ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندگی بھر کچھ نہ کچھ ایسا کرنے کی تمنا دل میں پالتے رہتے ہیں جو ہمیں تادیر زندہ رکھے۔ سب جانتے ہیں کہ اس دنیا سے ایک دن جانا ہے۔ یہ چند روزہ زندگی ہمارے لیے سب کچھ نہیں مگر پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ اس چند روزہ زندگی کو اتنا بار آور بنائیں کہ ایک دنیا دیکھے‘ رشک کرے اور ہمیں ہمارے جانے کے بعد بھی یاد رکھے۔ یاد رکھے جانے کی خواہش ہی تو انسان کو وہ سب کچھ کرنے کی توفیق عطا کرتی ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ کیا محض خواہش کر لینے سے انسان کچھ زیادہ کر سکتا ہے؟ یقینا ایسا ممکن نہیں۔ ایک تو ہوتی ہے گزارے کی سطح۔ اس سطح پر سبھی جیتے ہیں۔ عام آدمی صبح سے شام تک محنت کرتا ہے تاکہ اپنا اور اپنے متعلقین کا پیٹ بھر سکے۔ پیٹ بھرنا ہماری انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کے پورا ہونے ہی پر ہم مزید کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ گزارے کی سطح ہی میں کھپ جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی اخراجات بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور یوں گزارا مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ پھر وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اور پاتے ہیں وہ سب گزارے کی چوکھٹ پر قربان ہو جاتا ہے۔
گزارے کی سطح سے بلند ہونے ہی پر ہم کچھ ایسا کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں جو ہمیں زندگی کی رفعت یقینی بنانے میں مدد دے۔ زندگی کے بہت سے تقاضے ہیں۔ ایک تقاضا تو پیٹ بھرنے کا ہے۔ اس منزل سے گزرنے کے بعد ہم پر اور بھی بہت سے فرائض عائد ہوتے ہیں۔ اپنے ماحول کو سمجھنا اور اس کے تقاضے نبھانا بھی ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ ماحول ہمیں بہت کچھ دے رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم پر بھی تو لازم ہے کہ ہم ماحول کو کچھ دیں۔ ماحول کا معیار بلند کرنا ہمارا بنیادی فرض ہے۔ ماحول میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش ہر اُس انسان پر فرض ہے جو اپنے آپ کو بامقصد زندگی کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے۔
ہم عمومی سطح سے اسی وقت بلند ہو سکتے ہیں جب کچھ کر گزرنے کی طلب دل میں توانا ہو۔ یہ طلب یا خواہش ہم سے بھرپور لگن کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ یہ لگن ہی تو ہے جو انسان کو پہاڑ کھود ڈالنے کی بھی تحریک دیتی ہے۔ کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کی خواہش اور لگن اسی وقت پروان چڑھائی جا سکتی ہے جب انسان اپنے آپ کو ماحول سے ہم آہنگ کرے۔ ماحول سے ہم آہنگی پیدا کرنے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اس کے سانچے میں ڈھل جائیے اور اپنے وجود کو فراموش کردیجیے۔ ماحول سے ہم آہنگ ہونے کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ اس کے تقاضوں کو سمجھا جائے‘ اس کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے اور جو کچھ بھی اس سے مل سکتا ہے وہ لیا جائے۔ ہاں‘ اس کے بدلے میں ماحول کو بہت کچھ دینا بھی ہمارا فرض ہے۔ ماحول سے کچھ لینا اور اسے کچھ دینا اسی وقت ممکن ہے جب اسے اس کی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کیا جائے۔ جب تک ہم کسی چیز کو قبول نہیں کر لیتے تب تک اس کے حوالے سے کچھ کرنے کا ذہن بھی نہیں بنا سکتے۔
ماحول سے بہت کچھ لیا ہی نہیں جا سکتا‘ سیکھا بھی جا سکتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ انسان بہت حد تک اپنے ماحول ہی کی پیداوار ہوتا ہے۔ کچھ تو ایسا ہے جو کسی انسان سے براہِ راست سیکھا جاتا ہے۔ کچھ وہ ہے جو مشاہدے کی شکل میں ہمارے ذہن تک پہنچتا ہے‘ ہماری فکری ساخت کا حصہ بنتا ہے اور ہم معاملات کو سمجھنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ اور پھر مطالعہ بھی تو ہے جو ہمیں بلند ہونے کی راہ دکھاتا ہے۔ کسی بھی ماحول میں سب کچھ منفی ہوتا ہے نہ مثبت۔ خوبیاں اور خامیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ہم جس ماحول کا حصہ ہوتے ہیں اُس سے ہمیں کچھ خوبیاں ملتی ہیں جو ہماری زندگی کا معیار بلند کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور خامیوں سے ہمیں بچنا ہوتا ہے۔ خامیوں کے معاملے میں غیر فعال طرزِ فکر و عمل ہمیں نقصان سے دوچار کر سکتی ہے اور کرتی ہی ہے۔ ماحول کی ہر خوبی ہماری شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماحول کی خامیوں سے بچنا ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں ہوتا کیونکہ یوں ہم اپنے وجود کو ممکنہ نقصان سے بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ماحول کئی پرتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سب سے پہلے گھر ہے‘ اس کے بعد رشتہ دار‘ پڑوسی پھر احباب، ''ہم نفسانِ معاش‘‘ اور دیگر بہت سے افراد۔ یہ سب مل کر ہمیں کچھ دیتے ہیں اور کچھ لیتے ہیں۔ یہ لین دین شعوری سطح پر بھی ہوتا ہے اور تحت الشعور کی سطح پر بھی۔ ہر دو صورتوں میں ہمیں کچھ ملتا ہے اور ہم کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔ سیکھنے کا مطلب خامیوں اور خرابیوں سے بچنا ہوتا ہے۔ اگر ہم سیکھے ہوئے معاملات کا اپنی زندگی پر اطلاق نہ کر سکیں تو ہمارے لیے کوئی بھی مثبت تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔ ایسے میں زندگی کی نمو کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
انسان سب سے زیادہ اپنے گھر سے سیکھتا ہے۔ اس کے بعد خاندان کا نمبر آتا ہے۔ دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے یا انہیں دیکھ کر بہت سے غلط معاملات سے مجتنب رہنے کی تحریک ملتی ہے۔ اسی طور ہم معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ حالات کی روش ہمیں درست راہ پر گامزن رہنے کی تحریک دیتی رہتی ہے۔ واقعات و حوادث ہماری فکری ساخت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ اہلِ علم و فن کی صحبت ہمیں زندگی کا معیار بلند کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ علمی اعتبار سے انتہائی بلیغ شخصیات ہمیں کچھ ہی دیر میں بہت کچھ دینے کی اہلیت اور سکت رکھتی ہیں۔ معاشرہ چاہے کسی بھی سطح اور کسی بھی معیار کا ہو‘ اس میں اہلِ علم و فن ہوتے ہی ہیں اور ان سے اکتسابِ علم و فن کیا ہی جا سکتا ہے۔ مواقع ملنے پر بھی اگر کوئی زندگی کا معیار بلند کرنے کی راہ پر گامزن نہ ہونا چاہے تو اس کی مرضی۔
سیکھنا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ آپ بھی یہیں ہیں اور ماحول بھی یہیں ہے۔ جیے جائیے اور سیکھتے جائیے۔ ہاں جو کچھ سیکھا جائے اسے عمل کی کسوٹی پر بھی پرکھا جائے تاکہ زندگی کا معیار بھی بلند ہوتا رہے۔ عمل ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان نے کیا‘ کتنا اور کیسا سیکھا ہے۔ کسی بھی انسان کیلئے ماحول کُھلی کتاب کی طرح ہوتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے جائیے اور زندگی کیلئے جو بھی جامع منصوبہ آپ نے تیار کر رکھا ہے اس میں ضروری تبدیلیوں کے مرحلے سے گررتے جائیے۔ کوئی بھی گیم پلان حتمی نہیں ہوتا۔ اسی طور کوئی بھی لائف گیم پلان بھی حتمی نوعیت کا نہیں ہو سکتا۔ متعلقہ واقعات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے موزوں ترین تبدیلیاں یقینی بنانا ہی پڑتی ہیں۔ ماحول میں جو کچھ رونما ہو رہا ہے وہ ہم پر بے نقاب ہوکر ہمیں بتاتا ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے‘ کس سمت جانا ہے اور کس سمت جانے سے مکمل گریز کی راہ پر گامزن رہنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماحول ہی ہمارا سب سے بڑا اُستاد ہوتا ہے۔ معلم نہیں‘ اُستاد۔ معلم صرف درس دیتا ہے جبکہ اُستاد زندگی بسر کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ لفظ اُستاد زندگی کے عملی پہلو سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ ماحول بھی ہمیں وہی سب کچھ سکھانے پر آمادہ رہتا ہے جو زندگی کے عملی پہلو کو زیادہ روشن اور بار آور بنانے کے لیے ناگزیر ہو۔
اگر کسی نے طے کیا ہے کہ دوسروں سے بہت مختلف اور بلند تر معیار کی زندگی بسر کرنی ہے تو ماحول سے ہم آہنگ ہوئے بغیر چارہ نہیں۔ جو کچھ ہم پر اثر انداز ہوتا ہو یا ہو سکتا ہو اُس سے بچنا لازم ہے اور جو کچھ بھی ہم ماحول سے لے سکتے ہیں وہ لینا ہی ہے۔ اس حوالے سے مثبت طرزِ فکر و عمل معاش اور معاشرت دونوں ہی معاملات انتہائی کارآمد ہے۔ مثبت طرزِ فکر و عمل کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی ناگزیر تبدیلی کو ٹالنے سے گریز کرے اور ڈٹا رہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ تبدیلی کی راہ پر گامزن رہنا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved