غزہ پر اسرائیلی حملوں‘ جنگی جرائم‘ فلسطینیوں کی نسل کشی‘ ہسپتالوں و سکولوں پر بمباری‘ عالمی امدادی اداروں کو بھی نشانہ بنانے اور مسلسل شہری آبادی پر بم برسا کر معصوم و بے گناہ خواتین‘ بچوں اور بزرگوں کے قتلِ عام نے ہر ذی شعور شخص کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ دنیا بے حس ہے یا بے بس؟ کیونکہ پوری دنیا کی نہ تو کوئی مذمت کام آئی‘ نہ ہی کسی مطالبے کو خاطر میں لایا گیا اور نہ ہی نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی پر کسی نام نہاد عالمی تنظیم کو انسانی حقوق کا خیال آیا۔ یوں تو امریکہ اور یورپ سمیت مغربی دنیا جانوروں کے حقوق کا بڑا پرچار کرتی ہے لیکن غزہ پر اسرائیلی حملوں اور سنگین ترین جنگی جرائم نے ان انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی اصلیت اور اوقات ظاہر کردی اور یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ مغربی دنیا انسانی حقوق کی بات صرف اسلامی ممالک کے خلاف کوئی الزام تراشی کرنے یا حملہ کرنے کا بہانہ تلاش کرنے کے لیے کرتی ہے لیکن اب دنیا جان چکی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ سمیت اس کے دیگر حامیوں میں انسانی حقوق کا احساس تو بہت دور کی بات انسانیت ہی نہیں ہے۔
دنیا بھر کی جانب سے جنگ بندی میں توسیع کے مطالبے اور زور دینے کے باوجود یہودی و صہیونی قیادت کے دماغ پر نہتے فلسطینی شہریوں کا خون سوار ہے اور جمعہ کے روز سے غزہ پر دوبارہ شدید بمباری جاری ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کا آغاز 24 نومبر سے ہوا تھا جس میں تین مرتبہ توسیع ہوئی اور جمعہ کی صبح جنگ بندی کا وقت ختم ہوگیا جس کے بعد اسرائیل نے پھر حملے شروع کردیے۔ سات روزہ جنگ بندی کے دوران دونوں طرف سے مجموعی طور پر 325قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ حماس نے 104 جبکہ اسرائیل نے 240قیدیوں کو رہا کیا۔ جنگ بندی کے آخری روز حماس نے آٹھ جبکہ اسرائیل نے 30فلسطینی قیدیوں کو رہاکیا۔سات اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد زخمی ہیں۔
ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے ساتھ جاری لڑائی ختم ہونے کے بعد اسرائیل کے جاسوس لبنان‘ ترکیہ اور قطر میں موجود حماس کے رہنمائوں کو قتل کرنے کیلئے کارروائیاں شروع کر دیں گے۔ یہ آپریشن ایک ماہ قبل شروع ہونا تھا لیکن صرف اس لئے ملتوی کیا گیا تاکہ حماس رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کرکے اسرائیلی مغویوں کی رہائی یقینی بنائی جا سکے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس نے فلسطینی رہنمائوں کے قتل کیلئے پلاننگ حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد ہی شروع کر دی تھی لیکن مغویوں کی رہائی کیلئے عارضی طور پر موخر کی گئی۔ اب اطلاعات ہیں کہ اسرائیل غزہ میں بفر زون کا قیام چاہتا ہے‘ اس نے عرب ممالک کو اس حوالے سے آگاہ کر دیا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ اور اسرائیل کے درمیان شمال سے جنوب تک بفر زون ہو‘ جس کا مقصد حماس اور دیگر عسکریت پسندوں کو اسرائیل میں حملے سے روکنا ہوگا۔ اسرائیل نے اپنے منصوبے سے مصر‘ اردن اور متحدہ عرب امارات کو آگاہ کیا ہے۔ کسی عرب ریاست نے مستقبل میں غزہ کی پولیس یا انتظامیہ کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔ اسرائیل نے اپنے منصوبے سے سعودی عرب اور ترکیہ کو بھی آگاہ کر دیا ہے جبکہ مصر‘ سعودی عرب‘ قطر اور ترکیہ نے رپورٹ پر ردِ عمل سے گریز کیا ہے۔ یواے ای حکام نے بھی رپورٹ پر براہِ راست ردِ عمل دینے سے گریز کیا ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم کے خارجہ پالیسی کے مشیر عوفر فالک نے کہا ہے کہ غزہ میں بفر زون کا منصوبہ تین مراحل پر مشتمل ہے جن میں حماس کا خاتمہ‘ غزہ کو غیر فوجی اور غیر بنیاد پرست بنانا شامل ہے۔
جمعہ کے روز عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد تادم تحریر اسرائیلی طیاروں کی شدید بمباری سے240 فلسطینی شہید جبکہ 600 سے زائد زخمی ہوگئے۔ غزہ میں عارضی جنگ بندی میں توسیع کے لیے ساری کوششیں تاحال بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں اور غزہ میں دوبارہ شروع ہونے والی جھڑپیں دوسرے روز بھی جاری رہیں‘ اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمال اور جنوب میں 200 اہداف کونشانہ بنایا۔ جنوبی غزہ میں خان یونس کے مشرقی علاقے شدید بمباری کی زد میں آئے۔ غزہ میں ہسپتالوں کے مناظربھی خوفناک فلموں جیسے ہیں۔ دوبارہ بچوں کے قتل عام کی منظوری دے دی گئی ہے۔ حماس نے بھی جوابی کارروائی میں اسرائیلی شہروں پر درجنوں راکٹ حملے کیے جس کے باعث تل ابیب میں بھی سائرن بج اٹھے۔ اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق کے مضافاتی علاقے اور لبنانی سرحد پر بھی حملہ کرتے ہوئے کئی لبنانی شہریوں کو شہید کردیا جبکہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے رفح سے فلسطینیوں کی امداد بھی بند کردی ہے۔ لبنان کی سرحد کے قریب متعدد اسرائیلی قصبوں میں ممکنہ طور پر راکٹوں کے گھیرے جانے کے خدشہ سے سائرن بجائے گئے‘ رپورٹس کے مطابق حزب اللہ نے ایک گھنٹے میں اسرائیل پر پانچ حملے کیے۔ اقوام متحدہ میں کمشنر انسانی حقوق نے بھی غزہ میں بمباری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ تباہ کن ہے‘ اب اسے روکنا ہوگا۔ غزہ میں جنگ دوبارہ شروع ہونے سے صورتحال انتہائی تشویشناک ہوگئی ہے اور غزہ پہنچنے والی امدادکی بھی کوئی خبر نہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے بھی اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی ترسیل روکنے پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے کہ غزہ میں ہر صورت انسانی امداد پہنچانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل اسی سطح پر ہونی چاہیے جیسے جنگ بندی کے دنوں میں ہو رہی تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔ غزہ کے لوگوں کو کھانے‘ پانی اور دواؤں سمیت بنیادی ضروریاتِ زندگی کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری جانب عالمی طاقتوں کی جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں تاہم ثالثوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری ان جھڑپوں کو دوبارہ روکنے کی کوششوں کو مشکل بنا رہی ہے۔ مصر اپنے شراکت داروں کی مدد سے غزہ میں جنگ بندی کی جلد از جلد بحالی کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے غزہ میں محفوظ اور پائیدار امن کووقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کے خاتمے کے باوجود امریکہ کی توجہ یرغمال افراد کی رہائی پر مرکوز ہے۔ امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ نے دبئی میں متحدہ عرب امارات‘ مصر‘ اردن‘ قطر اور بحرین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ساتھ فلسطینی حکام سے بھی ملاقات کی لیکن ابھی تک اسرائیل اور اس کے حامیوں کی بے حسی اور باقی دنیا کی بے بسی کے باعث تمام تر کوششیں بے سود ہیں تاہم قیامت صغریٰ نے ان بھیانک مناظر کے باوجود فلسطینی قوم (خصوصاً خواتین اور بچوں) کی جرأت وہمت کو داد دینی پڑتی ہے جن کے حوصلے اپنے پیاروں کے لاشے اٹھا اٹھا کر بھی پست نہیں ہوئے۔ اس کی تازہ مثال غزہ میں اسرائیلی فوج کے دوبارہ حملوں اور بمباری کے دوران کم عمر فلسطینی ولاگر کی بہادری کے ساتھ مسکرانے کی ویڈیو ہے۔ کم عمر فلسطینی ولاگر رمضان محمود اپنے انسٹاگرام پر مداحوں سے گفتگو کرنے کیلئے ویڈیو بنا رہا تھا کہ اس دوران اسرائیلی بمباری کی آوازیں اس کے بیک گرائونڈ میں سنائی دیں لیکن ننھارمضان محمود اس وقت بالکل بھی خوفزدہ نظر نہیں آیا بلکہ اس دوران ویڈیو میں مسلسل مسکراتا رہا‘ جو فلسطینی قوم کے عزم وہمت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور کوئی قوم اس قدر پُرعزم اور سر پر کفن باندھے جدوجہد کیلئے ڈٹ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت خود بخود شامل ہوجاتی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب قبلہ اول آزاد ہوگا اور زندگی مسکرائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved