میں معاشیات کی طالب علم ہوں اور نہ ہی معاشی اصطلاحات کو اس انداز میں سمجھ پاتی ہوں جیسے ایک اکانومسٹ ان کی تعریف کرتا اور انہیں سمجھتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ میرا دلچسپی کا موضوع ہے کیونکہ معیشت خواہ ایک گھر کی ہو‘ ادارے کی ہو یا پھر ایک ملک کی ہو اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہاں تک کہ ایک فرد کی مالی حالت‘ اُس کے ذہن‘ اُس کی سوچ‘ اُس کے مزاج اور اُس کے سماجی تعلقات پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ہلکی جیب اور بھاری زندگی جیسی ضرب المثل میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور موجود ہے۔ آج کا مادیت پرست دور انسانوں کے مرتبے کو بھی ان کی دولت اور پیسے سے ناپتا ہے۔ ایک دولت مند شخص اپنی دولت کے بل بوتے پر قابل عزت ٹھہرتا ہے۔ پنجابی کی مشہور کہاوت اس پر لاگو آتی ہے کہ ’’ جدے گھر دانے اودے کملے وی سیانے‘‘۔ اس کہاوت کی سچائی ایک فرد کی زندگی سے لے کر عالمی منظرنامے میں‘ ملکوں کی اہمیت اور اثرو رسوخ تک پھیل جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج وہی ملک عالمی فورم پر اپنا اثر رکھتا ہے جس کی معیشت مضبوط ہے۔ سپر پاور کی اصطلاح بھی مضبوط معیشت رکھنے والے ملکوں کے لیے ہی استعمال ہو سکتی ہے۔ چین مستقبل کی سپر پاور ہے تو صرف اس لیے کہ چین نے اپنی معیشت کو طاقتور کیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود عالمی طاقتوں کے سامنے سرنگوں نظر آتا ہے تو اس لیے کہ پاکستان کی معیشت کمزور ہے۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ آمدنی سے زیادہ قرضوں کا بوجھ ہے اور قرض کا یہ بوجھ کم کرنے کے لیے پاکستان عالمی بنیئے سے مزید قرض لیتا ہے۔ یوں یہ شیطانی چکر نہ ختم ہونے والا ہے۔ کہتے ہیں کہ Beggars can\'t be choosers۔ فرد سے لے کر ملکوں تک یہ حقیقت صادق آتی ہے۔ کشکول تھام کر بھیک کسی فرد سے مانگی جائے یا عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے جائیں‘ مانگنے والے کے حصے میں ذلت اور رسوائی ایک ہی جیسی آتی ہے۔ قومی اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کی شرط پر جن جن ملکوں کو آئی ایم ایف نے قرضے دیئے وہاں غربت‘ بیروزگاری اور بیماری میں اضافہ ہوا۔ روانڈا اور گنی بسائو جیسے غریب افریقی ملکوں میں آئی ایم ایف نے قرض دینے کے لیے یہ کڑی شرط رکھی کہ ان ملکوں کواپنے ’’آبی وسائل ‘‘ کے حصص فروخت کرنا ہوں گے۔ اس شرط کے پورا ہونے کے بعد ان غریب ملکوں کے عوام کے لیے صاف پانی جیسی بنیادی ضرورتِ زندگی بھی مہنگی ہو گئی۔ صاف پانی کی عدم دستیابی سے بیماریاں بڑھنے لگیں اور اس کے نتیجے میں زیادہ اموات ہونے لگیں۔ مہنگے پانی کی خرید نے معاشی مسائل میں جکڑے لوگوں کی مالی مشکلات مزید بڑھا دیں۔ معاشی عدم استحکام‘ سیاسی عدم استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ وہ ممالک جہاں معیشت مضبوط ہے اور جہاں ریاست اپنے عوام کے لیے فلاحی ریاست کا درجہ رکھتی ہے وہاں اداروں کی نجکاری کو ہمیشہ روکا گیا۔ برطانیہ میں آج بھی مارگریٹ تھیچر کے دور کو عوام دشمن دور کہا جاتا ہے کیونکہ تھیچر نے چند بڑے اداروں کو پرائیویٹائز کیا۔ جن میں برطانیہ سٹیل مل جیسا اہم ادارہ بھی شامل تھا اور نتیجہ یہ کہ آج تک اس ادارے کی نجکاری سے بیروزگار ہونے والے لوگ معاشی طور پر سنبھل نہیں سکے۔ 1991ء میں نواز حکومت نے پہلی بار ملک میں نجکاری کا عمل شروع کیا جو کہ آئی ایم ایف کی ایک اہم شرط تھی۔ جواز یہ تھا کہ خسارے میں جانے والے اداروں کو معاشی طور پر زیادہ کارآمد بنانے کے لیے انہیں فروخت کیا جائے۔ ملک کی معیشت تو کیا سنبھلتی‘ ایسے اقدامات کے بعد‘ بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوا۔ اس بار پھر سے نواز حکومت نے عالمی بنیئے کی شرط پورا کرنے کے لیے 30 اداروں کے 26 فیصد شیئرز کو فروخت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ پاکستان سٹیل‘ پاکستان ریلوے اور پی آئی اے جیسے بڑے ا دارے اس فہرست میں شامل ہیں۔ اگر یہ ادارے خسارے میں جا رہے ہیں تو انہیں پرائیویٹائز کرنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کیونکہ نجکاری کے بعد اداروں کے مالکان اپنے ادارے سے مالی بوجھ کم کرنے کے لیے ڈائون سائزنگ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ باقی رہ جانے والے ملازمین کے بونس اور ہیلتھ الائونسز کی کٹوتی بھی اُن کے مالی حالات مخدوش کر دیتی ہے۔ یوں بظاہر‘ ادارہ تو منافع بخش ہو جاتا ہے مگر عوام کی حالت ابتر ہو جاتی ہے۔ کیا قومی اداروں کا واحد مقصد منافع کمانا ہے یا پھر عوامی بہبود جیسا اہم مقصد ہی اُن کے پیش نظر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جو آج امریکہ جیسے مضبوط معیشت رکھنے والے ملک میں بھی جاری ہے۔ یو ایس پوسٹل سروس کوجسے USPS کہا جاتا ہے۔ جب بھی پرائیویٹائز کرنے کی بحث ہوتی ہے‘ سول سوسائٹی اور قومی اداروں کی نجکاری کی مخالف‘ بہت ساری تنظیمیں اس کے سامنے رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اس ادارے کو منافع بخش بنانے کے لیے اس کی نجکاری ضروری ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یو ایس پوسٹل سروسز امریکی عوام کا ادارہ ہے جس پر امریکی فخر کرتے ہیں۔ یہ ادارہ سال ہا سال سے عوام کی خدمت کر رہا ہے۔ ہزاروں افراد اس قومی ادارے سے منسلک ہیں۔ اس ادارے کی نجکاری ہزاروں افراد کو اُن کے روزگار سے محروم کر دے گی۔ اس لیے یو ایس پوسٹل سروسز کو پرائیویٹائز نہ کیا جائے۔ یوں آج بھی یہ ادارہ خسارے کے باوجود عوام کی خدمت اور بہبود کے لیے کام کر رہا ہے۔ پاکستان سٹیل‘ پاکستان ریلوے اور پی آئی اے جیسے عوامی اداروں کی نجکاری کرنے سے پہلے ہمارے معاشی ماہرین یہ سوچ لیں کہ حکومت کا واحد مقصد منافع کمانا نہیں ہوتا بلکہ عوام کی خدمت اور بہبود بھی حکومت پر لازم ہے۔ ایسے اداروں کی فروخت نہ صرف پہلے سے موجود بیروزگاری میں مزید اضافے کا باعث بنے گی بلکہ پبلک سروس کے یہ ادارے عوام کی جیب پر زیادہ بھاری ہو جائیں گے۔ ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ قومی ادارے عوام کی ملکیت ہی رہنے دیں ورنہ ہمارا حال بھی اُن ملکوں جیسا ہوگا جہاں قومی اور عوامی اداروں کو فروخت کر کے معاشی عدم استحکام کی راہ ہموار کی گئی‘ جس سے سیاسی عدم استحکام نے جنم لیا۔ ابتر معاشی حالت سے فرد کی بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی بے چینی‘ سماجی ابتری اور بے چینی کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسی ہی صورت حال پر جون ایلیا کہتا ہے: میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس! خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved