تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     11-10-2013

شٹ ڈاؤن‘ امریکہ

محمد افضل سیونتھ سٹریٹ ساؤتھ ویسٹ پر ہاٹ ڈاگ‘ چپس اور سوڈے کی ریڑھی لگاتا تھا۔لنچ کے کاروبار کے لئے اس کا ٹھکانہ نفع بخش تھا ۔محکمہ تعلیم‘ ہنگامی حالات میں امداد کرنے والا ادارہ FEMA محکمہ زراعت کا قائم کردہ کالج‘ ایئر اینڈ سپیس میوزیم اور بعض دوسری وفاقی ایجنسیاں آس پاس تھیں۔افضل وفاقی حکومت کا ملازم نہیں تھا مگر جب سے بجٹ منظور نہ ہونے سے حکومت کا کا روبار ٹھپ ہو ا ہے افضل بھی وہاں دکھائی نہیں دیا ۔ وہ ایک دیہاڑی دار مزدور تھا۔ نہ جانے وہ کس حال میں ہو گا ؟ امریکی حکومت ایک ہفتہ بند رہنے کے بعد جزوی طور پر دوبارہ کھل گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ قدامت پسند ری پبلیکن اور ترقی پسند ڈیمو کریٹ کی نظریاتی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ اس دوران امریکہ کا حال صومالیہ جیسا تو نہیں ہوا مگر واشنگٹن کے موچی دروازہ یا نیشنل مال پر کوڑے کرکٹ کے انبار لگ گئے تھے جو میئر کے حکم پر شہر کے عملہ صفائی نے ٹھکانے لگائے۔ اب بلدیہ کے فنڈ بھی ختم ہونے کو ہیں۔ سارے ملک میں پھیلے‘ وفاقی حکومت کے مستقل اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے اکیس لاکھ میں سے آٹھ لاکھ ’’غیر لازم‘‘ ملازمین بلا تنخواہ ( فرلو) چھٹی پر تھے ۔باوردی فوجیوں کو تو استثنا تھا مگر حکومت کو تخریب کاروں کے عزائم سے باخبر رکھنے والے لاکھوں سویلین فرلوپر تھے ۔ محکمہ دفاع کے کوئی ساڑھے تین لاکھ سویلین کنٹریکٹر نیا ہفتہ شروع ہونے پر واپس آگئے ۔حکومت کے بند ہونے سے نو زائیدہ بچوں کے غذائی پروگرام اور سرکاری تفریح گاہوں پر شادیوں کے منصوبے منسوخ ہوئے اور زکام کا موسم شروع ہونے پرCDC یا بیماریوں پر قابو پانے کے مرکز کے تحقیقی پراجیکٹ پس پشت ڈالے گئے ۔ابھی وفاقی حکومت کو چلتا رکھنے کے لئے ضروری اخراجات کی منظوری باقی تھی کہ صدر اوباما نے کانگرس کو خبردارکیا کہ اگر سترہ اکتوبر تک اس نے قرضے کی سطح سترہ ٹریلین ڈالر سے بلند نہ کی تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا ۔ اسلام آباد کی طرح واشنگٹن بھی ملک کے صدر مقام کے طور پر بنایا گیا تھا۔ زیادہ تر سرکاری دفاتر اس کی دو بڑی سڑکوں (انڈیپنڈنس ایونیو اور کانسٹی ٹیوشن ایونیو) پر واقع ہیں مگر سیاحوں کی دلچسپی کا سامان بھی جن میں سمتھ سونین کے سات میوزیم اور دو آرٹ گیلریاں شامل ہیں‘ انہی کشادہ سڑکوں پر موجود ہیں ۔چونکہ ان عجائب گھروں اور قوم کے بانیوں کی یاد گاروں میں داخلہ مفت ہے اس لئے وہ سارے ملک اور باہرسے لوگوں کی کشش کا باعث بنتے ہیں ۔ دوسری جنگ عظیم کی یادگار بھی انہی دنوں تعمیر ہوئی ہے۔ جب اس جنگ سے بچ رہنے والے سپاہی ملک بھر سے واشنگٹن آئے تو انہیں پتہ چلا کہ یادگار بند ہے۔ قومی چڑیا گھر بھی بند تھا اور جانور بالخصوص چین کے عطا کردہ پانڈے منہ اٹھائے اپنے مداحوں کے منتظر تھے۔ ایئر اینڈ سپیس میوزیم بھی مقفل تھا اور اس کے ساتھ انسان کو چاند تک لے جانے والی گاڑی اور سیارے کی سطح کو کاٹ کر زمین پر لا یاجانے والا چھوٹا سا پتھر بھی جو متجسس تماشائیوں کے بار بار چھُو نے سے گھس گیا ہے ۔ چونکہ وفاقی ملازمین کا بڑا حصہ واشنگٹن میں ہے اس لئے علاقے کی اکانومی کو بیس کروڑ ڈالر یومیہ کانقصان ہوا ۔صدر ابراہام لنکن نے غلامی کو خلاف قانون قرار دیا اور روزویلٹ اور کینیڈی نے شہری حقوق نافذ کئے اس لئے جنوب کے سیاہ فاموں ( افریقی امریکیوں) نے قومی دارالحکومت کا رخ کیا اور بتدریج شہر میں ان کی اکثریت ہو گئی ۔ گزشتہ پچاس سال سے واشنگٹن کا منتخب میئر سیاہ فام چلا آرہا ہے مگر یہاں نسلrace کا نام لینا گناہ اور جرم سمجھا جاتا ہے ۔ایوان نمائندگان میں شہر کی واحد نمائندہ جسے ووٹ کا حق نہیں ہے ایلا نور ہومز نورٹن‘ مرکزی حکومت کو فنڈز جاری کرنے میں کانگرس کی ناکامی پر وا ویلا کر رہی تھیں؛ تاہم ایک بات جس پر دونوں پارٹیاں متفق نظر آئیں‘ یہ تھی کہ اس بحران کا قصور وار کون ہے ؟ دونوں نے ایک دوسرے کو مطعون کیا ۔دونوں فریق کہہ رہے تھے کہ رائے دہندگان ان کے ساتھ ہیں مگر یہ طے ہونا باقی تھا کہ اکثریت کس کے ساتھ ہے ۔ زمین دوز مقامی ریل (میٹرو) چلتی رہی اگرچہ گاڑیوں کی تعداد کم کر دی گئی تھی ۔ہوائی اڈوں کا نظام بر قرار رہا اور ایئر ٹریفک کنٹرولر بر سر کار رہے ۔بیشتر میونسپل سروسز گو وفاق کے عطیات سے چلتی ہیں مگر وہ بھی دستیاب رہیں ۔ گھر کا کوڑا بھی مقررہ دنوں پر اٹھا مگر NASAخلائی ادارے کے ملازمین گھروں پر رہے۔ اسی دوران کنیکٹی کٹ کی مریم کیری نے اپنی کار وائٹ ہاؤس کے صدر دروازے پر کنکریٹ کی بھاری رکاوٹوں سے ٹکرا دی اور کیپیٹل پولیس کے نصف درجن جوانوں نے سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے اس دیوانی کو گولی مارکر کانگرس سے داد پائی۔ پولیس کے ان جوانوں کو بھی یقین نہیں تھا کہ انہیں اس دن کی پگار ملے گی۔البتہ مریم کو یقین تھا کہ صدر اوباما اس پر مرتے ہیں۔ اگلے دن ایک شخص نیشنل مال پر خود سوزی کی کوشش کے بعد اسپتال پہنچا۔وہ دونوں‘ سیاہ فام تھے ۔ وفا قی حکومت کا بند ہونا ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی اثر انداز ہوا۔ صدر اوباما نے چار ایشیا ئی ملکوں کا دورہ منسوخ کیا جن میں انڈونیشیا اور برونائی میں اعلیٰ سطحی کانفرنسیں شامل تھیں اور جہاں وہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی مل سکتے تھے ۔ جنوب مشرقی ایشیا کے لیڈر سوچ رہے تھے کہ کسی ایسی قوم سے معاملہ کیونکر کریں جس کا لیڈر سفر خرچ پاس نہ ہونے پر آخری لمحے غائب ہو سکتا ہے۔ بیس لاکھ سے زیادہ وفاقی ملازمین کی تنخواہ کے چیک تاخیر کا شکار ہوں گے اور آٹھ لاکھ کو شائد ان دنوں کی اجرت ہی نہ ملے ۔فرلو کا نشانہ بننے والے سرکاری ملازم آن لائن بے روزگاری الاؤنس کی درخواستوں کے فارم پُر کر رہے ہیں ۔لاکھوں سابق فوجیوں کی پنشن بھی خطرے میں تھی۔ خوراک اور دواؤں کے محکمے نے کھیت سے دکان تک غذاؤں کی نگرانی بند کر دی تھی اس لئے شہریوں کی صحت کو خطرہ لاحق ہوا۔سائنسدانوں نے کہا کہ حکومت کی بندش نے طول کھینچا تو امریکہ کی ایجاد خواہی اور قوت مسابقت کو نقصان پہنچے گا۔چھوٹے کاروباروں کی انتظامیہ نے گزشتہ چار سالوں میں ایک لاکھ 93ہزار دکانداروں کو106 بلین ڈالر کے برابر قرض کی ضمانتیں مہیا کی ہیں۔ یہ سلسلہ رک گیا۔ شٹ ڈاؤن کے دوران‘ معذوری الاؤنس کی درخواستوں کی شنوائی نہیں ہو سکی اور سرطان میں مبتلا بچے‘ طبی امداد حاصل کرنے سے قاصر رہے ۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے اعلان کیا کہ وہ ہر ہفتے کوئی دو سو بچوں کو اپنے کلینکل ریسرچ سنٹر سے دُور رکھے گا ۔محکمہ زراعت نے عورتوں‘ نوزائیدہ بچوں اور بڑی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے غذا کے وہ پروگرام منسوخ کر دیئے جو حاملہ عورتوں اور نئی ماؤں کو صحت بخش خوراک خریدنے میں امداد کرتے ہیں ۔امریکہ نجی کاروبار کا ملک ہے مگر اس میں بھی پرائیویٹ کمپنیاں وہ خدمات سر انجام نہیں دے سکتیں جو حکومت کرتی ہے۔ نیشنل پارک سروس نے جو ملک بھر میں چار سو پارکوں‘ عجائب گھروں اور دوسرے تفریحی مقامات کی دیکھ بھال کرتی ہے‘ اپنا کام بند کر دیا تھا اور سیاح ان جگہوں کو مقفل پا کر حیران اور پریشان ہوئے ۔ان میں واشنگٹن کی قومی یادگاروں کے علاوہ کیلے فورنیا کے یوسیمائٹ باغات‘ گرینڈ کینئن غار‘ سان فرانسسکو بے کے کنارے الکا تراز کا تاریخی قید خانہ اور نیو یارک کے ساحل پر مجسمۂ آزادی کا پارک شامل ہیں جہاں پچھلی صدی کے شروع تک سینکڑوں تارکین وطن روزانہ بحری جہازوں سے اترتے اور نئی دنیا میں داخل ہوتے رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved