ل کرلیں گے؟ اس کا فیصلہ آنے والے انتخابات میں ہوجائے گا۔ممکن ہے کہ اس کا شارٹ ٹرم فائدہ نہ ہو لیکن اس کالانگ ٹرم فائدہ ہوجائے اور وہ بھی اس صورت میں ہی ہوگا جب چیئرمین تحریک انصاف جیل سے باہرآئیں اور ان پر قائم مقدمات ختم ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved