تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     04-12-2023

گوجرانوالہ میں استحکام پاکستان کانفرنس

گوجرانوالہ پاکستان کا ایک بڑا اور معروف شہر ہے۔ یہ کھانے پینے کے لحاظ سے خاصا معروف ہے اور یہاں کا باربی کیو، کڑاہی اور دیگر کھانے پورے پنجاب میں اپنی ایک مخصوص شہرت رکھتے ہیں۔ ملک بھر سے لوگ فقط کھانا کھانے کے لیے بھی یہاں آتے ہیں اور یہاں کے منفرد کھانے کھا کر لطف اٹھاتے ہیں۔ گوجرانوالہ پہلوانی کے حوالے سے بھی مشہور ہے اور یہاں کے نوجوانوں کو ورزش اور باڈی بلڈنگ میں غیر معمولی دلچسپی ہے اور وہ اپنی جسمانی نشوونما پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں دینی تعلیم اور تدریس کا بھی بھرپور ماحول ہے اور یہاں بڑے بڑے مراکز اور مدارس موجود ہیں جہاں پر لوگ اپنی علمی تشنگی کو دور کرنے کے لیے لمبا سفر طے کرکے آتے ہیں۔ بہت سے جید علمائے کرام کا تعلق گوجرانوالہ سے رہا ہے۔ مولانا اسماعیل سلفی ایک عرصۂ دراز تک گوجرانوالہ میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ اسی طرح گوجرانوالہ کے مشہور شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی نے بھی ایک عرصۂ دراز تک جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں تدریس کے فرائض کو سرانجام دیا۔ مولانا ابو البرکاتؒ، حافظ عبدالمنان نور پوری ؒ، حافظ عبدالسلام بھٹویؒ ، مولانا محمد اعظم ؒاور دیگر بہت سی ممتاز علمی شخصیات نے عرصۂ دراز تک گوجرانوالہ میں تعلیم و تدریس ا ور خطابت کے فرائض کو انجام دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشہور عالم دین مولانا سرفراز صفدر نے بھی اپنا مرکز ومحور گوجرانوالہ کو بنائے رکھا۔ اُن کے فرزند مولانا زاہد الراشدی اِس وقت بھی گوجرانوالہ کی زینت ہیں اور اپنے قلم اور زبان کے ذریعے اہلِ گوجرانوالہ کی بصیرت افروز فکری رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے سابق امیر مولانا عبداللہ ایک دل آویز شخصیت تھے اور ان کو علم دین اور تدریس کے ساتھ ساتھ پہلوانی کے ساتھ بھی خوب شغف تھا۔ مولانا گوجرانوالہ کے سماجی ، سیاسی اور مذہبی حلقوں میں اپنی ایک غیر معمولی شناخت رکھتے تھے اور ضلع بھر میں آپ کے رعب ودبدبہ کی غیر معمولی شہرت تھی۔
گوجرانوالہ میں والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ بھی وقفے وقفے سے جایا کرتے تھے اور یہاں پر آپ کی زندگی میں بہت سے بڑے بڑے پروگراموں کا انعقاد ہوا جن میں نوجوان بڑے جوش و جذبے سے شرکت کرتے رہے۔ میرے ننھیال کا تعلق بھی گوجرانوالہ کے ساتھ ہے اور ددھیال بھی کافی عرصہ قبل سیالکوٹ سے گوجرانوالہ منتقل ہو گیا تھا۔ اس لیے مجھے بچپن ہی سے گوجرانوالہ شہر جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ بعد ازاں جب میں نے میدانِ ـ خطابت میں قدم رکھا تو مجھے کئی مرتبہ گوجرانوالہ میں دوست احباب کی دعوت پر وہاں جانے کا موقع میسر آیا۔ تقریباً ڈیرھ ماہ قبل قرآن وسنہ موومنٹ گوجرانوالہ کے دوست احباب نے مجھ سے رابطہ کیا اور گوجرانوالہ منی سٹیڈیم میں ایک جلسے سے خطاب کی دعوت دی۔
پاکستان اس وقت جس سیاسی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس کے حل کے لیے ہر طبقہ فکر کے لوگ اپنے اپنے انداز میں مشاورت کے فریضے کو انجام دیتے رہتے ہیں۔ خلوصِ نیت سے اپنی آرا اور تجاویز کو پیش کرنا یقینا ہر اعتبار سے ایک مفید عمل ہے اور اس کا جاری رہنا پاکستان کی تعمیر وترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ منی سٹیڈیم گوجرانوالہ میں 26 نومبر کو استحکام پاکستان کانفرنس کا پروگرام طے کیا گیا اور اس کانفرنس کے لیے گوجرانوالہ کے طول وعرض میں پھیلی شہر کی نمایاں علمی اور تنظیمی شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ چودھری یوسف کھوکھر، حافظ ابوبکر ایوب، شیخ قاسم علی اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے دوست احباب نے جلسے کے انتظامات اور فریضے کو بطریق احسن انجام دیا۔ ان قائدین کے ساتھ ساتھ ذاکراللہ ہنجرا، مولانا مظفر ورک ، شیخ مولانا رحمت اللہ بٹ، عتیق الرحمن ایڈووکیٹ ، ملک عابد ، فیصل محمود شاکر ، حافظ اسامہ ، عظمت ورک، قاری عثمان سیکھو، ابتسام عبدالرشید، شیخ احسان الٰہی سعید اور دیگر بہت سے دوست احباب نے بھی بھرپور انداز سے محنت کی۔ 26 نومبر کو منی سٹیڈیم گوجرانوالہ میں ظہر کی نماز کے بعد شروع ہونے والی اس کانفرنس میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر برادر عبدالرزاق اظہر، مولانا امانت الرحمن عثمانی، مولانا بشیر احمد خاکی، نوریز ملک، قیم الٰہی ظہیر ، قدرت اللہ بٹ، سیف الرحمن بٹ اور دیگر مقررین نے شاندار انداز میں اپنے خیالات کو گوجرانوالہ کے احباب کے سامنے پیش کیا۔ مجھے بھی اس بڑے جلسہ عام میں آخری خطیب کے طور پر خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے اس موقع پر جن خیالات کو سامعین کے سامنے پیش کیا اُن کو کچھ اضافے اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
پاکستان ہمارا دیس ہے اور اس کے ساتھ ہماری غیر معمولی وابستگی ہے۔ ہر ذی شعور شخص کو اپنے دیس کے ساتھ پیار ہوتا ہے اور سلیم الطبع لوگ ہمیشہ اپنے دیس کو سنوارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اپنے اپنے علم، تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں ہر شخص کی خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ اپنے دیس کو سنوارنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ۔ جس کی اساس اور بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی۔ قیام پاکستان کے وقت یہ نعرہ پورے برصغیر میں لگایا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ''لاالہ الا اللہ ‘‘ ۔ اور ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے فقط پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں ہی نے بھرپور انداز میں اس مطالبے کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ برصغیر میں رہنے والے ان مسلمانوں نے بھی اس مطالبے کا ساتھ دیا جو پاکستان میں شامل نہ ہو سکے۔ بہت سی قربانیاں دینے کے بعد اس وطن کو حاصل کیا گیا ، کثیر تعداد میں لوگوں نے اپنے گھربار کو چھوڑا اور بڑے پیمانے پر ہجرت کرکے اس وطن میں آ کر آباد ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت مسلمانانِ برصغیر اس بات پر خوش تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے اُن کو انگریزی استبداد اور ہندوؤں کی مکاری سے نجات حاصل ہوئی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کو ایک قطعہ ارضی عطا فرما دیا جس میں کتاب وسنت کی تعلیمات کے مطابق وہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ انفرادی سطح پر بہت بڑی تعداد میں مسلمان اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک دین پر عمل پیرا ہیں لیکن بحیثیت مجموعی پاکستان میں آج بھی بہت سے کام جاری وساری ہیں جو کتاب وسنت کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آئین میں کتاب وسنت کی عملداری کی یقین دہانی کے باوجود سودی لین دین، منشیات فروشی اور قحبہ گری کے اڈوں کی موجودگی درحقیقت پاکستان کے نظریاتی تشخص کو مجروح کرتی ہے۔ پاکستان میں فواحش اور منکرات کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے اور انجمنیں ہر وقت کوشاں رہتے ہیں اور ملک بھر میں عورت مارچ جیسے پروگراموں اور ٹرانس جینڈر بلوں کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کسی بھی طور پر پاکستان کے نظریاتی تشخص کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے دینی طبقات اس حوالے سے بے تاب اور بے چین رہتے ہیں لیکن پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اس حوالے سے پاکستانی عوام کی ترجمانی کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتیں۔ پاکستان کی دینی جماعتیں ایک عرصے سے پاکستان کو اس کی اساس کی طرف پلٹانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن ان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان کے نظریاتی تشخص کی بحالی کے لیے ملک کے تمام اداروں، انجمنوں اور جماعتوں کو ایک پیج پر آ کر اپنا کردار بطریق احسن ادا کرنا چاہیے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو معاشی طور پر ترقی کے راستے پر چلانے کے لیے اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ سود جیسی لعنت سے نجات حاصل کی جائے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف اعلانِ جنگ بندکرکے ملکی معیشت کو سودی لین دین سے پاک کیا جائے۔ پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کے لیے کتاب وسنت میں مذکور ہ ہدایات اور تعلیمات پر بھرپور طریقے سے عمل ہونا چاہیے اور پاکستان میں کتاب وسنت کی عملداری کو یقینی بنانا چاہیے۔ اسی کی بدولت پاکستان کے معاشی حالات بہتری کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔
پاکستان اُمت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز ومحور ہے اور بہت سے بین الاقوامی تنازعات جن میں مسلمانوں کے حقوق کو غصب اور پامال کیاجاتا ہے اس حوالے سے پاکستان کو اپنے کردار کو مؤثر طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ حالیہ ایام میں مسئلہ فلسطین پر پوری اُمت بے قراری کا شکار نظر آتی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ عملی طور پر اس حوالے سے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ پاکستان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایٹمی اثاثوں سے نوازا اور دین بھر میں پاکستان کو بڑی عسکری طاقت کا حامل ملک گردانا جاتا ہے ۔ پاکستان کو اپنی اس طاقت کو فلسطین ، مقبوضہ کشمیر اور برما (میانمار)کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں اس طریقے سے استعمال کرنا چاہیے کہ اُن کے حقوق کی پاسداری اور بحالی کے لیے بھرپور طریقے سے آواز کو اُٹھایا جائے۔ پاکستان کو طاقتور بنانے کے لیے اسلام اور آئین کے مطابق حقوق وفرائض کی جو تقسیم مختلف اداروں کے درمیان کی گئی ہے اس پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہیے۔ ملک بھر میں سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے منصفانہ انتخابات کا بروقت انعقاد ہونا چاہیے تاکہ ملک میں سیاسی ڈیڈلاک کو ختم کیا جا سکے۔
اس موقع پر سامعین نے تمام مقررین کی تقاریر کو بڑی توجہ کے ساتھ سنا اور ان کے خطابات کی بھرپور انداز میں تائید کی۔یوں یہ کانفرنس اپنے جلو میں بہت سی خوش گوار یادوں کو لیے اختتام پذیر ہو گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved