ڈیلس‘ امریکہ کی وہ شام یاد آر ہی ہے ۔ خزاں کی وہ شام جب ہوا زرد پتے سڑکوں پر بکھیر رہی تھی اور سڑکوں پر تا دیر چہل قدمی کرتے ہوئے سردجھونکے ہر کچھ دیر بعد جسم میں جھرجھری کی ایک لہر دوڑا دیتے تھے۔میں ڈیلس میں مقیم ایک ادھیڑ عمر کاروباری سکھ سردار کے ساتھ تھا اور انہیں روتے دیکھ کر تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا مگر مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کام کیسے کروں ۔ان کا نام جگجیت سنگھ ڈھلوں فرض کرلیجیے ۔وہ میرے ایک اور سردار دوست کے دوست تھے اور یہ سن کر کہ لاہور سے ایک پاکستانی آیا ہوا ہے ‘ مجھے ملنے آئے تھے۔پاکستانی پنجاب خاص طور پر لاہور سے سکھ گھرانوں کی محبت فطری ہے ‘ خاص طو رپر جن کے بزرگوں نے ان علاقوں سے نقل مکانی کی تھی ۔ میں نے امرتسر‘ پٹیالہ ‘ دہلی وغیرہ کے سفر میں سکھ گھرانوں کے یہ جذبات پہلے بھی دیکھے تھے۔ہر وہ گھرانہ جس کے خمیر میں آبائی زمینوں کی خوشبو رچی بسی ہے ‘وہ نقل مکانی کے بعد بھی کئی نسلوں تک لو دیتی رہتی ہے ۔ خواہ مسلمان ہو‘ ہندو ہو‘ سکھ ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق ہو۔آباء کی قبریں ‘ڈیرے‘ کھیت کھلیان اور کچے پکے مکانات یک دم چھوڑدیناکوئی آسان ہے کیا ؟
جسم اجداد کی قبروں سے نکلتے ہی نہ تھے
نسل در نسل اسی خاک میں زر رکھا تھا
سردار جگجیت سنگھ مجھ سے لاہور کے حالات پوچھتے رہے ۔ ان تمام علاقوں کے نام لے کر جن کا ذکر انہوں نے اپنے ماں باپ سے سنا ہوگا۔ نسبت روڈ‘ کرشن نگر‘موہنی روڈ اور شاہ ابوالمعالی ۔ انہیں کئی جگہوں کے نام درست معلوم نہیں تھے سو میں ان کا تجسس دیکھ کر تفصیل بتاتا رہا۔باتیں کرتے کرتے انہوں نے اچانک ایک غیر متوقع بات کہی ۔ بولے : جب آپ کی اور ہماری جنگ ہوتی ہے تو پتہ ہے آپ کی طرف سے کون زیادہ مرتا ہے ؟ آپ کو پتہ ہے کہ ہماری طرف سے زیادہ کون مرتا ہے؟ میں ابھی سوالیہ نظرو ں سے ان کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے ۔ اسی کیفیت میں بولے : آپ کی طرف بھی ہم ۔ ہماری طرف بھی ہم ۔ ہم جو ان زمینوں کے رہنے والے ہیں جو پنجاب کہلاتی ہیں ۔ ہم جو دونوں طرف فوجوں میں سب سے زیادہ تعداد میں ہیں ۔ ضبط کے باوجودسردار جگجیت سنگھ کے آنسو چھلک رہے تھے۔جگجیت سنگھ نشے میں تھے یا شدید دکھ میں ۔ لیکن جو کچھ بھی تھا ان کے اندر سے پھوٹ رہا تھا۔ اب میرے لیے سوال کا جواب دینا اتنا اہم نہیں تھا جتنا انہیں تسلی دینا ۔اور تسلی دینا مشکل کام تھا۔
ہندوستان کے تمام سفروں کے درمیان نیز پاکستان سے باہر بہت سی ملاقاتوں میں میرا تاثر یہی ہے کہ پاکستانیوں کے لیے جو گرمجوشی‘بلا تصنع تعلق اور کھلا پن سکھ برادری میں پایا جاتا ہے ‘ وہ دیگر مذاہب کے بھارتیوں میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ میرا یہ بھی تاثر ہے کہ تقسیم کے بعد کے ادوار میں ‘ خاص طو رپر 1984ء کے بعد کے زمانوں میں سکھوں میں یہ احساس بہت گہرا اور شدید ہوا کہ 1947ء میں تقسیم کے وقت مسلمانوں اور سکھوں کے بیچ جو کچھ ہوا‘ وہ غلط تھا۔اس کا دونوں کو نقصان ہوا۔ یہ بات بالکل صاف الفاظ میں بھی کہی گئی اور بین السطور بھی ۔اور یہ تاثر سکھ برادری میں اکثر و بیشتر موجود ہے ۔ سکھ برادری کا تناسب پورے ہندوستان میں صرف دوفیصد ہے ۔ اور اگرچہ وہ کاروبار میں بھی چھائے ہوئے ہیں او رکاشت کاری میں بھی لیکن انہیں یہ گہرا احساس ہے کہ انہیں ان کے مطابق حقوق نہیں دئے جاتے۔ کم تناسب کی بنا پر وہ قانونی طو رپر کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔ یہ واقعہ اور یہ باتیں مجھے ایک تازہ خبر پڑھ کر یاد آرہی ہیں ۔ امریکہ کے محکمہ انصاف نے ایک بھارتی شہری پر فرد جرم عائد کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ ہندوستانی حکومت کا یہ کارندہ نکھل گپتا‘نیویارک میں مقیم خالصتانی تحریک کے ایک امریکی سکھ رہنما گر پتونت سنگھ پنوں کے قتل کی کوشش میں ملوث ہے ۔
ان دنوں بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں کئی ملکوں کی تفتیشی زد میں ہیں ۔کینیڈا میں سکھ رہنماہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا واقعہ ابھی تازہ ہے جس میں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہندوستانی خفیہ ایجنسی کے ذمے یہ قتل ثابت کیا ہے ۔ اور ہندوستانی حکومت سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔ یہ بھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ قطر کی ایک عدالت نے جاسوسی کے الزام میں ہندوستانی بحریہ کے سابق اعلیٰ افسروں کو گرفتار کیا جو ایک آبدوز کے خفیہ منصوبے پر قطر میں کام کرنے آئے تھے۔ ان سب کو قطر کی عدالت کی طرف سے سزائے موت سنائی گئی ہے ۔
اس تازہ اقعے نے امریکہ اور کینیڈا کو بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے مقابلے میں یکجان کردیا ہے ۔ واقعے کی تفصیلات یوں ہیں کہ باون سالہ نکھیل گپتاہندوستانی حکومتی ایجنسی سی سی آئی میں سکیورٹی مینجمنٹ اور جاسوسی کے نظام کا فیلڈ افسر ہے ۔اس سے پہلے گپتا سنٹرل ریزور پولیس فورس میں کام کرتا تھا جو بھارتی پیرا ملٹری فورس ہے ۔امریکہ فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ سی سی آئی نے ہندوستان سے باہر کرائے کے قاتل کے ذریعے کچھ لوگوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے گپتا کو2023 ء میں یہ کام سونپااور اس کی ہدایات دیں ۔ ہدایات کے مطابق گپتا نے ایک جرائم پیشہ قاتل ڈھونڈ کر یہ کام اسے سپرد کرنا تھا۔لیکن گپتا نے جو بندہ تلاش کیا ‘ وہ امریکی محکمہ انصاف کے مطابق درحقیقت‘خفیہ طور پرامریکی جاسوسی ادارے کے لیے کام کرتا تھا۔ اس آدمی نے گپتا کو ایک اور آدمی سے ملوایااور یہ شخص بھی دراصل ایک خفیہ کارندہ تھا جو امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی ڈی ای اے کے لیے کام کر رہا تھا۔گپتا نے اس دوسرے شخص سے ‘جسے وہ کرائے کا قاتل سمجھ رہا تھا‘ ایک لاکھ ڈالرطے کیے اور ان میں سے پندرہ ہزار ڈالر نقد مین ہیٹن نیویارک میں 9 جون کو اس کے حوالے کردئیے ۔اسے گر پتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا جو امریکہ میں سکھ ایکٹوسٹ رہنما ہے ۔ پنوں امریکہ اور کینیڈا دونوں کی شہریت رکھتا ہے اور وہی گپتا کا ہدف تھا۔گپتا کو جب وہ چیک ری پبلک میں تھا‘ 30 جون کو گرفتار کرلیا گیا ۔اور اب امریکی محکمہ انصاف نے یہ سارامنصوبہ بیان کرتے ہوئے فرد جرم عائد کی ہے ۔کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جو ہردیپ سنگھ نجارکے قتل پر پہلے بھی بات کرتے رہے ہیں اور کینیڈا بھارت دونوں نے اپنے اپنے سفارت کار واپس بلوائے ہیں ‘ اس تازہ واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پہلے بھی یہ بات کرتے رہے ہیں اور اس واقعے سے ہماری سچائی ثابت ہوئی ہے کہ ہندوستان کو بہت سنجیدگی سے ان معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے بھی تل ابیب میں انہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ ہندوستانی حکومت نے حسب معمول ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ہم دیگر ممالک میں کسی بھی طرح قتل کے حامی نہیں ہیں ۔ لیکن یہ بیان ان کے اصل عزائم سے بالکل متضاد ہے ۔
گر پت ونت سنگھ پنوں جو امرتسر میں پیدا ہونے والے اور نیویارک میں مقیم ایک قانون دان ہیں ‘ایس ایف جے (سکھ فار جسٹس) کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں ۔ ہندوستانی حکومت نے انہیں ایک دہشت گرد قرار دے رکھا ہے ۔ محکمہ انصاف کے اعلان کے بعد پنوں نے کہا ہے کہ ''اس واقعے میں ہندوستانی حکومت کا کردار بالکل واضح ہے ۔ مودی سرکار مجھے اس لیے قتل کروانا چاہتی ہے تاکہ خالصتانی ریفرنڈم کو دبا دیا جائے ۔ میں ہندوستان کے اعلان کردہ 140 دہشت گردوں کی فہرست میں سب سے زیادہ مطلوب شخص ہوں۔میں ان سے مرعوب ہونے والا نہیں۔ نہ میں گولی کا جواب گولی سے دوں گا۔ ہم اپنے مقصد کے لیے پر امن جد و جہد جاری رکھیں گے ‘‘۔ڈیلس کے سردار جگجیت سنگھ! میں تصور میں آپ کو دیکھ رہا ہوں ۔ معلوم نہیں آپ کا ان سب معاملات پر کیا مؤقف ہے ۔ زندگی نے کبھی دوبارہ ملوایا تو جاننے کی کوشش کروں گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved