بکھیڑے کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ہم زندگی بھر طرح طرح کی الجھنوں میں گھرے رہتے ہیں۔ مسائل کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے اور اُن کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اپنی نفسی یا فکری ساخت بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بھر میں سوچنے کے حوالے سے سوچا جا رہا ہے۔ سوچ ہی تو انسان کے لیے سب کچھ ہوتی ہے۔ جیسی سوچ ویسا انسان! ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں جو کچھ بھی پنپتا اور ابھرتا ہے اُسی کے ذریعے ہماری تشکیل و تطہیر ہوتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کو پستی کے گڑھے سے نکالنے اور رفعتوں سے ہم کنار کرنے میں کلیدی کردار سوچ کا ہوتا ہے۔ ہماری فکری ساخت ہی طے کرتی ہے کہ ہم کس طرف سے آئے ہیں اور اب کس طرف جانا ہے۔ ہماری طرزِ فکر ہی اِس امر کا تعین کرتی ہے کہ اپنے ماحول اور بیرونی معاشروں میں ہم کیا کر پائیں گے، کس حد تک کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گے۔ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیا کر پائیں گے اِس حوالے سے ہمیں دوسروں کے نقطۂ نظر سے کچھ زیادہ غرض نہیں ہونی چاہیے۔ ہم جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں وہ ہمیں اچھا لگنا چاہیے۔ سوال ہماری پسند و ناپسند کا ہے۔ بنیادی اہمیت اِس بات کی ہے کہ ہم جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہو، ہمارے مطلب کا ہو اور ہمیں کچھ دینے کی سکت رکھتا ہو۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ اگر آپ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ آپ گھوڑے پر بیٹھے ہوئے کیسے لگیں گے تو آپ گھڑ سوار دستے کے رکن یا سربراہ کبھی نہیں بن سکتے! اگر کوئی کام آپ کو اچھا لگتا ہے اور کسی کے لیے تکلیف دہ بھی نہیں تو پھر اِس بات کی کچھ بھی اہمیت باقی نہیں رہتی کہ وہ کسی کو کیسا لگتا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک ''لوگ کیا کہیں گے‘‘ والی سوچ ختم نہیں ہوئی۔ ہمارا ذہن ہمہ وقت یہ راگ الاپتا رہتا ہے۔ آپ جو کچھ بھی بننا اور کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کے مفاد کا معاملہ ہے۔ یہ سب کچھ آپ ہی کو طے کرنا ہے۔ ایسے میں ''لوگ کیا کہیں گے‘‘ کا سوال کہاں سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے؟ آپ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوسروں کے لیے اُن کی زندگی ہے۔ آپ کی زندگی کا رُخ دوسروں کی پسند و ناپسند کی بنیاد پر طے کیوں ہونا چاہیے؟ عمومی یا پست سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے کے قابل ہونے کی تیاری آپ کو کرنی ہے۔ اِس حوالے سے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ بھی آپ ہی کو کرنا ہے۔ جب سبھی کچھ آپ کی ذمہ داریوں کے دائرے میں گھوم رہا ہے تو کسی کی پسند و ناپسند رکاوٹ کیوں بنے یا اُسے رکاوٹ بننے کا موقع کیوں دیا جائے؟
لباس، خور و نوش، میل جول، کام کاج، فکری رجحان‘ سب کچھ آپ کے مزاج کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ آپ کو وہی کھانا چاہیے جو آپ کو اچھا لگتا ہو۔ آپ کے تن پر وہی لباس ہونا چاہیے جو آپ کی مرضی کا ہو اور آپ کو اچھا بھی لگتا ہو۔ کوئی آپ کو اگر کسی خاص لباس میں دیکھنا چاہتا ہو تو اُس کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنی پسند کے لباس کو کسی کی طرف سے مسترد کردیے جانے کی صورت میں اُس کی رائے لازمی طور پر مانی جائے۔ سوال زندگی کا ہے۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں تو کسی کی رائے کو تھوڑی بہت اہمیت دی جاسکتی ہے مگر جہاں سوال زندگی کا ہو وہاں ناگزیر ٹھہرتا ہے کہ ہم اپنے لیے کوئی راہ متعین کریں اور اُس پر گامزن رہنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔ دوسروں کی رائے کا احترام بُری بات نہیں مگر یہ ناگزیر نہیں۔ دوسروں کی رائے سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے اور اختلافِ رائے کے اظہار میں بُخل سے کام لینا نقصان دہ ہوتا ہے۔ جو کچھ آپ کے ذہن کے پردے پر اُبھرتا ہے اُس کے اظہار میں جھجھک کیسی؟ ہاں‘ اظہار کا سلیقہ ہونا چاہیے۔ کسی بھی بات کو سوچے سمجھے بغیر بیان کردینا اچھی بات نہیں۔ اِس کے لیے محل بھی دیکھنا چاہیے اور بولنے کا ڈھنگ بھی آنا چاہیے۔
معاشرے یا ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہم سے متعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمارے مفاد میں ہوتا ہے۔ بہت سوں کو آپ ایک آنکھ نہ بھاتے ہوں گے۔ اِس کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ ایسے کسی بھی فرد کو یہ کبھی گوارا نہیں ہوسکتا کہ آپ معقول انداز سے زندگی بسر کریں۔ ایسے میں اُن کے پاس آپ کو پریشان کرنے کے آپشن اپنانے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ لازم نہیں کہ وہ بے نقاب ہوکر سامنے آئیں۔ یہ مختلف طریقوں سے آپ کا انہماک متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ آپ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی راہ پر گامزن نہ ہوں۔ آپ کو بدگمان کرنا، اپنی صلاحیت و سکت کے حوالے سے شک میں مبتلا کرنا، انہماک منتشر کرنا اِن کا ذریعہ ہوتا ہے اور مقصد بھی۔ یہ افراد چاہتے ہیں کہ آپ وہ سب کچھ نہ بن سکیں جو آپ بن سکتے ہیں اور وہ سب کچھ نہ کر پائیں جو آپ کرسکتے ہیں۔ اِس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے ایسے لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ہاں‘ اُن کی بیشتر سرگرمیاں ڈھکی چھپی بھی ہوسکتی ہیں۔ ایسے لوگ آپ کے بارے میں بدگمانیاں بھی پھیلاسکتے ہیں اور آپ کو بدگمانیوں میں مبتلا بھی کرسکتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو بروقت شناخت کرنا اور اِن سے دور رہنا لازم ہے۔
ماحول کی مجموعی کیفیت ایسی ہوتی ہے جس میں آپ کا حوصلہ بڑھانے والی باتیں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ آپ کو اپنے لیے موافق معاملات تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ کسی بھی ماحول میں حوصلہ شکنی کرنے والے معاملات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہر انسان اپنے مفادات کی تکمیل اور حصول چاہتا ہے۔ ایسے میں مفادات کا تصادم ناگزیر ہے۔ بعض صورتوں میں یہ تصادم اِس قدر نازک اور باریک ہوتا ہے کہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔ مفادات کا تصادم اگر کھلا ہو تو انسان چوکنّا ہوکر اپنے دفاع کے لیے بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ آپ کو ایسی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھنا پڑتی ہے جو آپ کے خلاف جارہی ہوں یا جاسکتی ہوں۔ لازم نہیں کہ آپ کے خلاف جانے والا ہر معاملہ کسی ذہن ہی کی پیداوار ہو۔ کبھی کبھی معاملات کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ بہت کچھ خود بخود ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں ٹھوس جواز کے بغیر کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
آپ جس طرز کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں وہ تمام متعلقین کو پسند آئے‘ یہ لازم نہیں۔ کچھ لوگوں کو آپ کی طرزِ زندگی سے بلا جواز بھی چڑ ہوسکتی ہے۔ یہ اُن کی فکری ساخت کا مسئلہ ہے۔ آپ کو اس معاملے میں مفت کے احساسِ جرم سے بچنا ہے۔ بہت سوں کا معاملہ یہ ہے کہ اپنے فکر و عمل کے لیے سنجیدہ ہونے کے بجائے اِس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ دوسرے کیا سوچ رہے ہوں اور اُنہیں کس طور خوش رکھا جائے۔ یہ فکری رویہ انسان کو محض الجھنوں کی طرف لے جاتا ہے۔ کسی کو آپ کے مفاد سے کیا غرض ہوسکتی ہے؟ ہاں‘ آپ کے لیے الجھنیں پیدا کرنے کا معاملہ ہو تو چند افراد پیش پیش ضرور دکھائی دے سکتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیے! ماحول میں آپ کے مفاد کا سوچنے والے خال خال ہیں۔ اُنہیں تلاش کیجیے، اُن سے میل جول رکھیے اور اُن پر متوجہ رہیے۔ حاصلِ بحث یہ کہ اگر آپ اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو کسی کی پسند و ناپسند کے بارے میں منطقی انداز سے سوچا جا سکتا ہے مگر اُس کی رائے کے آگے سرِتسلیم خم کرنا ضروری نہیں۔ اگر آپ اپنے ہدف سے مطمئن ہیں اور اپنی صلاحیت و سکت پر پورا بھروسا ہے تو پھر اِس غم میں کبھی مبتلا نہ رہیے کہ کوئی کیا سوچ رہا ہے اور کون آپ کے بارے میں کیا رائے پھیلا رہا ہے۔ آپ کو اپنے کام پر متوجہ رہنا ہے۔ فی زمانہ اِتنا وقت کسی کے پاس نہیں کہ دوسروں کے بارے میں سوچ سوچ کر اسے ضائع کرتا پھرے۔
جو کچھ بھی بننا ہے اور جو کچھ کرنا ہے اُس کے بارے میں سنجیدہ رہیے۔ یہی زندگی ہے۔ معاشرتی روابط اپنی جگہ؛ تاہم اُنہیں آپ کی زندگی میں مخل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ دانش مندی کا حقیقی تقاضا یہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved